لمحہ فکریہ
قیام پاکستان کے بعد جسٹس منیر کے ایک متنازع فیصلے سے ملک میں بحران شروع ہوا تھا وہ اب نہ صرف عروج پر پہنچ چکا ہے بلکہ وہ تشویش ناک ہو چکا ہے۔ اب تک جتنے مقدمات تحریک انصاف کے زیر سماعت آئے اور مسلسل آرہے ہیں اتنے مقدمات اور معاملات کسی اور سیاسی جماعت کے زیر سماعت نہیں آئے۔ پی ٹی آئی نے یہ ریکارڈ قائم کیا ہے کہ عدالتوں اور ججزکو جتنا پی ٹی آئی نے استعمال کیا اور متنازع بنایا کوئی اور سیاسی پارٹی ایسا نہ کرسکی اور لگتا ہے نہ ہی کرسکے گی۔
اپنے عدالتی معاملات میں جتنے زیادہ وکلا کی ضرورت پی ٹی آئی کو رہی اتنی کسی اور پارٹی کو نہیں رہی۔ عدالتی اور پی ٹی آئی معاملات میں جتنی بڑی تعداد میں وکلا کو ملوث کیا گیا، اس کے نتیجے میں آج سیاستدانوں سے زیادہ وکلا تحریک انصاف پر چھائے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی کی ضرورت اور مجبوری بن چکے ہیں اور وہی پارٹی معاملات اور مقدمات چلا رہے ہیں اور اب اہم پارٹی عہدے بھی وکیلوں کے پاس ہیں۔
بے نظیر بھٹو اپنے خلاف آنے والے عدالتی فیصلوں کو ’’چمک‘‘ کے فیصلے قرار دیتی تھیں اور بھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے جتنا بڑا نقصان پیپلز پارٹی کو ہوا اتنا نقصان کسی اور کو نہیں ہوا جس کا اعتراف اب 45 سال بعد کیا گیا ہے کہ پھانسی دینے کا فیصلہ غلط تھا۔ اس اعتراف سے کسی کی گئی ہوئی جان واپس نہیں آسکتی۔ نہ تلافی ہو سکتی ہے مگر غیر منصفانہ فیصلے دینے والوں کا کچھ نہیں بگڑا جس کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے ناپسندیدہ ججوں کے خلاف جو رویہ اختیار کیا وہ بھی کسی اور پارٹی نے اختیار نہیں کیا۔ سپریم کورٹ پر حملہ ضرور (ن) لیگ کے ریکارڈ پر ہے جس کی سزا اس کے بعض رہنما بھگت چکے ہیں۔
بعض اوقات ایک جملہ لکھنے میں اٹھارہ اٹھارہ سال مقدمے چلتے رہتے ہیں مگر اب ہونا یہ چاہیے کہ ایسی کوئی بھی آبزرویشننہ دی جائے جس سے نیچے دوبارہ مقدمہ شروع ہو جائے۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی سماعت براہ راست قوم کو دکھانے کے لیے بہترین اقدام اٹھایا تھا اور تاریخی فیصلے بھی دیے تھے۔ 8 ججز کے متنازع فیصلے کے خلاف حکومتی نظرثانی کی اپیل سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی جو جلد فیصلے کی متقاضی تھی مگر ججز صاحبان چھٹیوںپر تھے۔ بعدازاں آٹھ ججز کا فیصلہ غلط قرار دیا گیا تھا کیونکہ آٹھ ججز نے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی وہ نشستیں دینے کا فیصلہ دیا تھا جو پی ٹی آئی نے خود بھی نہیں مانگی تھیں اور فیصلہ پر خود پی ٹی آئی بھی حیران تھی کہ جو نشستیں انھوں نے مانگی ہی نہیں تھیں وہ انھیں دینے کا فیصلہ دیا گیا تھا جس پر دنیا بھر میں حیرانگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
عدالتوں میں اہم اپیلوں کی سماعت نہیں ہوئی جس کی وجہ سے متعدد بے گناہ پھانسی چڑھ گئے تو فیصلہ آیا کہ وہ تو بے گناہ تھے اور انھیں بری اس وقت کیا گیا جب وہ زندگی کی قید سے ہی بری ہو چکے تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ نہ صرف آئین پر مکمل عمل کرنے والے چیف جسٹس تھے جن کے دور میں عدالتی فیصلوں میں غلطیوں کو تسلیم کیا گیا بلکہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرتے تھے کیونکہ 1973 کے آئین نے کسی اور ادارے کو نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو سپریم قرار دیا تھا کیونکہ آئین سازی دنیا بھر میں پارلیمنٹ ہی کرتی ہے۔ ایک وہ بھی فیصلہ آیا تھا جس میں ایک فرد واحد جنرل پرویز مشرف کو خود آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جو اپنی نوعیت کا غیر آئینی فیصلہ تھا۔
پاکستانی عدالتی نظام دنیا بھر میں 38 ویں نمبر پر جو قرار دیا گیا ہے اس کی وجوہات حقیقی ہیں کیونکہ دنیا بھر میں عدالتی فیصلوں میں سال نہیں ہفتے یا مہینے لگتے ہیں اور کہیں بھی عدالتیں حکومت کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتیں نہ ملک کا نقصان کراتی ہیں مگر پاکستان میں یہ بھی ہوا۔ ایک عدالتی فیصلے سے ملک کو ریکوڈک کیس میں بھاری جرمانہ بھرنا پڑا۔ ملک کی سب سے بڑی کراچی اسٹیل ملز تباہ ہو کر سالوں سے بند ہے جو عدالتی فیصلے کا نتیجہ تھا جس کی سزا قوم اب تک بھگت رہی ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد بعض ججز کو دس لاکھ روپے ماہانہ پنشن اور لاتعداد سرکاری مراعات ملتی ہیں، جن عدالتوں پر مقدمات کا بہت بڑا بوجھ ہوتا ہے وہ عدالتیں گرمیوں کی چھٹیاں کرتی ہیں جب کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اسکول اتنے اہم نہیں جتنی عدالتیں ہوتی ہیں جنھوں نے مقدمات کے جلد فیصلے دینے ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں عدالتی فیصلوں میں تاخیر کو ناانصافی اور غلط قرار دیا جاتا ہے۔
سیاست سے تعلق رکھنے والے وکلا جب جج بنیں گے تو ان کے فیصلوں میں جانبداری اور سیاست صاف نظر آئے گی۔ حالیہ سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں پی ٹی آئی سے وابستہ گروپ صدارتی الیکشن ہار گیا اور اس کے مخالف غیر سیاسی گروپ نے بارہ نشستیں جیت لیں۔
عدالتوں کے سیاسی فیصلے اور غیر آئینی معاملات ملک کے لیے جہاں لمحہ فکریہ ہیں وہ عدالتوں کو خود بھی اپنے معاملات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ججز کو سیاسی دباؤ کے بغیر آئینی فیصلے دینے سے اور کھلے عام کسی سیاسی پارٹی کو سپورٹ کرنے سے گریز کیے بغیر عدالتی معاملات میں بہتری کی توقع رکھی ہی نہیں جاسکتی، خود عدلیہ کو ہی جانبداری ترک کرنا ہوگی۔