اسلام آباد:
عالمی مالیاتی فنڈ نے سولر پینلز کے بڑھتے ہوئے رحجان کے باعث قومی گرڈ سے بجلی کی کھپت میں تیزی سے ہونیوالی کمی اورگرتی ہوئی اقتصادی ڈیمانڈ کے نتیجے میں درآمدی گیس کے سرپلس ہونے کے 2 مسائل پر قابو پانے کیلیے حکومتی پالیسی طلب کر لی ہے۔
7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کو پٹڑی سے اترنے سے بچانے کیلئے قبل ازوقت شروع کیے مذاکرات کے پہلے روز عالمی مالیاتی فنڈ نے توانائی کے شعبے کی حکومتی حکمت عملی کے متعلق سوالات اٹھادئے۔
مذاکرات سے آگاہ افراد کا کہنا ہے کہ فنڈ نے استفسار کیا کہ حکومت سولرائزیشن اور سرپلس درامدی گیس کے چیلنجز سے کیسے نمٹے گی۔پاکستان نے آئی ایم ایف کو تجویز پیش کی کہ جنوری 2025 ء تک صنعتوں کو درآمدی گیس کے ذریعے صنعتوں کوبجلی پیدا کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ گیس کے پوری لاگت واپس لی جا سکے تاہم جواب میں آئی ایم ایف کی طرف سے خاموشی تھی۔
پاکستان نے جنوری تک گیس کی فراہمی منقطع کر کے صنعتوں کو قومی گرڈ پر منتقل کرنے کاوعدہ کر رکھا ہے ، اس شرط نے صنعت کاروں کو کاروبار کی بڑھتی لاگت کے حوالے سے پریشان کیا ہوا ہے۔گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کے 400 ارب روپے سے زائد کے بقایا جات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا حکومت نے بتایا کہ عدالتوں کے حکم امتناعی کی وجہ سے وصولیوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
وزیر بجلی اویس لغاری، وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک، سیکرٹری خزانہ، پاور، پیٹرولیم اور ایف بی آر کے چیئرمین نے پہلے دن کے اجلاسوں میں شرکت کی۔واشنگٹن میں قائم مشن چیف نیتھن پورٹر کی قیادت میں آئی ایم ایف کی ٹیم تین سالہ بیل آؤٹ پیکج پر عمل درآمد کی جانچ پڑتال کیلئے ہفتے کیلئے پہنچی ۔
ذرائع نے بتایا آئی ایم ایف نے انتہائی مہنگی بجلی کے متبادل کے طور پر سولر پینلز لگانے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے بجلی کی طلب میں کمی کا معاملہ اٹھایا۔ اس نے پنجاب حکومت کی شمسی توانائی کے استعمال کی ترغیب دینے کی پالیسی کے اثرات کے متعلق بھی پوچھا جو وفاقی حکومت کی حکمت عملی کے برعکس ہے۔
تاہم آئی ایم ایف کو شمسی توانائی کے استعمال سے متعلق سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں ملا اور اس نے وزارت توانائی پر زور دیا وہ اس معاملے پر رہنمائی کرے۔ گزشتہ سال مئی میں پروگرام کے مذاکرات کے وقت، پاکستان نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا تھا کہ وہ سولر پینلز کیلئے نیٹ میٹرنگ کی حکمت عملی ختم کر دے گا اور اسے گراس میٹرنگ سے تبدیل کرے گا جس کا مقصد صارفین کو مہنگی اور ناقابل برداشت گرڈ بجلی فروخت کرنا ہے۔
پاکستان کے متوسط طبقے سے لیکر امراء تک تیزی سے سولر پینلز لگوا رہے ہیں کیونکہ انتہائی مہنگے معاہدوں، بجلی کے نظام کی غیر موثریت، بے قابو چوری اور لیکیجز کی وجہ سے بجلی کی قیمت ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔
گزشتہ دو برسوں میں بجلی کی قیمتیں دوگنا سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں اور گھریلو صارفین 70 روپے فی یونٹ قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں ۔ لوگ سولر پینلز پر منتقل ہو رہے ہیں، جس کے باعث بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے۔
ستمبر میں بجلی کی پیداوار تخمینوں سے 10 فیصد کم تھی۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران طلب میں بھی 8 فیصد کمی آئی۔ آئی ایم ایف نے بجلی کی مجموعی طلب پر وزیراعظم کے سرمائی بجلی پیکج کے اثرات کے متعلق بھی دریافت کیا لیکن ذرائع کے مطابق اس کا ٹھوس جواب نہیں دیا گیا ۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے بجلی کی گرتی کھپت بڑھانے کیلئے رہائشی، تجارتی اور صنعتی صارفین کیلئے دسمبر سے فروری کیلئے اضافی استعمال پر سستی بجلی دینے کا اعلان کیا۔اس وقت گھریلو صارفین کیلئے بنیادی شرح 37.49 روپے سے 52.07 روپے فی یونٹ تک ہے۔ نئے پیکج کے تحت اضافی کھپت پر 26.07 روپے فی یونٹ چارج کیا جائے گا جو موجودہ شرح کے مقابلے میں 30-50 فیصد کی بچت فراہم کرتا ہے۔
آئی ایم ایف رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران گردشی قرضے کے بندوبست منصوبے پر عملدرآمد سے مطمئن دکھائی دیا۔حکومت نے طے شدہ حد کے اندر گردشی قرضے کا بہاؤ کم کرنے کا ہدف پورا کیا اور اس کے بلوں کی وصولی قریباً 91 فیصد تک پہنچ گئی۔ تاہم وصولیوں میں اضافہ بنیادی طور پر بجلی کے نرخوں میں اضافے اور چوتھی سہ ماہی کے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں تاخیر کی وجہ سے ہوا۔
آئی ایم ایف نے پھر زور دیا کہ حکومت کو صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کو بجلی کی سبسڈی دینی چاہیے۔تاہم پاور ڈویژن کا موقف تھا اس پر عمل درآمد میں قانونی مشکلات درپیش تھیںکیونکہ زیادہ تر کیسوں میں بجلی کے میٹرز قابضین کے نام نہیں تھے۔ آئی ایم ایف نے پاور سیکٹر میں کم طلب کی وجہ سے 1000 ایم ایم سی ایف ڈی درآمدی اضافی گیس سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا۔
پاکستانی حکام اس گیس کی کچھ مقدار صنعتوں کو پوری قیمت پر فراہم کرنا چاہتے تھے۔ وہ قطر کے ساتھ گیس کی کھپت میں کمی کی وجہ سے 2025 ء اور 2026 ء کیلئے طے شدہ ایل این جی کارگو کو دو سال کیلئے موخر کرنے کیلئے بھی بات چیت کر رہا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے دعویٰ کیاعدالتی حکم امتناعی ان واجبات کی وصولی میں قانونی رکاوٹ ہے۔
تاہم سپریم کورٹ نے 2020ء میں جی آئی ڈی سی لیوی کے خلاف دائر تمام درخواستوں کو خارج کر دیا تھا اور وفاقی حکومت کے حق میں فیصلہ دیا تھا کہ وہ تمام رقم وصول کرے۔ اسلام آباد سے نمائندہ ایکسپریس ارشاد انصاری کے مطابق چیئرمین ایف بی آر سربراہی میں ٹیم نے آئی ایم ایف کو بریفنگ دی رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں 2652 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا ۔
جولائی تا ستمبر 96.6 فیصد ٹیکس ہدف پورا کر لیا جبکہ ستمبر میں 1098 ارب ہدف کے مقابلے 8 ارب اضافی ٹیکس جمع کیا ۔ باقاعدہ مذاکرات آج ہونگے۔عالمی ادارے کو بتایا گیا جولائی تا اکتوبر ٹیکس ہدف میں 190 ارب کی کمی رہی۔تاہم رواں سال انکم ٹیکس گوشواروں میں 76 فیصد اضافہ ہوا ۔ ذرائع کے مطابق صوبائی حکومتیں قانون سازی کیلئے دی گئی مہلت پوری کرنے میں ناکام رہیں ۔ موجودہ پروگرام کا پہلا اقتصادی جائزہ مارچ 2025 ء میں شیڈول ہے۔