سالِ رواں الیکشن کا سال رہا۔ سلسلہ کا آغاز بھارت کے عام انتخابات سے ہوا جس میں اگرچہ بھارتی جنتا پارٹی جیت توگئی مگر اسے جس بھاری اکثریت کی ضرورت تھی وہ میسر نہیں آئی اور اس کا نعرہ اب کی بار 400 پار محض خام خیالی ثابت ہوا اور وہ اتنی اکثریت حاصل کرنے میں بُری طرح ناکام ہوگئی، جس کی بنیاد پر وہ حکومت بنا سکے۔ بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کو منہ کی کھانا پڑی اور ان کی موجودہ حکومت بیساکھیوں پرکھڑی ہوئی ہے۔
دنیا بھرکی نظریں امریکا کے الیکشن پر مرکوز تھیں اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں اور چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے حامی یہ آس لگائے ہوئے تھے کہ اس مرتبہ جیت سیاہ فام کملا ہیرس کی ہوگی، کیونکہ ان کے بقول صدر جوبائیڈن حکومت کی پالیسی کامیاب تھی لیکن جوکچھ ہوا اس نے ڈیموکریٹ پارٹی کی ساری امیدوں پر پانی پھیردیا اور ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری مرتبہ پانسہ پلٹ دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے کملا ہیرس کو شکست فاش دے کر ڈیموکریٹ پارٹی کے دانت کھٹے کردیے۔
اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک کرشماتی شخصیت کے حامل ہیں اور امریکی ریاستوں میں ان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں دوسری بار داخل ہونے کے بعد اُن کے ملک امریکا پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بیرونِ امریکا کیا صورتحال پیدا ہوتی ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ امریکا کے بعض ایسے ایشوز تھے جن کی وجہ سے امریکیوں کی روزمرہ زندگیاں متاثر ہورہی تھیں۔ افراطِ زرکا مسئلہ ان میں سرفہرست ہے جس کی وجہ سے امریکی عوام کو سخت پریشانی لاحق ہے۔ امریکا کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع تھا جب ٹرمپ کا مقابلہ عورت سے تھا۔ اس سے قبل 2016 کے صدارتی انتخاب میں ہلیری کلنٹن ان کے مد مقابل تھیں لیکن ان کا حشر بھی کملا ہیرس جیسا ہی ہوا تھا۔
ٹرمپ بڑے دبنگ اور نڈر آدمی ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور گولی ان کے کان کو چھوتی ہوئی گزرگئی لیکن مردِ آہن نے اس کی ذرا بھی پروا نہیں کی۔ بلند حوصلہ اور مردانگی ٹرمپ کی نمایاں خوبیاں ہیں۔ مرعوب ہونا ان کا شیوہ ہی نہیں ہے۔ ان کی پہلی صدارتی انتخاب کی مدت پوری ہونے کے بعد ان کے خلاف کئی مقدمے دائر ہوئے جن میں سے کچھ ابھی تک زیرِ سماعت ہیں لیکن
کیا مجال جو ٹرمپ کا حوصلہ پست ہوا ہو۔ اپنے دل کی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دینا اور ان کی انتہائی دلیری ان کا نمایاں وصف ہے۔ اِس معاملے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے، لہٰذا پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ دوسری مرتبہ کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد ٹرمپ امریکی پالیسیوں میں انقلابی تبدیلیاں کریں گے۔ امریکا میں اس وقت دنیا کے مختلف ممالک کے شہریوں کا زبردست ریلا آیا ہوا ہے۔ ہرکوئی چاہتا ہے کہ امریکا جا کر اپنی قسمت سنوارے چنانچہ بہت سے ممالک کے لوگ قانونی اور غیر قانونی طریقہ سے امریکا میں داخل ہورہے ہیں جن میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کی تعداد خاصی بڑی ہے۔
عالمی کساد بازاری نے امریکا کو بھی متاثرکیا ہے۔ زرِ مبادلہ کی ناگفتہ بہ اقتصادی صورتحال کے اثرات سے امریکا بھی مبرا نہیں رہ سکا اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے یہاں بھی مسائل پیدا کردیے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس صورتحال سے پوری طرح بخوبی آگاہ ہیں اور وہ اس سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کے لیے کمربستہ ہیں۔ ٹرمپ کی دوسری بار شاندار کامیابی کو ہم ٹارزن کی واپسی سے تعبیرکرتے ہیں۔
ٹرمپ کی کامیابی کے پس پشت کئی عوامل ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ امریکا میں مقیم عرب نژاد امریکی بائیڈن کی اسرائیل نوازی اور فلسطینیوں کی نسل کُشی کی پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں۔ وضاحتاً عرض ہے کہ اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ عرب نژاد امریکی ووٹر ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی سے ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینیوں کی نسل کُشی کرنے والے ظالموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کا حمایتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ اپنے عرب نژاد امریکیوں سے کیے ہوئے وعدوں کو کیسے پورا کر پائیں گے۔
ٹرمپ کی کامیابی پر بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی نے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے انھیں زبردست مبارکباد دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 47 ویں صدر ہیں۔ انھوں نے امریکا کے دونوں ایوانوں میں زبردست برتری حاصل کی ہے جس سے ان کی بے انتہا مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور نئے حالات کے تقاضے مسائل کے نئے حل تلاش کرنے کے طلبگار ہیں۔
پچھلی مرتبہ جب اپنی صدارتی میعاد پوری کرکے ٹرمپ فارغ ہوئے تھے تو مسائل اتنے سنگین اور پیچیدہ نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ تب سے اب تک پل کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین نے جس برق رفتار کے ساتھ ترقی کی ہے اس نے امریکی معیشت پر زبردست دباؤ ڈالا ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مینوفیکچرنگ کے میدان میں امریکا چین سے پیچھے رہ گیا ہے۔ امریکی منڈیوں پر چینی اشیاء نے غلبہ حاصل کرلیا ہے اور چین میں مینوفیکچر کی گئی مصنوعات امریکی مصنوعات کے مقابلے میں بہت زیادہ سستی ہیں۔ اِس صورتحال نے امریکی معیشت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ امریکی حیران و پریشان ہیں کہ وہ کریں تو کیا کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا توڑ یہ سوچا ہے کہ چین سے درآمد ہونے والی اشیاء پر امپورٹ ڈیوٹی بڑھا دی جائے۔