بلوچستان ایک بار پھر لہولہان ہوگیا، کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر اپنی منزل کی جانب جانے والی ٹرین کے انتظار میں کھڑے بے گناہ مرد، عورتیں اور بچے خودکش حملے کا نشانہ بن گئے۔ دہشت گرد اپنے جسم کے اطراف بارود باندھے اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ سیکیورٹی کے حوالے سے کوئٹہ خودکش حملہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کالعدم تنظیم بی ایل اے نے خود کش حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ کیا حکومتی ذمے داران بھی اپنی ناکامی کی ذمے داری قبول کرنا پسند کریں گے؟
کوئٹہ سانحے پر حکومتی زعما سے لے کر سیاسی و مذہبی رہنماؤں تک سب نے اظہار افسوس کرتے ہوئے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی اپنے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف مزید شدت کے ساتھ کارروائی کی جائے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ شہریوں کے جان و مال کو نقصان پہنچانے والے دہشت گردوں کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
اس عزم کو دہرایا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف مشن کو قومی عزم کے ساتھ جاری رکھا جائے گا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں امن کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ اس طرح کے مذمتی بیانات پر دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد ارباب اقتدار اور صاحب اختیار لوگوں کی جانب سے دیے جاتے ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تمام تر حکومتی و سرکاری وسائل و اختیارات رکھنے کے باوجود ہمارے ادارے دہشت گردی کے آگے بند باندھنے میں کلی طرح کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
دہشت گردوں کے خلاف حکومت کی کوئی واضح، ٹھوس اور جامع حکمت عملی نظر نہیں آ رہی ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صرف مذمتی بیانات جاری کر کے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو صرف پاک فوج کا عزم صمیم ہے کہ ضرب عضب سے لے کر رد الفساد تک ہمارے جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر سیکڑوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا ہے۔
آج بھی ’’استحکام پاکستان‘‘ کے لیے پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف پوری یکسوئی کے ساتھ کارروائیاں کر رہی ہے۔ اس کے باوجود حکومتی سطح پر جس سنجیدگی، بردباری، منصوبہ بندی اور عملی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں، وہ پوری طرح واضح نہیں ہیں۔ حکومت گومگو کا شکار ہے ۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہے کہ حکومت عوام کی بھی حمایت حاصل کرے جب تک عوام ساتھ نہ ہوں کوئی بھی حکومت اپنی پالیسیوں میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔دہشت گردی نے ہمارے لیے بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں ،دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو قانون کے شکنجے میں لانا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں وقفے وقفے سے دہشت گردوں کی پے درپے کارروائیاں امن کو سبوتاژ کر رہی ہیں جس کے منفی اثرات سندھ اور پنجاب پر بھی پڑ رہے ہیں۔ جہاں آہستہ آہستہ دہشت گرد اپنا نیٹ ورک مضبوط کر رہے ہیں۔
دہشت گردوں کے بیرون ملک بالخصوص افغانستان اور بھارت کے ساتھ خفیہ رابطوں سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں ایسے تلخ تجربات اور حقائق کا ہمیں سامنا رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پڑوسی ممالک کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت بھی منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ تاہم اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گھر کی صفائی خود کرنا ہوگی۔ ایسے تمام اسباب و عوامل کا جائزہ لے کر ان کی بیخ کنی کرنا ہوگی جو دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہے ہیں۔