سخی سیّد معروف شاہؒ

حاجات کی فراہمی اﷲ تعالیٰ کے ذمے ہے اور عبادات کا بندہ پابند ہے۔


Dr Abu Ejaz Rustam September 23, 2012
یہ خالق کائنات کا حسین شاہ کار ہے اور اس کا حسن ترتیب حیات سے برقرار رہ سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

اﷲ سبحانہ و تعالیٰ بے نیاز ہے اور بندہ نیاز مند ہے۔

یہ خالق کائنات کا حسین شاہ کار ہے اور اس کا حسن ترتیب حیات سے برقرار رہ سکتا ہے۔ کونین کی بھی ایک ترتیب ہے اور اسی ترتیب کی وجہ سے کونین کا حسن قائم ہے۔ قرآن حکیم میں اﷲ جل جلالہ نے جا بجا اس ترتیب کا ذکر فرمایا ہے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا ہے۔ اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اس میں علم والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اس میں غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اس میں عمل کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ یعنی ہر طبقۂ فکر کے لیے اس کے شعبۂ حیات کے مطابق علم موجود ہے۔ اس سے استفادہ کرنا ان کا کام ہے۔ حیاتِ انسانی کی ترتیب میں پہلے حاجات ہیں، پھر عبادات۔ حاجات کی فراہمی اﷲ تعالیٰ کے ذمے ہے اور عبادات کا بندہ پابند ہے۔

حاجات کی ترتیب میں سب سے پہلے بھوک ہے اور سب سے پہلی صفتِ پاک جس کا تعارف ذاتِ باری تعالیٰ نے کروایا ہے وہ 'رب' ہے۔ ''ہر تعارف اﷲ تعالیٰ کا ہے، جو کونین کا رب ہے۔'' اس کی ربوبیت دو قسم کی ہے۔ وہ 'رحمٰن' ہے۔ وہ حاجات جو انسان نے مانگیں اور نہ اسے علم تھا کہ یہ اس کی حاجات ہیں، جس کا خالق ہونے کے ناتے صرف اﷲ تعالیٰ کو علم تھا کہ یہ میری شاہ کار مخلوق، میرے خلیفۂ ارضی کی حیات کے لیے ضروری ہیں۔ ان چیزوں کو ازخود پیدا فرمایا۔ یہ اس کی 'رحمانی ربوبیت' ہے۔ ربوبیت کی دوسری قسم 'رحیمی' ہے۔ یعنی اس کی عطا میں ہماری کچھ محنت بھی شامل ہوتی ہے۔ صرف اتنی کہ اس کی رحمت جوش میں آکر عطا کا بہانہ بن جائے۔

اس کی ایک مثال قرآنِ حکیم میں یوں بیان فرمائی کہ گندم کا ایک دانہ بویا، اس میں سے سات بالیں نکالیں۔ ہر بالی میں سو دانے ہیں۔ سبحان اﷲ! بندے کی محنت دیکھیں اور اُس کی عطا دیکھیں۔ بندرہ اس کا، محنت کی توفیق اس کی، زمیں اس کی، پانی اس کا، اگایا اس نے، پکایا اس نے، موسم اس کے۔ پھر فرماتا ہے کہ سارا رکھ لو۔ صرف ڈھائی فی صد میرے راستے میں دے دو۔ یہ اس کے فضل، اس کے لطف و کرم کا مظہر ہے۔ یہ 'ربوبیت رحیمی' ہے۔ دعوے کو ثبوت چاہیے۔ کیا اور کوئی ثبوت کے ساتھ ربوبیت کا دعوے دار ہے؟ کوئی نہیں۔ کوئی ہو بھی نہیں سکتا، کیوں کہ اﷲ ایک ہے۔ اپنی ہر صفتِ پاک میں لاشریک ہے۔ کوئی اس کا ہم سر نہیں۔ اپنے بندے میں اس نے اپنی صفاتِ پاک کی جھلک ضرور رکھی ہے، جس سے عبد اور معبود کا تعلق قائم ہے۔ بشرط یہ کہ بندے کے ہر ہر عمل سے ان صفاتِ پاک کا اظہار ہو۔ انسانیت کی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے۔

جس نے صفاتِ الٰہی کا مظاہرہ چھوڑ دیا۔ اس نے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ سے تعلق توڑ لیا۔ عبد اور معبود کا تعلق باقی نہ رہا تو انسانیت ختم اور حیوانیت رہ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بندہ اﷲ جل جلالہ سے تعلق توڑتا کس لیے ہے۔ محض ان چیزوں کے لیے جو پیدا ہی اس کے لیے کی گئی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو منفی رخ پر استعمال کرنا حیوانیت ہے۔ جب یہ منفی رخ پر عقل و شعور کو استعمال کرتا ہے تو ایسے ایسے درندگی کے مظاہرے کرتا ہے کہ دیکھنے سننے والوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں دولت کو خدا اور حاجت روا سمجھا جاتا ہے۔ جب دولت کی اس قدر اہمیت کسی کے دل میں گھر کر جائے، تو پھر وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے کی کوشش کرے گا۔ جب وہ دوسروں کا حق غصب کرے گا، تو معاشرہ معاشی ناہمواری کا شکار ہوگا۔

لوگوں کے بچّے بھوک سے بلکیں گے، مگر ان کا حق مارنے والے اندھے، بہرے اور گونگے ہوجائیں گے۔ نہ انھیں کوئی بھوکا نظر آئے گا، نہ بلکتا سنائی دے گا۔ نہ ان سے اظہارِ ہم دردی کرسکیں گے۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے خزانوں پر سب کا یکساں حق ہے۔ لیکن وہ تو اس صورت میں ہے کہ کوئی اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے قانون کو مانے۔ اﷲ تعالیٰ کے قانون میں تو چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے اور اس میں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے، جو اس قانون کو نہیں مانتے۔ کیا یہ ناممکن ہے کہ کسی حادثے میں ان کے ہاتھ پائوں کٹ جائیں۔ آنکھیں ضایع ہوجائیں؟ کیا پھر وہ چوری کا مال ان کا نعم البدل خرید لے گا؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ وہ تو اﷲ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور اس کا شعور بھی نہیں رکھتے۔ جس کو اتنا شعور بھی نہ ہو کہ وہ اپنے ساتھ خود دشمنی کررہا ہے۔

اس کی بات کا کیا اعتبار؟ اس سے وفا کی توقع کیسی؟ حیرت ہے ان لوگوں پر جو یہ جانتے ہیں کہ اﷲ کے قانون کے مقابلے میں جو بھی قانون بنایا جائے گا، وہ سیدھا دوزخ میں لے جائے گا۔ اس کے باوجود وہ اﷲ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت پر بیچ رہے ہیں۔ اس سے بڑا خسارہ کیا ہے؟ کتنے حوصلے سے دوزخ پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ یہ شیطان کا پھیلایا ہوا جال ہے، جس میں پھنسنے کو کام یابی سمجھتے ہیں۔ باز نے فضا میں اڑتے کسی پرندے سے کہا، ''میری نطر اتنی تیز ہے کہ میں اتنی بلندی سے زمین پر بکھرے دانے دیکھ سکتا ہوں۔ وہ زمین پر دانے بکھرے ہوئے ہیں۔ میں اٹھا کر لاتا ہوں۔'' یہ کہہ کر اس نے غوطہ لگایا۔ شکاری نے جال پر دانے بکھیرے ہوئے تھے۔ باز جال میں پھنس کر رہ گیا۔ وہ پرندہ نیچے آیا اور باز سے کہنے لگا، ''لعنت ہے ایسی نظر پر جسے دانے نظر آجائیں اور جال نطر نہ آئے۔'' اشرف المخلوقات کا تو شرف ہی یہ ہے کہ دانہ اٹھانے سے پہلے جال کے بارے میں اچھی طرح تسلی کرلے۔

ہم اپنی گفتگو، اپنی تقریروں، اپنی تحریروں میں واقعات کے بیان کی شکل میں روزمرّہ مسائل اور ان کا حل بیان کرتے ہیں اور ان سے تقریر و تحریر میں چاشنی بھرتے ہیں، مگر اپنے روزمرّہ مسائل کو ان کی روشنی میں حل نہیں کرتے۔ زندگی میں کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو۔ اس کے حل کے لیے شیطان کی طرف بھاگتے ہیں۔ اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے اپنی تقریر، اپنی تحریر میں کیا کہا تھا۔ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم ان تقاریر اور تحاریر کے ذریعے اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔ ایمان کی یہ تازگی کیسی ہے کہ ہمیں اپنے مسائل کے حل کا نبوی طریقہ ہی معلوم نہ ہو۔ جب کہ اﷲ جل جلالہ کا ارشادِ پاک ہے، ''جو اﷲ کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکومت نہ کریں وہ کافر ہیں'' 5/44 ،''جو اﷲ کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکومت نہ کریں۔ وہ ظالم ہیں'' 5/45،''جو اﷲ کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکومت نہ کریں، وہ فاسق ہیں'' 5/47۔

''اے ایمان والو! اﷲ کی اور اس کے رسولؐ کی اور اﷲ کے حکم کے نفاذ کے ذمے داروں کی اطاعت کرو۔ پھر اگر کسی مسئلے میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اﷲ پر اور روزِ آخرت پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اس مسئلے کو اﷲ اور رسولؐ کے دربار میں لے جائو (قرآن و حدیث کے مطابق حل کرو) وہی تمہارے لیے بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے'' 4:59، ''کیا آپؐ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائے جو آپؐ پر نازل کیا گیا اور جو آپؐ سے پہلے اتارا گیا۔ چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات شیطان سے فیصل کروائیں، جب کہ حکم دیا جاچکا ہے کہ اس کا انکار کردیں اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ انھیں گم راہی میں دور تک لے جائے (جہاں سے واپس نہ پلٹ سکیں) 4/60''، ''اور جب ان سے کہا جائے، جو اﷲ نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور رسولؐ کی طرف آجائو۔ تو آپؐ ان منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپؐ سے کنارہ کشی کرتے ہیں 4/61''، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اﷲ تعالیٰ ہمارا خالق، ہمارا رب، ہمیں اشرف المخلوقات بنانے والا، ہمیں زمین پر اپنا نائب بنانے والا، اپنے رسول کریم رئوف الرحیمؐ کو رحمت اللعالمین بنانے والا ہمارا دشمن ہے کہ ہمارے خلاف قانون بنائے گا اور ہمارے خلاف فیصلہ دے گا؟ اور شیطان ہمارا دوست ہے کہ ہماری بھلائی کا فیصلہ سنائے گا۔

خیر تو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون میں ہے اور شر شیطان کے بہکاوے میں۔ ہمیں اس بات پہ یقین کیوں نہیں ہے کہ ہمارے لیے ساری بھلائیاں اﷲ جل جلالہ کے قانون میں ہیں۔ پھر ہم کیسے ایمان والے ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ جب اﷲ تعالیٰ قرآن حکیم میں واضح طور پہ فرما رہے ہیں۔ ''لہٰذا آپؐ کے رب کی قسم اِن کا کوئی ایمان نہیں۔ جب تک وہ اپنے درمیان پیدا ہونے والے ہر اختلاف میں آپؐ کو حاکم نہ بنائیں۔ اور پھر اس فیصلے سے جو آپؐ صادر فرمائیں، اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور پوری فرماں برداری کے ساتھ اسے تسلیم کریں 4/65۔''

ہر شے کے خزانے اﷲ تعالیٰ کے پاس ہیں اور وہ انھیں اپنی ساری مخلوق کے لیے جتنی ضرورت ہے۔ اتنی مقدار میں اتارتا رہتا ہے۔ تقسیم اس نے اپنے نائب کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ یہی اولی الامر کا معیار ہے کہ وہ عدل و انصاف سے اس کے خزانوں کو اس کی مخلوق میں تقسیم کرنے والا ہو اور اس میں کسی قسم کی خیانت نہ کرے۔ اس کے زیرِ نگیں جو ریاست ہے۔ اس کے ہر فرد و بشر کی مکمل رپورٹ اس کے سامنے ہو کہ کتنے بھوکے ہیں۔ کتنے بیمار ہیں۔ کتنے ان پڑھ ہیں۔ جب تک اسے یہ اطلاع نہ مل جائے کہ ہر بھوکے کو کھانا مل گیا ہے، اپنے اوپر کھانا حرام سمجھے۔ جب تک ایک بھی مریض علاج سے محروم ہو۔ اپنا اور اپنی اولاد کا علاج کروانا قہرِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف سمجھے۔ جب تک اس قوم کا ایک بھی بچّہ تعلیم سے محروم ہے۔ اس وقت تک اپنی اولاد کو تعلیم سے محروم رکھے۔ ورنہ اولی الامر بننے کا اہل ہے نہ اس کی خواہش کرے۔ یہ بات ان کی سمجھ تو آئے گی نہیں جو جان بوجھ کر قوم کو ان چیزوں سے محروم رکھتے ہیں۔ وہ جو محروم ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو کچھ ایسے انتظامات کیے جاسکتے ہیں، جس سے ایک حد تک ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

حضرت سخی سید معروف شاہؒ کا مزار مبارک بھی خوشاب کے اسی قبرستان میں ہے جہاں حضرت سخی احمد شاہ اور حضرت سخی محمود شاہؒ کے مزارات ہیں اور ان کا سالانہ عرس بھی محرم الحرام کی 7، 8، 9 اور 10 تاریخ کو ہوتا ہے۔ ان تینوں حضرات کی قبور کو بادشاہوں کی قبریں کہتے ہیں۔ یہ لوگ مقبول بارگاہِ الٰہی ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی فوج نہیں ہوتی، کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہوتی۔ ان کے ذکر کو اﷲ زندہ رکھتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اﷲ کی جماعت ہوتے ہیں۔ خیر کے نمایندے ہوتے ہیں جو کچھ لوگ ان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ اسے جمع نہیں کرتے بلکہ غرباء و مساکین میں تقسیم کرکے برابر کردیتے ہیں۔ یہی منبع خیر حضور نبی کریمؐ کی سنّت مبارک ہے۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ سورۃ الم نشرح میں فرماتے ہیں، ''اور ہم نے آپؐ کا ذکر بلند فرمادیا۔'' ننانوے صفات انسانی کی ہر ہر صفت میں حضور رسول اکرمؐ چمکتا سورج ہیں اور قابلِ اتباع ہیں، جو حضور رسول کریم رئوف الرحیم ؐ کی اتباع کرتے ہیں۔ ان کا ذکر کیوں نہ زندہ رہے گا۔ شیطان کی پیروی کرنے والوں پہ لعنت مسلمہ ہے تو پھر حضورؐ کی اتباع کرنے والوں پر بھی رحمت مسلمہ ہے۔

حضرت سخی سیّد معصوم شاہ 909ھ میں حضرت ابنِ آدم چشتیؒ کے گھر چشتیاں کے مقام پر پیدا ہوئے۔ چشتیاں پنجاب کے ضلع بہاول نگر کی تحصیل ہے۔ چشتی بزرگوں کا مسکن ہونے کی وجہ سے اس جگہ کو چشتیاں کہا جاتا ہے۔ حضرت ابنِ آدم چشتی نجیب الطرفین سیّد اور بہت بلند پایہ ولی اﷲ تھے۔ ولی کے گھر ولی کی پیدایش ہو تو یہ نور علیٰ نور ہے۔ اس گھرانے کی خوشیوں کا کیا ٹھکانا۔ مگر ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے اور حضرت سیّد ابنِ آدم چشتیؒ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے انھیں جو فرزند عطا فرمایا ہے، وہ مستقبل میں آسمانِ ولایت کا درخشندہ ستارہ ہوگا۔ جو نا صرف ان کے خاندان کا نام روشن کرے گا بلکہ دور دور تک نورِ ہدایت پھیلائے گا۔ جب وہ چار سال کے ہوئے تو حضرت سیّد ابنِ آدمؒ نے ان کی تعلیم و تربیت شروع کردی۔

وہ پیدایشی طور پر ہی عام بچّوں سے بالکل مختلف تھے۔ کھیل کود کی طرف ان کا کوئی رجحان نہ تھا۔ اپنے لباس پر غیر معمولی توجہ دیتے۔ کپڑوں پہ اگر ذرا سا داغ بھی لگ جاتا تو اسے صاف کیے بغیر نہ پہنتے۔ اتنی چھوٹی عمر میں بھی یوں لگتا، جیسے کوئی بہت معزز شخص محفل میں بیٹھا ہو۔ تعلیم پر بھرپور توجہ دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ دس سال کی عمر تک تمام علومِ دینیہ سیکھ چکے تھے۔ علماء و مشائخ کی محافل میں جاتے، مگر ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کبھی اظہارِ رائے نہ کرتے۔ بلکہ خاموش اور باادب بیٹھے بڑی توجہ اور انہماک سے ہر کسی کی گفتگو سنتے رہتے۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ پیچیدہ مسائل اور علمی نکات کے حل خود بخود ذہن میں محفوظ ہوتے گئے۔

ابھی ان کی عمر بہ مشکل پندرہ برس تھی کہ والدِ گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ابھی آپ کی روحانی پیاس باقی تھی۔ چناں چہ روایتی طور پر والدِ گرامی کی گدّی نشینی اختیار کرنے کے بجائے والدہ محترمہ سے اجازت لے کر مرشد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ والدہ محترمہ نے فرمایا، ''تم سیّد زادے ہو۔ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا، جس کی راہ میں نکلے ہو اسی کے مہمان ہو وہ خود سارے انتظامات فرمائے گا۔ اخلاص شرط ہے منزل دور نہیں ہوتی۔ اگر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت آجائے تو واپس لوٹ آنا اور سمجھ لینا کہ تمہارے اندر وہ اخلاص نہیں ہے، جو منزل پر پہنچادے، جس کی تلاش میں بندہ نکلے۔ اگر یہی یقین نہ ہو کہ وہ ربوبیت کے سارے انتظامات کرنے پہ قادر ہے تو پھر جستجو ہی جھوٹی ہے۔ در در کی خاک چھاننا بے کار ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ دل سے درویشی کا خیال نکال کر بندہ دنیا داری اختیار کرلے۔''

والدہ محترمہ کی نصیحت نے ان کے اندر ایک بجلی سی بھر دی۔ والدہ محترمہ کی قدم بوسی کرکے اسی نصیحت کی روشنی میں نکل کھڑے ہوئے۔ انھیں یقین تھا کہ منزل دور نہیں ہے۔ دریائے ستلج کے کنارے پہنچے تو کشتی مسافروں سے بھری ہوئی تھی، مگر کشتی بان آپ کو آوازیں دے رہا تھا، ''شاہ صاحب! جلدی آئیں دیر ہورہی ہے۔'' آپ بہت حیران ہوئے کہ کشتی والا مجھے کیسے جانتا ہے؟ آپ کشتی میں بیٹھ گئے۔ راستے میں آپ نے کشتی والے سے پوچھا کہ تم مجھے کیسے جانتے ہو؟ اس نے کہا کہ پہلے پور میں ایک بزرگ گئے ہیں۔ انھوں نے مجھے پیسے دے کر فرمایا، ''ایک سیّد زادہ اس حلیے میں آرہا ہے۔ یہ اس کا کرایہ لو اور اسے بتادینا کہ میں لاہور میں اس کا انتظار کررہا ہوں۔'' یہ اشارہ تو آپ کو مل گیا کہ راہ نمائی آپ کو لاہور سے ملے گی۔

مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے اولیاء اﷲ کے مزارات پر حاضری دیتے، اﷲ والوں سے ملتے ملاتے لاہور پہنچے۔ حضرت علی ہجویریؒ المعروف بہ داتا گنج بخش کے مزار پر قیام کیا۔ ایک دن گدّی نشین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی،''شاہ صاحب! یہاں قیام میں آپ کو کسی قسم کی پریشانی تو نہیں ہے؟'' انھوں نے جواب دیا،''بادشاہوں کے مہمانوں کو کیا پریشانی ہوسکتی ہے۔ مگر آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ انھوں نے کہا، ''حضرت داتا گنج بخشؒ نے حکم دیا ہے کہ ہمارا بیٹا یہاں ٹھہرا ہوا ہے۔ اس کا خیال رکھو۔ اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ آپ سے گزارش ہے کہ کوئی بھی خدمت ہو تو مجھے حکم فرمائیں۔ آپ کی خدمت میرے لیے بڑی سعادت ہوگی۔'' آپ نے فرمایا، ''میں حسب الحکم یہاں آیا ہوں۔ طالبِ حق ہوں۔ راہ نما کی تلاش ہے۔ حضرت علی ہجویریؒ کے حضور میری یہ درخواست پیش کردیں کہ میرے لیے کیا حکم ہے۔''

چند دن خاموشی رہی۔ ایک رات حضرت داتا گنج بخشؒ آپ کو خواب میں ملے اور فرمایا، ''میں علی ہجویری ہوں، جو نصیحت ہماری بیٹی نے چلتے وقت تمہیں کی تھی، تم نے اس پر استقامت اختیار کی۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے تمہارے اخلاص کو قبول فرمایا اور تمہارے لیے تمام مراحل و منازل کو آسان فرمادیا۔ میرے اس گدّی نشین سے بیعت کرو۔ اس کی بیٹی بہت عابدہ زاہدہ ہے۔ اس سے نکاح کرو اور دو دریا پار کر کے تیسرے دریا کے قریب مخلوقِ خدا کی راہ نمائی کے لیے قیام کرو۔ اﷲ کریم نے تمہارے لیے سارے انتظامات فرمادیے ہیں۔'' آپؒ نے سارے کام حکم کے مطابق انجام دیے۔

جب حضرت علی ہجویریؒ لاہور تشریف لائے تو لاہور میں ہندوئوں کا زور تھا۔ جوگی محلے کا ایک جوگی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور دریا سے پانی بھر کے لاتا، جھاڑو دیتا۔ روٹی پکاتا اور پھر خاموشی سے مؤدب بیٹھا رہتا۔ حضرت کو اس کی یہ ادا بڑی پسند تھی۔ آپؒ اس کے لیے اور اس کی اولاد کے لیے ایمان کی دعا کرتے۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی۔ وہ شخص اپنے خاندان سمیت مسلمان ہوا۔ بعد میں وہی لوگ یکے بعد دیگرے گدّی نشین ہوئے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی اور محقق کی تحقیق اس بارے میں مجھ سے مختلف ہو، مگر مجھے اس سے کوئی بحث نہیں۔ اس خاندان میں بڑے بڑے صاحبانِ مقام و مرتبہ لوگ بھی ہو گزرے ہیں۔

ان ہی سے حضرت سخی سیّد معروف شاہ نے فیض پایا۔ خلافت و اجازت پائی۔ آپ کے مرشد نے فرمایا، ''آپ سیّد ہیں۔ میں آپ کو بھلا کیا سِکھائوں گا۔ آپ کی امانت آپ کے بزرگوں سے پائی تھی۔ آپ کے سپرد کررہا ہوں، تاکہ قیامت کے دن میرے امین ہونے پر آپ گواہ ہوں۔ باقی سب کچھ آپ کے پاس ہے۔ میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ کوئی نافع نہیں ہوتا۔ جب تک اسے اپنے وجود کی سلطنت پر نافذ نہ کیا جائے۔ کوئی عبادت عبادت نہیں ہوتی جب تک اس میں اخلاص شامل نہ ہو۔'' پھر فرمایا، ''جو حکم آپ کو حضرت داتا گنج بخشؒ کی طرف سے ملا ہے، اس پر عمل کریں۔ میری طرف سے اجازت ہے۔'' آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو ساتھ لیا اور اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے ان دیکھی منزل کی طرف چل دیے۔

دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے نور سے دیکھنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ تاریخِ انسانی میں کتنے لوگ گزرے ہیں جنھوں نے محض اﷲ کی رضا کی خاطر مال، اولاد، گھر بار، عزیز و اقارب چھوڑے۔ صحابہ کرامؓ نے اﷲ کی رضا خاطر گھر بار سے دور مصروفِ جہاد رہے۔ طارق بن زیادؒ نے وطن سے سیکڑوں میل دور کشتیاں جلادیں۔ حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے اس بات کو یوں منظوم کیا:

ترجمہ: طارق نے جب اندلس کے کنارے کشتیاں جلادیں تو ساتھیوں نے کہا، ''تمہارا یہ عمل عقل کی رو سے جرم ہے۔ ہم وطن سے اتنی دور ہیں۔ کشتیوں کے بغیر واپس کیسے پہنچیں گے۔ شریعت میں اسباب کا ترک کرنا کب جائز ہے۔'' طارق نے ہنس کر اپنا ہاتھ تلوار کی دستے پر رکھا اور کہا، ''ہر ملک جو ہمارے خدا کی ملکیت ہے، وہ ہماری ملکیت ہے۔

اسی طرح اولیائے کرامؒ نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر حصول رضائے الٰہی کو مقدم سمجھا، جہاں گئے، اسی کو اپنا وطن بنالیا اور تن من دھن سے مخلوقِ خدا کی بھلائی میں مشغول ہوگئے۔ راتیں اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اور دن اس کی مخلوق کی خدمت کے لیے وقف کردیے۔ بیگانوں کو اپنا بنایا اور اپنے کردار کی بلندی سے اپنی عظمت کو منوایا۔

حضرت سید معروف شاہ بھی یقیناً انھی لوگوں میں سے تھے۔ لاہور سے نکلے تو 938ھ میں موضع کھرولیاں شاہ پور پہنچے۔ شاہ پور پہلے ضلع تھا، مگر اب ضلع خوشاب کی تحصیل ہے۔ آپ نے زندگی کے تقریباً پچاس سال اسی جگہ گزارے۔ آپ چوں کہ حضرت سخی سیّد احمد شاہ اور حضرت سخی سیّد محمود شاہ کے ہم عصر تھے۔ اس لیے آپ کا خوشاب میں کثرت سے آنا جانا رہتا تھا۔ آپ کشف و کرامت سے سخت نفرت کرتے تھے اور اپنے مریدین کو ہمیشہ یہ درس دیتے تھے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اﷲ کی طرف سے ہوتا ہے۔ انسان اﷲ کے کیے کو اپنے نام سے منسوب کرے، یہ اسے کیسے زیب دیتا ہے۔ خلیفۃ اﷲ فی الارض ہونے کے ناتے جو کچھ بھلائی اس کے پاس ہے اسے پھیلائے اور جو شر اس کے سامنے آئے اسے روکنے کی کوشش کرے۔ یہی اس کا شرف ہے۔

یہی اس کی شان ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ کے حضور نیک ہے تو کام یاب ہے۔ ڈینگیں مارنے کی اور شعبدہ بازی کی کیا ضرورت ہے؟ اگر کوئی دعا کے لیے کہتا تو فرماتے، ''آئو! سب مل کر اﷲ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ کیا پتا کس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی اﷲ سبحانہ و تعالیٰ لاج رکھ لے۔'' یعنی کبھی بھی کوئی ایسی کوشش نہیں کی کہ جس سے یہ پتا چلے آپ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھتے ہیں، بلکہ ہمیشہ اپنے آپ کو دوسروں سے کم تر سمجھا۔ سادہ خوراک، سادہ لباس استعمال کیا۔

آپ 987ھ بمطابق 8 مارچ 1579 کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو خوشاب کے اسی قبرستان میں دفن کیا گیا، جہاں سیّد احمد شاہ اور سیّد محمود شاہ دفن ہیں۔ بادشاہوں کی قبروں میں تیسری قبر مبارک آپ کی ہے۔ تینوں حضرات کا سالانہ عرس 7، 8، 9، 10 محرم کو ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں