اس بار تو بھارتی ٹیم پاکستان ضرور آئے گی، اب تو انگلینڈ، آسٹریلیا،جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ سب ہی یہاں کھیل کرجا چکے، ان کے وزیر نے بھی دورہ کیا، بھارت کے پاس انکار کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔
چند روز قبل تک نہ صرف عام پاکستانی شائق بلکہ سابق کرکٹرز اور منتظمین کی بھی یہی سوچ تھی کہ چیمپئنز ٹرافی کے ذریعے برف پگھل جائے گی، البتہ چند دوراندیش قسم کے افرادکو اس کا کوئی امکان نہیں لگتا تھا، وہ یہی کہتے تھے کہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی میں کرکٹ کا نمبر سب سے آخری ہو گا، اب یہ بات درست ثابت ہو گئی، کھیل کے ذریعے دونوں ممالک میں دوستی کا جو امکان تھا اسے بھارتی حکومت نے خود ختم کردیا، اگر سب کچھ ٹھیک رہتا تو پیر کو لاہور میں آئی سی سی حکام چیمپئنز ٹرافی کا شیڈول جاری کر رہے ہوتے لیکن یہ تقریب ملتوی کر دی گئی اور اب تو ایونٹ پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
پاکستان برسوں بعد کسی آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کرے گا، اس لیے زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے، پی سی بی نے اربوں روپے اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش پر لگا دیے تاکہ ٹورنامنٹ کے دوران اچھا تاثر سامنے آئے، بھارتی بورڈ کو یہاں تک پیشکش کی گئی کہ ٹیم میچ کھیلنے آئے اور اختتام پرواہگہ بارڈر کے ذریعے چندی گڑھ یا کسی اور قریبی شہر چلے جائے، البتہ وہاں سے کوئی جواب نہ آیا۔
میڈیا کو ذرائع کے حوالے سے بی سی سی آئی خبریں فیڈ کرتے رہا کہ حکومت کی اجازت ہوئی تو جائیں گے، حالانکہ بورڈ پر اب بھی جے شاہ کا راج ہے، ان کے والد امیت شاہ منسٹر آف ہوم افیئرز ہیں، کیا جے شاہ نے کبھی ناشتے کی میز پر بھی نہیں پوچھا ہوگا کہ ’’ پتاجی پاکستان جانے کا کیا کرنا ہے؟‘‘ شاید نہ ہی پوچھا ہو کیونکہ پہلے ہی طے کر لیا ہوگا کہ ٹیم نہیں جائے گی، پی سی بی ہمیشہ سے یہی کہتا رہا کہ لکھ کر دو لیکن کوئی جواب نہ ملا، ماضی میں بھی بھارت نے کبھی ہاں یا ناں سے تحریری طور پر آگاہ نہ کیا، اب بھی مشکل ہی لگتا ہے کیونکہ نہ آنے کی وجہ کیا بتائی جائے گی؟ سیکیورٹی کو بھی اب جواز نہیں بنایا جا سکتا، پی سی بی یہ کہہ سکتا ہے کہ ساری ٹیمیں 9 آ کر کھیل گئیں۔
انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوا تو آپ کو کیا تکلیف ہے، یہ جو اب ہائبرڈ ماڈل کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے یہ طریقہ کار ایشیا کپ میں فلاپ ہو چکا جب بھارت نے اپنے میچز سری لنکا میں کھیلے تھے، بارش اور لاجسٹک مسائل نے اس ایونٹ کو منتظمین کے لیے ڈرائونا خواب بنا دیا تھا، ماضی میں ورلڈکپ 1996 سمیت کئی ایسے مواقع سامنے آچکے جب ٹیموں نے میزبان ملک میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا، اس وقت کبھی ہائبرڈ ماڈل کی بات نہ ہوئی، اب پاکستان کی باری آئی تو ایسی باتیں ہونے لگیں۔
جے شاہ ابھی آئی سی سی کے باس نہیں بنے لیکن ان کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے، کونسل نے اس معاملے کو بہت ہلکا لیا، ایشیا کپ کو منسوخی سے بچانے کیلیے پاکستان نے خود زور دے کر ہائبرڈ ماڈل اپنایا تھا لیکن محسن نقوی ایسے موڈ میں نہیں، وہ اس مسئلے کو ہمیشہ کیلیے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
قومی وقار کیلیے انھوں نے سخت موقف اپنایا جس پر ہر محب الوطن پاکستانی ان کے ساتھ کھڑا ہے،یہ کیا بات ہوئی کہ بھارت میں کوئی ٹورنامنٹ ہو تو پاکستان سے توقع کی جاتی ہے کہ ٹیم وہاں جا کر کھیلے، جب ہماری باری آتی ہے تو ہائبرڈ ماڈل کا راگ الاپنا شروع کر دیا جاتا ہے،کیا یہ اچھا لگے گاکہ بھارت سے میچ کھیلنے پاکستانی ٹیم دبئی جائے، پھر دونوں کا اگر فائنل ہو تو پھر سفر کیا جائے؟ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت کرکٹ کی بڑی مارکیٹ ہے لیکن آئی سی سی ریونیو میں بڑا حصہ پاکستان کیخلاف میچز کی وجہ سے ہی آتا ہے، اگر گرین شرٹس کوئی آئی سی سی ایونٹ نہ کھیلیں تو پھر ٹی وی رائٹس اور دیگر اسپانسر شپ دیکھتے ہیں کتنے میں فروخت ہوتے ہیں؟ آئی سی سی ہر ایونٹ میں پاک بھارت میچ کیوں رکھتی ہے؟ اس کی آمدنی کا بڑا حصہ اسی سے آتا ہے اس لیے ہمیں نہ ڈرائیں، برسوں سے بھارت ہمارے ساتھ باہمی کرکٹ نہیں کھیل رہا لیکن کیا ہماری کرکٹ ختم ہو گئی؟ ہمیں بابر اعظم، شاہین آفریدی جیسے اسٹارز دیگر ٹیموں کیخلاف کھیل کر بھی مل گئے، 13 ارب روپے اسٹیڈیمز پر خرچ ہو رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ پیسے کی بھی تنگی نہیں ہے۔
آئی پی ایل میں پاکستانی کرکٹرز کو نہیں بلایا جاتا، ہماری اپنی پی ایس ایل بھی زبردست ہے، موجودہ بھارتی حکومت پاکستان دشمنی کا چورن بیچ کر ہی الیکشن جیتتی ہے، عوام کو ڈرایا ہوا ہے کہ پاکستانی ایسے ہوتے ہیں ویسے ہوتے ہیں، چند فیصد کو چھوڑ کر عام آدمی بھی دشمنی نہیں چاہتا، اب اگر بھارتی ٹیم پاکستان آتی تو محسن نقوی پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ان کے شائقین کو ویزوں میں آسانی دی جائے گی، اب تک آخری دورے کی یادیں بھارتی کرکٹرز کے ذہنوں میں تازہ ہیں، سہواگ وغیرہ بتاتے ہیں کہ ان سے کوئی دکاندار چیزوں کے پیسے تک نہیں لیتا تھا، عام شائقین کی بھی خوشگوار یادیں ہیں، اب جس نسل کے ذہنوں میں مودی حکومت نے نفرت بھر دی ہے اس کے نوجوان یہاں آئے، لوگوں کا پیار ملا تو ان کے ذہن تو صاف ہو جائیں گے، وہ اپنے ملک جا کر لوگوں کو بتائیں گے کہ ہمیں تو پاکستان کے بارے میں غلط باتیں بتائی گئیں، اس طرح تو بی جے پی کی سیاست ہی ختم ہو جائے گی، لہذا بھارتی سیاستدان کیوں چاہیں گے کہ ٹیم پاکستان جائے؟ اب معاملہ بہت گمبھیر ہو چکا، آئی سی سی کو کوئی حل تلاش کرنا چاہیے ورنہ نقصان اس کا بھی ہوگا۔
بھارت کو بھی سوچنا چاہیے کہ کب تک نفرت پھیلائی جاتی رہے گی، ہر بار پی سی بی دبائو میں آ جاتا تھا اب سخت موقف اپنایا ہے، محسن نقوی کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے، بات برابری کی سطح پر ہی ہونی چاہیے، پہلی بار ایسا ہو رہا ہے، دیکھتے ہے معاملے کا کیا حل سامنے آئے گا۔