انتہا پسندی ، شدت پسندی یا پر تشدد رجحانات سمیت دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی میں دوبنیادی نوعیت کی سوچ موجود ہے ۔اول، اس مرض سے نمٹنے کے لیے ہمیں ریاستی ، حکومتی ، ادارہ جاتی اور معاشرے کی سطح پر بھرپور طاقت کا استعمال کرنا چاہیے۔جو لوگ بھی کسی انفرادی یا گروہ کی بنیاد پر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں یا خود کو قانون وآئین سے بالاتر سمجھ کراپنی رٹ قائم کرتے ہیں،ان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے ۔
دوئم، ایک طبقے کی رائے یہ ہے کہ ہمیں داخلی محاذ پر طاقت کے استعمال کو آخری حربہ کے طور پر استعمال کرنا چاہیے ، پہلی کوشش سیاسی حکمت عملی ترتیب دینا ، اسے بالادست کرنا اور اس کی بنیاد پر دہشت گردی اورانتہاپسندی سے نمٹنا ہونا چاہیے۔ اگر انتہا پسندی اور دہشت گردی یا اس جیسے دیگرامراض کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں نہ صرف سیاسی حکمت عملی بنیاد بنانا ہوگا بلکہ یہ جنگ عوامی حمایت اور کوششوں کے بغیر نہیں جیتی جاسکے گی۔ پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت کا دہشت گردی اور انتہاپسندی پسندی کے حوالے سے کردار واضح، غیرمبہم اور دوٹوک ہونا چاہیے۔اگر مگر چونکہ چنانچہ کے سابقوں اور لاحقوں کا استعمال دراصل دہشت گردی اور انتہاپسندی کی سہولت کاری ہی سمجھی جائے گی۔
دہشت گردوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے وقتی طور پر مثبت نتائج یقینا مل سکتے ہیں، جمہوریت و سیاست کے لبادے میں موجود سہولت کار بچ نکلتے ہیں اور تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد وہ دوبارہ پرانا کھیل شروع کردیتے ہیں۔ یوں ملک بدستور بحران کا شکار رہتا ہے۔ اب موجودہ حکومت نے دہشت گردی کے حوالے سے بھی کچھ ترامیم کی ہیں۔ بہرحال دہشت گردی ایک بنیادی مسئلہ ہے اور اس کے لیے ریاستی و حکومتی سطح پر غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر ہی ہمیں بڑے فیصلے کرنے ہیں ۔اس وقت بلوچستان اور خیبر پختونخوا دہشت گردی کے واقعات کا شکار ہیں اور یہ دونوں صوبے ہمارے لیے اسٹرٹیجک اہمیت رکھتے ہیں ۔ ان صوبوں میں دہشت گردی کا خاتمہ کیے بغیر یہاں معاشی ترقی کا عمل شروع نہیں ہوسکتا۔ افغانستان بھی ایک مسلہ ہے ۔کالعدم دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی افغانستان میں آزادانہ کام کررہی ہے۔
اس تنظیم کے دہشت گرد پاکستان میں موجود اپنے سہولت کاروں کے تعاون سے ہماری سیکیورٹی فورسز اور عوام کو ٹارگٹ کررہی ہیں۔ افغانستان کی حکومت ہمارے تحفظات پر کوئی بڑی پیش رفت کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسی بنیاد پر پاکستان اور افغانستان کے درمیا ن بداعتمادی کا ماحول بالادست ہے ۔ بلکہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد صورتحال بدترین ہوگئی ہے۔ پاکستان کا موقف بڑا واضح ہے اور اس کے شواہد بھی افغان حکومت کو دیے گئے ہیں کہ افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغا ن حکومت کی سہولت کاری کی بنیاد پر پاکستان میں نہ صرف دہشت گردی کرتے ہیں بلکہ ہماری داخلی سیاست کو عدم استحکام کی طرف بھی دھکیل رہے ہیں ۔
حالیہ کچھ عرصہ میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ اس وقت ہمارے دفاعی اور سیکیورٹی اہلکار ہیں۔ اسی طرح اب ایک منظم حکمت عملی کے تحت دفاعی تنصیبات کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ۔ ابھی تین دن قبل کوئٹہ میں ایک بڑا خود کش دھماکا ہوا ہے جس میں 27افراد شہید اور 56زخمی بھی ہوئے ہیں ۔یہ بڑا دھماکا ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کے قریب ہوا ہے جو یہ حقیقت عیاں کرتا ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے سہولت کار فعال ہیں۔ یہ حالات کی سنگینی کا احساس دلاتا ہے ۔
دہشت گردی کے واقعات میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن سیاسی قیادت کا رویہ سوائے مذمتی بیان بازی کے کچھ نہیں ہے ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کا رویہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ایسا کیا کرنا ہوگا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت سکیں ۔ ریاست ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے مگر داخلی قوتیں مزاحمتی کردار ادا کررہی ہیں۔ کے پی میں حالیہ جرگے بھی کوئی سولڈ حل تجویز نہیں کرسکے۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی ترجیحات مسلسل ابہام کا شکار ہیں۔ مذہبی سیاسی قیادت اور ان کا حامی طبقے کی اپنی ترجیحات اور تجاویز ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی ، ایم کیوایم ، مسلم لیگ ق، آئی پی پی ، اے این پی اور پی ٹی آئی سب اقتدار میں ہیں۔ یوں حزب اقتدار بھی یہی ہیں اور اپوزیشن بھی یہی ہیں لیکن ان کی باہمی سیاسی لڑائی میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کی کوئی کوشش یا حکمت عملی نظرنہیں آتی۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان محاذ آرائی کا فائدہ انتہاپسندوں کو ہے، خیبر پختونخوا حکومت اپنے صوبے میں خوشحالی لانے اور دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ بلوچستان میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت مل کر بھی کچھ نہیں کرسکی ۔
پارلیمنٹ میں حکومت خود کو مضبوط بنانے کے لیے ترامیم کررہی ہے جب کہ پی ٹی آئی بطور اپوزیشن حکومت کے ہر فیصلے اور کام کی مخالفت کررہی ہے۔ ۔مگر دہشت گردی اورانتہا پسندی کے خاتمے پر کوئی متفق نہیں ہے ۔ یوں پورا پارلیمانی نظام سمجھوتوں کا شکار ہے یا ان کی عدم دلچسپی نے سیکیورٹی کے حالات کو اور زیادہ خراب کردیا ہے ۔ایک طرف ہم داخلی سیاست کے کھیل میں اس حد تک الجھ گئے ہیں کہ ہم علاقائی سیاست کی ترجیحات طے نہیں کرپا رہے جب کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی دوعملی پر مبنی پالیسی کا ٹھوس جواب بھی نہیں دے پا رہے ہیں۔
مجموعی طور پر پورا حکومتی نظام اور سیاسی لیڈر شپ صرف ’’ مذمتی بیانات‘‘ تک محدود نظر آتا ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ ایک موقع پرست سیاسی کلچر، ، کمزورجمہوریت اور کنفیوزڈ سیاسی و مذہبی قیادت نے خود کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ بلکہ اس کی ساری ذمے داری کا بوجھ اپنے کندھوں سے ہٹا کر صرف فوج، سیکیورٹی اداروں اور پولیس پر ڈال دیا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر ملک کی پاپولر سیاسی قیادت کا دہشت گردی اور انتہاپسندی کے حوالے سے نظریہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو انھیں حکومت مل جائے یا وہ اپوزیشن میں رہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس طرح کی قیادت معیشت ٹھیک کرسکتی ہے نہ ڈھنگ کی قانون سازی کرسکتی ہے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کو خطرہ نہ سمجھنے والی حکومت چاہے جمہوری ہو یا آمریت ، وہ کمزور حکومت ہو یا طاقتور حکومت ہو، وہ پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتی اور نہ ملک کو مسائل کی دلدل سے باہر نکال سکتی ہے۔
اس کا سارا فائدہ اینٹی اسٹیٹ اور عوام مخالف قوتوں کو ہورہا ہے۔ موقع پرست طبقہ بڑی ہوشیاری اور مکاری کے ساتھ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا ملبہ ریاستی اداروں پر ڈال کر خود کو معصوم ثابت کررہا ہے اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ میں جو بھی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے، اس پر ہمیں بڑی سیاسی تقسیم دیکھنے کو ملتی ہے ۔ سیاسی لوگ سارا ملبہ سیکیورٹی اداروں پر ڈال دیں گے تو اس کا فائدہ ہر صورت میں دہشت گردوں کو ہوگا جو ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ریاستی نظام پر غالب ہیں ۔