پشاور پولیس لائن خود کش حملے کا مرکزی ملزم کانسٹیبل گرفتار

محمد ولی 2019 میں بھرتی ہوا، ملزم کی وجہ سے پولیس لائن خودکش حملےمیں 101 لوگ شہید اور 223 زخمی ہوئے تھے

پشاور: قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 30 جنوری 2023 کو پولیس لائن پر خود کش حملے کے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا۔

گرفتار ہونے والے ملزم کا نام محمد ولی ہے جو خیبر پختون خواہ پولیس میں کانسٹیبل اور پشاور کا رہائشی ہے۔ کانسٹیبل محمد ولی 2019 میں پولیس میں بھرتی ہوا۔

دوران تفتیش محمد ولی نے بتایا کہ 2021 میں فیس بک پر جنید نامی آئی ڈی سے رابطہ ہوا۔ جو جماعت الاحرار کا ریکروٹمنٹ ایجنٹ تھا ۔ وہ افغانستان میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر ریکروٹمنٹ کرتا تھا ۔ جنید نے مجھے افغانستان آ کر ملنے کے لیے کہا ۔ 2021 میں چھٹی لے کر چمن بارڈر سے افغانستان گیا ۔ جلال آباد افغانستان میں میری ملاقات جنید سے ہوئی ۔ جنید مجھے شونکڑے اور چکناور مرکز کنہڑ لے کر گیا ۔

اس نے کہا کہ کنہڑ میں میری ملاقات دہشت گرد کمانڈر صلاح الدین اور مکرم خراسانی سے ہوئی ، ملاقات کے بعد میں نے جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کر لی ، دہشت گرد کمانڈر ملا یوسف کے ہاتھ پر بیعت کی، جماعت الاحرار میں شامل ہونے پر مجھے بیس ہزار روپے ملے، واپسی پر افغان فورسز نے گرفتار کیا لیکن جماعت الاحرار کی مداخلت پر رہا کر دیا، 2023 میں میری ڈیوٹی پولیس لائن پشاور میں تھی۔

محمد ولی نے بتایا کہ جنید نے مجھے کہا کہ کمانڈر خالد خراسانی کی "شہادت" کا بڑا بدلہ لینا ہے ، جنوری 2023 میں پولیس لائن کی تصویریں اور نقشہ ٹیلی گرام پر جنید کو دیا ، 20 جنوری 2023 کو خودکش حملہ آور کو چرسیاں مسجد، خیبر سے لے کر آیا اور پولیس لائن مسجد کی ریکی کروائی، حملہ آور کا نام قاری اور قومیت افغان تھی، سانحہ پولیس لائن والی صبح 11 بجے خودکش حملہ آور کو چرسیاں مسجد باڑا سے لینے گیا، مسجد میں حملہ آور خود کُش جیکٹ اور پولیس وردی سمیت موجود تھا۔

اس نے کہا کہ حملہ آور کو چرسیاں مسجد سے موٹر سائیکل پر رحمان بابا قبرستان لے کر آیا، جہاں بمبار کو پولیس کی وردی اور خود کُش جیکٹ پہنائی، پھر موٹر سائیکل پر بٹھا کر پولیس لائن کے پاس چھوڑا، حملہ آور مسجد چلا گیا، میں گھر واپس آ گیا، دھماکہ ہو گیا تو جنید کو ٹیلی گرام پر پیغام بھیجا کہ حملہ کامیاب ہو گیا ہے، پولیس لائن خودکش حملہ کروانے پر مجھے دو لاکھ روپیہ معاوضہ ملا، جو میں نے ہنڈی حوالہ کے ذریعے موصول کیا۔

محمد ولی نے کہا کہ پولیس لائن حملے کے علاوہ بھی بہت سی دہشت گرد کاروائیاں کیں، جنوری 2022 میں عیسائی پادری کو پشاور میں قتل کیا، 2023 اور 2024 میں وارسک روڈ پشاور پر متعدد آئی ای ڈیز حملے کروائے، دسمبر 2023 میں گیلانی مارکیٹ میں ہینڈ گریڈ حملہ کیا، فروری 2024 میں لاہور میں موجود جماعت الاحرار کے دہشت گرد سے رابطہ کیا، لاہور میں موجود جماعت الاحرار کے دہشت گرد کا نام سیف اللہ تھا، میں نے سیف اللہ کو پستول پہنچایا جس سے اس نے ایک قادیانی شخص کو قتل کیا۔

اس نے بتایا کہ مارچ 2024 میں لاہور کے فیضان بٹ سے رابطہ ہوا، فیضان بٹ کو پستول دیا جس سے اس نے دو پولیس اہلکار شہید کیے، مئی 2024 میں پشاور کے مختلف مقامات پر دھماکہ خیز مواد دہشت گردی کے لیے فراہم کیا، جون 2024 میں دہشت گرد لقمان کو خودکش حملے کے لئے جیکٹ دے کر بس پر لاہور روانہ کیا، مگر لقمان پھٹنے سے پہلے ہی پکڑا گیا، جون 2024 میں ایک اور خود کش جیکٹ باڑہ خیبر سے رحمان بابا قبرستان پہنچائی۔

محمد ولی نے مزید کہا کہ جون 2024 میں ایک اور خودکش جیکٹ موٹروے چوک پشاور میں چھپائی، ایک اور خود کش جیکٹ چمکنی پشاور میں چھپائی اور ویڈیو ثبوت جنید کو فراہم کیے، جماعت الاحرار سے ماہانہ 40 / 50 ہزار ملتے تھے، ماہانہ تنخواہ حوالہ ہنڈی کے ذریعے وصول کرتا تھا، 23 اگست 2024 جنید کے کہنے پر جمیل چوک پشاور سے دو خود کش جیکٹ لینے گیا۔

علاوہ ازیں آئی جی خیبر پختونخوا اختر حیات خان نے پشاور سول لائنز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ خودکش حملہ ہمارے لیے ایک چیلنج تھا، طویل تحقیقات کے بعد حملے کے پیچھے موجود گروپ اور ٹریننگ کیمپ سمیت تمام تفصیلات حاصل کرلیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ خوارج کی ذیلی تنظیم کا کام ہے، قاری نامی خودکش حملہ آور کے سہولت کار کو ہم نے ڈھونڈ نکالا، پولیس نے 17مارچ 2023 کو خود کش حملہ آور کے بیک اپ امتیاز کو گرفتار کیا تھا، جس سے تفتیش میں کافی انکشاف ہوئے تھے۔

یاد رہے پولیس لائن خودکش دھماکے میں 101 لوگ شہید اور 223 زخمی ہوئے تھے۔

دریں اثنا پولیس لائنز دھماکے میں گرفتار سہولت کار ملزم پولیس اہلکار کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کردیا گیا، عدالت نے ملزم کو چودہ روز جسمانی ریمانڈ پر سی ڈی کے حوالے کر دیا۔

پراسیکیوشن کے مطابق ملزم پر پولیس لائنز دھماکے میں خودکش حملہ آور کی سہولت کاری کا الزام ہے، ملزم ولی محمد کو پولیس نے بی آر ٹی اسٹیشن سے گرفتار کیا تھا۔

Load Next Story