تحریر و تقریر کی بنیادی انسانی آزادی بظاہر ہر ریاست تسلیم کرتی ہے لیکن بہت کم ریاستیں ہیں جو اس آزادی کے بنیادی تقاضوں کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتی ہیں۔
انیس سو پچاس کی دہائی میں میاں افتخار الدین کا ادارہ پروگریسو پیپرز لمیٹڈ امروز اور پاکستان ٹائمز کا مالک تھا۔ان اخبارات کو آزادیِ صحافت کا مزاحمتی استعارہ سمجھا جاتا تھا۔چنانچہ اس ادارے کو ایوبی مارشل لا نے تنگ آمد بجنگ آمد تحویل میں لے لیا۔اس کے علاوہ جہاں آزادیِ اظہار کی بات آتی تو ڈان اخبار کا ذکر بھی ہوتا۔جسے الطاف حسین اور احمد علی خان جیسے دبنگ ایڈیٹروں نے ہر طرح کے اندرونی و بیرونی دباؤ سے پاک رکھ کے پیشہ ورانہ صحافتی تقاضے نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔مگر اب یہ سب حوالے پرانے ہو چکے ہیں۔
کچھ اسی سے ملتی جلتی مثال اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی بھی ہے جو اپنے دبنگ پن کے سبب دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔بالخصوص سات اکتوبر کے بعد جب ہر مغربی و اسرائیلی اخبار نے نیتن یاہو حکومت کی فلسطین کشی کو آنکھیں بند کر کے جانبداری کے پائیدان پر رکھ چھوڑا ہے۔بائیں بازو کی لبرل سوچ پر کاربند ہاریٹز آج بھی سیاہ کو سیاہ کہنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔
عبرانی میں ہاریٹز کا مطلب ہے سرزمین (اسرائیل )۔حالانکہ یہ اخبار اسرائیل کے وجود میں آنے سے بہت پہلے سے ( انیس سو اٹھارہ ) یروشلم سے شایع ہو رہا ہے۔اس کی اشاعت کو ایک سو چھ برس ہو چلے ہیں۔یہ عبرانی اور انگریزی میں شایع ہوتا ہے۔
ہاریٹز کو میڈیا کی زبان میں ’’ نیوز پیپر آف ریکارڈ ‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔یہ درجہ کسی بھی ملک کے ایسے اخبار کو دیا جاتا ہے جس کی خبر اور مواد پر اعتبار کر کے اس کا کہیں بھی حوالہ دیا جا سکے۔
اگرچہ ہاریٹز اشاعت کے اعتبار سے اسرائیل کا تیسرا بڑا اخبار ہے مگر اس کا وقار اور وزن کسی بھی اسرائیلی اخبار سے زیادہ ہے۔ابتدا میں ہاریٹز کا مالک ایک مخیر روسی ناشر آئزک گولڈ برگ تھا۔مگر انیس سو چونتیس میں اسے جرمنی سے بھاگ کر فلسطین آنے والے یہودی اشاعت کار سالومن شوکین نے خرید لیا۔ سالومن کا نظریاتی تعلق بائیں بازو کے ایک دانشور گروپ برٹ سلوم سے تھا ۔یہ گروپ یہودی آباد کاروں اور فلسطینیوں کے مابین صلح جوئی اور برامن بقائے باہمی کا حامی اور متشدد صیہونیت کے خلاف تھا۔
سالومن کے بیٹے گیرشوم شوکین نے انیس سو انتالیس میں ہاریٹز کی ادارت سنبھالی اور اگلے اکیاون برس تک اس منصب پر فائز رہے۔شاید یہ کسی بھی اخباری ایڈیٹر کا اپنی کرسی پر برقرار رہنے کا ایک عالمی ریکارڈ ہے۔انیس سو نوے میں گیرشوم کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے صاحبزادے آموس شوکین نے ادارے کی قیادت سنبھالی مگر خود ایڈیٹر نہیں بنے۔
دو ہزار چھ میں شوکین خاندان نے اپنے پچیس فیصد اخباری حصص ایک اور جرمن پبلشر دومونت شوبرگ کو فروخت کر دیے۔یہ سودا کروانے میں جرمنی میں اسرائیل کے سفیر ایوی پرمور نے اہم کردار ادا کیا۔ مگر ڈیل بہت عرصے نہ چل پائی کیونکہ دو ہزار انیس میں انکشاف ہوا کہ شوبرگ نے یہ بات چھپائی تھی کہ اس کے والد نہ صرف ہٹلر کی نازی پارٹی کے رکن تھے بلکہ ان کے اشاعتی ادارے نے نازی نظریے کے فروغ کے لیے بھی کام کیا تھا۔ چنانچہ آموس شوکین نے ہاریٹز کے حصص شوبرگ سے واپس لے کر ایک روسی نژاد اسرائیلی پبلشر لیونڈ نیوزلین کو ساجھے دار بنا لیا۔ادارتی پالیسی البتہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہی رہی۔
اپریل دو ہزار سترہ میں ہاریٹز میں ایک مضمون شایع ہوا جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اسرائیل میں دائیں بازو کا مذہبی طبقہ اپنے اعمال میں حزب اللہ سے بھی بدتر ہے۔اس پر بھونچال آ گیا۔اسرائیل کے صدر روین ریولن ، وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور حزبِ اختلاف کے رہنما آئزک ہرزوگ سمیت سیکڑوں سرکاری و سیاسی شخصیات نے ہاریٹز پر لعن طعن کی بوچھاڑ کر دی۔مگر ہاریٹز نے مضمون نگار پر پابندی نہیں لگائی اور نہ ہی کوئی معذرت خواہانہ نوٹ شایع کیا۔
گزشتہ ماہ ہاریٹز کے مالک آموس شوکین نے لندن میں ایک بین الاقوامی میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ نیتن یاہو حکومت کو لاکھوں فلسطینیوں پر تھوپے گئے اپارتھائیڈ نظام کے مضر اثرات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں۔ فلسطینی حریت پسند کہ جنھیں حکومت دھشت گرد کہتی ہے۔انھیں کچلنے اور یہودی آبادکار بستیوں کے تحفظ کے لیے یہ حکومت کوئی بھی حد پار کر سکتی ہے۔غزہ اس وقت انیس سو اڑتالیس کے بعد دوسرے نقبہ ( قیامتِ صغری ) سے گذر رہا ہے۔اگر دنیا واقعی فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد و خود مختار ریاست کی تشکیل میں مخلص ہے تو یہ مقصد اسرائیل پر جامع پابندیاں عائد کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ‘‘۔
ظاہر ہے ایسے بیان کے بعد اسرائیل میں ہنگامہ ناگزیر تھا۔دائیں بازو کے اسرائیلی سیاستدانوں اور ارکانِ پارلیمان نے آموس شوکین کو عرب ایجنٹ ، یہود دشمن اور نمک حرام غدار قرار دینے میں دیر نہیں لگائی۔
وزیرِ اطلاعات شلوم کرہی نے ہاریٹز کے مالک کی جانب سے فلسطینیوں کو حریت پسند قرار دینے پر نہ صرف تمام سرکاری اشتہارات روک لیے بلکہ اشتہارات سے متعلق جاری معاہدہ بھی منسوخ کر دیا۔فیصلہ کیا گیا کہ آیندہ کوئی سرکاری محکمہ یا عہدیدار ہاریٹز اخبار نہ خریدے اور جو خرید رہا ہے وہ اپنا سبسکرپشن فوراً واپس لے لے۔اب تک جو سرکاری اشتہارات شایع ہوئے ہیں ان کی ادائیگی بھی منسوخ سمجھی جائے۔ وزیر شلوم کرہی گزشتہ برس نومبر میں بھی ہاریٹز پر یہ کہہ کر برسے تھے کہ اس کی رپورٹنگ غزہ میں اسرائیلی کارروائی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
وزیرِ قانون یاریو لیون نے اٹارنی جنرل سے ایک مسودہِ قانون کے بارے میں صلاح مشورہ کیا ہے جس کے تحت کوئی بھی اسرائیلی شہری بیرونی حکومتوں یا تنظیموں کو اسرائیل یا اس کے کسی ادارے پر پابندیاں لگانے کے لیے اکسائے گا تو قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے کے جرم میں اسے دس برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اس دوران آموس شوکین نے ریاستی غصہ ٹھنڈّا کرنے کے لیے وضاحت کی کہ حریت پسند سے مراد حماس نہیں۔بلکہ حریت پسند وہ ہے جو دھشت گردی کی راہ اختیار کیے بغیر حقوق کی جدوجہد کرے۔مگر یہ وضاحت مسترد کر دی گئی۔
چنانچہ ہاریٹز میں ایک اداریہ ’’دھشت گرد حریت پسند نہیں ہوتے ‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا جس میں اخبار نے اپنے مالک کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بے گناہ انسانوں کو مارنے والے حریت پسند نہیں دھشت گرد ہوتے ہیں ‘‘۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہاریٹز کے مالک آموس شوکین نے بھی تو یہی کہا تھا کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بے گناہ انسانوں کو مارنے والے دھشت گرد ہوتے ہیں۔
اگلی قسط میں ہم نسل پرست صیہونیت کے خلاف اسرائیل کے سرپرست امریکا میں آباد یہودیوں کی نئی نسل کی باغیانہ آوازیں پڑھنے کی کوشش کریں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)