کراچی:
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے آغا خان یونیورسٹی اسپتال کو تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے مصنوعی پیوند کاری کے لیے پیک امپلانٹ تیارکرنے کی اجازت دے دی ہے، اب ٹوٹ جانے والی انسانی ہڈیوں کی جگہ مریض کی مخصوص ہڈی کی ساخت اور ضرورت کے مطابق پیوند کاری کی جاسکے گی، طب کی انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اب کھوپڑی، ماتھے اور چہرے کی ہڈیوں کو بحال کرنا پیک ایمپلانٹ کے ذریعے ممکن ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق آغا خان یونیورسٹی اسپتال پاکستان کا پہلا ادارہ بن گیا ہے جسے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے پیِک (PEEK) امپلانٹس بنانے کی اجازت دی ہے۔ پیک کو پولی ایتھر ایتھر کیٹون بھی کہا جاتا ہے، جو جدید بائیو کمپیٹبل مٹیریل ہے جسے انسانی جسم کی ہڈیوں جیسا بنایا جا سکتا ہے۔ یہ امپلانٹس خاص طور پر کھوپڑی، ماتھے اور چہرے کی ہڈیوں کی بحالی کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں، جو حادثات یا کینسر کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے نیورو سرجری کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد شمیم نے کہا کہ امپلانٹ ایسی چیز کو کہتے ہیں جو قدرتی طور پر جسم کا حصہ نہیں ہوتی، لیکن اسے خاص طور پر بنا کر جسم میں لگایا جاتا ہے،امپلانٹ کا استعمال عام طور پر مختلف ہڈیوں کے ٹوٹنے یا نقصان کی صورت میں کیا جاتا ہے، جیسے گھٹنے یا کولہے کی ہڈی کے ٹوٹنے کی صورت میں، کسٹمائزڈ امپلانٹ پہلے سے تیار شدہ نہیں ہوتے بلکہ انہیں مریض کی مخصوص ہڈی کی ساخت اور ضرورت کے مطابق ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
یہ جدید ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے ہم ایسی مشکلات حل کر سکتے ہیں جن کا ماضی میں کوئی آسان حل نہیں تھا۔ اگر مثال کے طور پر کسی شخص کی ماتھے کی ایک طرف کی ہڈی غائب ہو، چاہے یہ نقصان کسی حادثے میں آیا ہو یا ٹیومر کی وجہ سے، تو پہلے ہمیں اس کی ہڈی کاٹ کر امپلانٹ بنانا پڑتا تھا یا ایسا مٹیریل استعمال کرنا پڑتا تھا جو جسم میں زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر پاتا،اس طرح کا امپلانٹ اصل ہڈی جیسا نظر نہیں آتا اور ماتھے کے دونوں حصوں میں واضح فرق رہ جاتا تھا۔
دیگر مٹیریل کے امپلانٹس چند سالوں میں سکڑ جاتے ہیں اور وزن بھی رکھتے ہیں، جبکہ پیک (PEEK) امپلانٹ اس سے مختلف ہے۔ پیک ایک مضبوط اور بائیو کمپیٹبل مٹیریل ہے جو انسانی جسم کی ہڈی کی طرح سخت ہوتا ہے اور اس کا وزن بھی کم ہوتا ہے، اگر ہم ہڈی کی مضبوطی کے لیے زیادہ پیک استعمال کریں، تو یہ بھاری محسوس نہیں ہوتا۔
بائیو کمپیٹبل ہونے کی وجہ سے پیک امپلانٹ انسانی جسم میں تقریباً پچاس سال تک ٹھہر سکتا ہے، اور دیگر مٹیریل کے امپلانٹس کی نسبت اس میں انفیکشن کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے،دیگر مٹیریل کے امپلانٹس میں انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ نکالنا بھی پڑ سکتا ہے۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت پیک امپلانٹ میں مزید بہتری آئی ہے، اور اب ہم اسے جسم کی مخصوص ہڈی کے مطابق تھری ڈی پرنٹ بھی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کے ماتھے کی ایک طرف کی ہڈی غائب ہے، تو ہم سی ٹی اسکین اور تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے ایسا ہی امپلانٹ بنا سکتے ہیں جس سے ماتھے کے دائیں اور بائیں حصوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آغا خان یونیورسٹی اسپتال پاکستان کا پہلا اسپتال بن گیا ہے جسے ڈریپ (ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان) نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے پیک (PEEK) امپلانٹ بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہاں ہم ابتدائی طور پر نان ویٹ بیئرنگ ہڈیوں کے امپلانٹ بنا رہے ہیں، جن میں کھوپڑی، ماتھے، آنکھ اور ناک کے قریب کی ہڈیوں کے امپلانٹس شامل ہیں۔ ان امپلانٹس کو میگزیلوفیشل سرجری کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔آئندہ مرحلے میں ہمارا مقصد ویٹ بیئرنگ ہڈیوں، جیسے گردن اور ریڑھ کی ہڈی کے امپلانٹس تیار کرنا ہے۔ پ
یک کا استعمال عام طور پر جسم کے جوڑوں کے امپلانٹس میں نہیں ہوتا، کیونکہ یہ ایسے حصے ہیں جن میں حرکت ہوتی ہے،آغا خان یونیورسٹی اسپتال ماضی میں پیِک امپلانٹ خود تیار نہیں کر رہا تھا بلکہ انہیں بیرون ملک سے منگوایا جاتا تھا۔ اس وجہ سے ان کی لاگت زیادہ ہوتی تھی اور اس عمل میں کافی وقت بھی لگتا تھا۔ اگر کبھی درآمد شدہ پیِک امپلانٹ میں کوئی مسئلہ ہوتا تو اسے واپس بھیجنا اور ٹھیک کروانا بھی ضروری ہوتا، جس سے مزید وقت ضائع ہوتا۔ لیکن اب آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں یہ امپلانٹ کم لاگت پر اور بغیر وقت ضائع کیے مقامی طور پر تیار کیے جا سکتے ہیں۔
اب ہم وہ تمام امپلانٹس جو پیک سے دنیا بھر میں تیار کیے جارہے ہیں وہ مقامی طور پر تیار کرسکتے ہیں،ابھی تک کی سرجریز میں ہمیں اطمنان بخش نتائج ملے ہیں۔ہاتھ اور پاؤں کی ہڈیوں کے لیے امپلانٹ سے بہتر اپنی ہڈی لگانا ہے،پیک سے ہم سر اور چہرے کی ہڈیوں کے امپلانٹ بناسکتے ہیں،جس سے ہم ٹریفک حادثات اور منہ کے کینسر کے مریضوں ٹوٹی ہڈیوں کا امپلانٹ بناسکتے ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد شمیم نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ دیگر اداروں کو شامل کریں تاکہ اس کا دائرہ وسیع ہو،آٹھ گھنٹے مسلسل پرنٹنگ پر ایک پیک امپلانٹس بنتا ہے۔آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے ڈائریکٹر ٹیکنالوجی انوویشن سپورٹ سینٹر سلیم سیانی نے بتایا کہ پہلے پیِک امپلانٹس کو بیرون ملک سے منگوانا پڑتا تھا جس کی وجہ سے لاگت زیادہ اور وقت طویل ہوتا تھا۔ اب ان امپلانٹس کو مقامی سطح پر تیار کیا جا رہا ہے جس سے لاگت میں 50 سے 60 فیصد کمی آئی ہے۔
پیِک کا متبادل ٹائٹینیم ہے، لیکن وہ نہ صرف مہنگا ہے بلکہ اس کا وزن بھی زیادہ ہوتا ہے، جس سے مریض کو تکلیف ہو سکتی ہے۔ پیِک امپلانٹس ریڈیولوسنٹ ہوتے ہیں، یعنی ایکسرے کے ذریعے ان امپلانٹس کے گرد ہڈی کی افزائش کو دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ ٹائٹینیم میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔ پیِک امپلانٹس کی اس خاصیت کی وجہ سے ڈاکٹر علاج کے دوران امپلانٹ کے گرد ہڈی کی صحت کو بہتر طریقے سے جانچ سکتے ہیں۔آغا خان یونیورسٹی اسپتال نے اب تک 14 پیک امپلانٹس کے آپریشن کیے ہیں،اے کے یو ایچ کی یہ پیشرفت نہ صرف ملک کے لیئے جدید طبی سہولیات کا فروغ ہے جبکہ اس نئی ٹیکنالوجی کا آغاز مریضوں کو سستی اور معیاری طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے اہم قدم ہے۔
سب سے پہلے ہم مریض کے سی ٹی اسکین کی مدد سے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے ایک ماڈل تیار کرتے ہیں، جس کا فٹ ٹیسٹ نیوروسرجن کے ذریعے منظور کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد، ہم اسی ماڈل کی بنیاد پر حسب ضرورت امپلانٹ تیار کرتے ہیں اور پھر سرجری کرکے اسے مریض کے جسم میں نصب کر دیا جاتا ہے۔ اب تک جتنے بھی امپلانٹس تیار کیے اور لگائے گئے ہیں، ان میں انفیکشن کی شکایت نہیں ملی۔
یہ امپلانٹ اس مخصوص میٹیریل سے بنایا جاتا ہے جسے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے منظور کیا ہے۔ یہ ٹریفک حادثات اور منہ کے کینسر کے مریضوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ عام طور پر حادثات میں ٹوٹی ہڈیوں کو مریض کی اپنی ہڈی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن انفیکشن کی صورت میں یہ ممکن نہیں ہوتا۔ مستقبل میں ہم میگوفیشل سرجریز کے لیے اس پر مزید ترقی کریں گے۔
آغاخان یونیورسٹی اسپتال کے ڈیپارمنٹ آف سرجری کے سربراہ ڈاکٹر سلیم اسلام نے کہا کہ ڈریپ کی ٹیم نے انسپیکشنز کے بعد اس ٹیکنالوجی کی منظوری دی ہے،یعنی اے کے یو ایچ نے اس سے متعلق عالمی سطح کے تمام معیارات پورے کیے ہیں۔سترہ سالہ عمیر رمضان کا ٹریفک حادثے کے سبب کھوپڑی میں چوٹ آئے۔عمیر نے اے کے یو ایچ سے پیک امپلانٹ لگایا جس سے وہ کافی مطمئن ہیں۔