کہا جاتا ہے کہ کھوار زبان کا آغاز چترال کی ایک وادی ’کھو‘ سے ہوا جو ’توری کھو‘ اور ’موڑی کھو‘ میں تقسیم ہے۔ اس علاقے کی وجہ تسمیہ کے متعلق ایک قول تو یہ ہے کہ یہ لفظ درحقیقت کوہ یعنی پہاڑ سے نکلا ہے۔ دوسری روایت کے مطابق دردی یا داردی زبانوں میں ’کوئی‘ سے مراد آباد وادی ہے۔
یہ لفظ ایک اور مقامی زبان کالاشہ میں اپنی اصل شکل میں موجود ہے اور یہی لفظ تبدیل ہوکر کھوار میں کوہ بن گیا تو یہاں کی وادیوں کے نام کے ساتھ ’کوہ‘ کا لاحقہ لگا ہوا ہے جیسے شیشی کوہ، جنجریت کوہ، لٹ کوہ۔ اس بیان کی رُو سے ’توری کھو‘ اصل میں ’توری کوہ‘ اور ’موڑی کوہ‘ درحقیقت ’موڑی کوہ‘ ہے۔ اس نکتے پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کھو ار سے مراد ہے ’کوہ وار‘ یعنی وادی کی زبان۔ ایک تیسری رائے یا لسانی قیاس یہ ہے کہ ’توری کھو‘ اور ’موڑی کھو‘ کا پرانا نام ’توری کوب‘ اور ’موڑی کوب‘ تھا۔ ہندآریائی زبانوں میں کوب سے مراد ڈھلوان یا بلند جگہ ہے۔
توری کھو میں آج بھی ایک گاؤں ’دیر کوب ‘ نامی موجود ہے۔ کھو قوم کی چترال میں آمد اور بطور قوم تشکیل کے متعلق مختلف بیانات موجود ہیں جو بہرحال مفروضے اور قیاسات ہی ہیں۔ ایک حیران کُن تحقیق یہ سامنے آئی ہے کہ کھو کا جینیاتی بنیاد پر سائیبیریا اور تبّت کے لوگوں سے نسلی تعلق ہے۔ یہاں ایک مشہور تحقیق بھی اس سے جڑجاتی ہے کہ آریہ قوم کا اصل وطن وسطِ ایشیا اور جنوب مشرقی روس تھا، لہٰذا کھو قوم کا بھی وہیں سے تعلق قرین ِ قیاس ہے۔
ایک محقق جناب ممتاز حسین نے اپنے مضمون بعنوان ’کھوار زبان کا ارتقاء‘ میں لکھا کہ ’’قریباً دو سو سال تک چترال پر ترکوں اور تاجکوں کی حکومت رہی جس کے دوران وسط ایشیاء سے چترال کی طرف آبادی کی کچھ منتقلی ضرور ہوئی ہوگی۔ لیکن یہ انفرادی تارکین وطن تھے اور ان علاقوں سے آبادی کی کسی بڑی نقل مکانی کے شواہد نہیں ملتے۔ چنانچہ یہاں کی زبان پر ان کے اثرات کچھ نئے الفاظ کے اضافے سے زیادہ نہیں تھے۔
دوسری جانب جنوب کے علاقوں اور چترال کے درمیاں آبادی کے تبادلے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا اور کئی گروہ یہاں آکر آباد ہوئے، جنہوں نے یا تو اپنی زبان برقرار رکھی یا پھر مقامی زبان پر گہرے اثرات ڈالے۔ پہلی مثال پالولہ، دمیلی، گواربتی اور نورستانی زبانوں کی ہے جب کہ دوسری مثال ان لوگوں کی جو چوک مچوک کی روایت کے مطابق بالائی چترال کے کئی علاقوں میں آباد ہوئے‘‘۔
کھوار بولنے والو ں کی آبادی کا تخمینہ تین لاکھ ساٹھ ہزار نفوس ہے، مگر دیگر اقوام کے لوگوں کا اپنی زبان ترک کرکے کھو قوم میں ضم ہوجانا اس لسانی گروہ کے اصل حُجم کو بڑھا چکا ہے۔ ایک محقق جناب ممتاز حسین نے کہا کہ ’’ایک محتاظ اندازے کے مطابق کھوار بولنے والوں کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے‘‘۔ غالباً اعدادوشمار کا یہ فرق اسی سبب سے ہوا کہ اصل اہل زبان اور غیراہل زبان کے درمیان کھوار قدر مشترک ہوچکی ہے۔
آبادی کے اعدادوشمار ویسے بھی پوری دنیا میں مدتوں مفروضوں اور بددیانتی پر مبنی جائزوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دیگر مقامی اقوام کے افراد کے لیے کھوار سیکھنا اس لیے بھی آسان ہے کہ ان زبانوں میں مشترک الفاظ کی بُہتات ہے۔ کھوار زبان میں تقریباً ہر موضوع پر مواد شایع ہوچکا ہے۔ ان میں شاعری، افسانے، ناول، لغات، لو ک کہانیاں اور قرآن مجید کا ترجمہ نیز ٹیکسٹ بُک بورڈ، پشاور کی شایع کردہ (ساتویں جماعت تک) درسی کتب شامل ہیں۔
گلگت کے ضلع غذر میں کھوار زبان کا ایک لہجہ رائج ہے جسے عموماً چترالی اور (غذر کی مخصوص بولی ٹھولی کی وجہ سے) ’’غذرکوار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں جب مہتر نے گلگت کے کچھ علاقوں پر قبضہ کیا تو دونوں علاقوں کے باشندوں کے مابین پہلے سے موجود مراسم گہرے ہوئے اور کھوار زبان بھی یہاں کی ثقافت کا حصہ بن گئی۔ ایک محقق ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کا کہنا ہے کہ ’’یہاںزمانہ قدیم سے کھوار بولی جاتی ہے اور اب تک قدیم صورت میں الگ الگ لہجے میں مستعمل ہے۔
تلفظ اور ذخیرہ الفاظ کے ساتھ ساتھ، گرامر، قواعد اور گردان میں بھی فرق اور تفاوت ہے۔ اس لیے اسے الگ لہجہ قراردیا جاتا ہے‘‘۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس دوراُفتادہ مقام پر بولی جانے والی زبان کے ہر لہجے میں اُردو کے اثرات نمایاں ہیں۔ مستشرقین کے دور میں یہ زبان رومن رسم الخط میں لکھی گئی، مگر جب 1917ء سے تحقیق کا سلسلہ دراز ہوا تو رومن رسم الخط نامانوس ہونے کے سبب ترک کرکے عربی رسم الخط اختیار کرلیا گیا۔ یوں براہ ِ راست اردو کا اس باب میں اثر نہ ہونے کے باوجود، یہ ہندآریائی زبان اردو سے قریب ہوگئی۔ چونکہ دونوں زبانوں کا بنیاد ی تعلق یا لسانی اشتراک عربی اور فارسی دونوں زبانوں سے رہا ہے ، لہٰذا اِن کے مابین بھی رشتہ اخوت قائم ہونا عین فطرت تھا۔
کھوار کے مُفرد حروف تہجی بیالیس (42) اور مرکب حروف دس (10) ہیں، یہ بیان ڈاکٹر عظمیٰ سلیم کا تھا ، لیکن ہمارے ممدوح جناب فخرالدین اخونزادہ نے کُل تعداد (یعنی مفرد) تینتالیس لکھی ہے۔ کھوار میں اردو الفاظ کی آمیزش انگریزوں کے دور میں، خصوصاً انگریزی فوج میں شامل مقامی سپاہیوں کے غیرچترالی فوج سے رابطے کے سبب شروع ہوئی۔ دوسرا نمایاں ذریعہ چترال کے مہتر اور درباریوں کا ہندوستان کے مرکزی شہروں کا گاہے گاہے دورہ تھا، جس کے سبب اُن کی اردو بھی رواں ہوگئی تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بے شمار اُردو الفاظ کے کھوار میں مترادفات موجود ہونے کے باوجود، اصل اردو الفاظ ہی زباں زدِعام ہیں۔
کھوار کو جدید ترقی یافتہ زبانوں کی طرح کمپیوٹر اور اِسمارٹ فون پر لکھنے کے لیے تمام سہولتیں بہم پہنچائی جاچکی ہیں جن میں غیرملکی محققین کا بڑا عمل دخل ہے۔ پچھلے چند عشروں میں مقامی محققین، شعراء، اُدَباء اور دیگر اہلِ زبان لوگوں کی کاوشیں رنگ لائی ہیں اور چترال کی سب سے بڑی زبان کا تعارف بڑے پیمانے پر ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں شہزادہ حُسّام المُلک، شہزادہ صمصام المُلک، وزیرعلی شاہ ، غلام عمر، پروفیسر اسرارالدین، گل مرادحسرتؔ، قاری بزرگ شاہ، ناجی خان ناجیؔ، رحمت اکبر خان رحمتؔ، امین الرحمن چغتائی، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ، پروفیسر رحمت کریم بیگ، مولا نگاہ نگاہؔ، عنایت اللّہ چشتی، بلبل ولی بلبلؔ، گل نواز خان خاکیؔ، مکرّم شاہ، شہزادہ فخرالمُلک، شیر وَلی خان اسیرؔ ، محمد نقیب اللہ رازیؔ، پروفیسر ممتاز حسین، محمد عرفان عرفانؔ، ولی زار خان ولیؔ، اقبال الدین سحرؔ، شہزادہ تنویر الُملک، یوسف شہزاد، ظفراللہ پروازؔ، جاوید حیات، فرید احمد رضا، ظہور الحق دانش اور ڈاکٹر رحمت عزیز چترالی کے ساتھ ساتھ ’’چترال کی زبانیں: ماضی، حال، مستقبل‘‘ کے محقق جناب فخرالدین اخونزادہ کے اسماء قابل ِ ذکر ہیں۔ کھوار کے فروغ کے لیے انجمن ترقی کھوار، چترال کے علاوہ کھوار اہلِ قلم ، میئر چترال اور بزم کھوار (غذر) نیز فَورَم فار لینگوئج انیشی ایٹِوز، اسلام آباد جیسا منفرد ادارہ بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ ’’کھوار ادب کی ترقی میں ریڈیو پاکستان نے قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔
ریڈیو پاکستان، پشاور سے کھوار نشریات کا آغاز 1964 ء میں ہوا۔ کھوار کے بہت سے قدیم گیت ریڈیو پر ریکارڈ ہونے کی وجہ سے محفوظ ہوگئے۔ ریڈیو کے لیے کھوار حمد و نعت، ملی نغمے اور بچوں کے گیت لکھے گئے۔ ریڈیو نے کھوار بولنے والوں کو ان کی اپنی زبان میں ڈرامے سے آشنا کیا۔ ریڈیو کی نشریات نے کھوار کے اندر موجود علاقائی فرق کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ انہیں ہر علاقے میں سنا جاتا تھا۔ اس وقت ریڈیو پاکستان کے پشاور، چترال اور گلگت کے اسٹیشنوں سے کھوار نشریات ہوتی ہیں۔
حکومت پاکستان کا محکمہ اطلاعات ایک زمانے میں ایک کھوار رسالہ ’’جمہور اسلام‘‘ کے نام سے شائع کیا کرتا تھا۔ اس رسالے نے برسوں تک کھوار لکھنے والوں کی تخلیقات کو منظر عام پر لانے کا فرض انجام دیا‘‘ (کھوار زبان و ادب: ایک تعارف از ممتاز حسین)۔ کھوار ثقافت کے متعلق ایک دل چسپ انکشاف ملاحظہ فرمائیں: ’’روایتی طور پر کھو لوگوں کی شادی میں جہیز یا سونا وغیرہ دینے کا رِواج نہیں، بلکہ لڑکے کے گھر والوں کو لڑکی کے گھر میں ہونے والے شادی کے اخراجات میں ہاتھ بٹانا پڑتا ہے‘‘۔ (بحوالہ ’’چترال کی زبانیں: ماضی، حال، مستقبل‘‘: جناب فخرالدین اخونزادہ)
فخرالدین اخونزادہ صاحب نے زیرِنظر کتاب میں چترال کی زبانوں کے اردو سے اشتراک کے موضوع پر کچھ مواد پیش کرنے سے گریز کیا ہے، شاید وہ اسے کسی دوسری کتاب میں شامل کرنا چاہتے ہوں، بہرحال راقم نے اپنی سی جستجو اور کاوش سے ایک فہرست مرتب کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
سامون: سامان باندھنا، تیاری
سامونان: سامان باندھنا
(یہ دونوں الفاظ اردو لفظ ’سامان‘ کے پرتَو ہیں)
دہلینز: دہلیز (فقط ایک حرف کا اضافہ ہے)
سُربَند: سَربند (سر پر باندھنے والا کپڑا، پگڑی، عمامہ وغیرہ): محض پیش کے فرق سے اردو لفظ کھوار بن گیا۔
پرچم: زُلف (یہ لفظ اردو سے معنیٰ میں یکسر مختلف ہے، مگر دعوت ِتحقیق دیتا ہے کہ زُلف کو پرچم کیوں کہا جانے لگا)
قلفین: مقفّل (مماثلت بالکل واضح ہے)
خُدائی تہ یار: خدا حافظ
برار: بھائی (اردو، فارسی کے برادر سے مماثل)
اولادیئے: ہم قبیلہ، رشتے دار(اردو لفظ اولاد سے مستفید)
گہنہ غار: زیورات کے لیے رِضاعی ماں کو دی جانے والی رقم۔یا۔اراضی
چِلّہ خانہ: خانقاہ، ریاضت کی جگہ
دول: ڈھول، طبل
دمامہ: نقّارہ (قدیم اردومیں موجود)
سرنائے: نے، شہنائی، نرکل (یہ لفظ مختلف ضرور ہے، مگر اُردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں مل جاتا ہے)
مِیرِشکار: مِیرِشکار
دست موزہ: دستانے (موزہ کے ساتھ دست لگاکر نیا لفظ)
مَری: قتل کرکے (یعنی مرنا سے مشتق)
فرنگی: فرنگی
تھورونان سُم: تھورنی (کانٹے دار پھول: تھوہر کا پھول۔ تھوہر تو اُردووالے بخوبی جانتے ہیں)
اب ذرا اُن اُردو الفاظ کی فہرست بھی ملاحظہ فرمائیں جو غذر (گلگت) میں بولی جانے والی کھوار میں شامل ہیں اور دیگر لہجوں میں عام نہیں:
سفر، تُو، کتاب، تُم، قلم، چُست، ہَوا، پروانہ، سبق، دروازہ، فقیر، کاغذ، شاعر ، قیمت ، احسان، محنت، کورسی یعنی کُرسی، ددن یعنی دانت (دنداں سے مماثل)، چاکو یعنی چاقو، کوچ وال یعنی کوتوال، چادار یعنی چادر، ہواز یعنی آواز۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اردو اور کھوار کے لسانی تعلق پر تحقیق کی جاچکی ہے۔ اس باب میں ''اردو اور کھوار کے لسانی روابط'' (مقالہ ایم۔ اے) از بادشاہ منیر بخاری ، ناشر: مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد: 2003ء کا مطالعہ یقینا معلومات افزا ہوگا۔
آنلائن تلاش میں ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کھوار کی پہلی لغت، کھوار انگریزی لغت، ایک امریکی نومسلم محمد اسماعیل سیلون نے مرتب کی تھی، پھر ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر رحمت عزیز چترالی کی کھوار اردو لغت شایع ہوئی اور اس کے بعد اگست 2008 ء میں محمد ناجی خان ناجی نے کھوار۔اردو لغت مرتب کی جو ناجی سنز شوتخار تورکھو، ضلع چترال سرحد نے شایع کی۔
مزید برآں یہ انکشاف ہوا کہ محمد ناجی خان ناجی کھوار زبان کے مزاحیہ شاعر ہیں ان کا کھوار مجموعہ کلام تروق زوالو کے نام سے منظرعام پہ آچکا ہے۔ اور کھوار زبان میں دوسرا شعری مجموعہ آشروان پراژغار کے نام سے عنقریب منظرعام پہ آنے والا ہے۔ (زیرِتحریر مضمون میں رحمت عزیز چترالی کا ذکر آیا، ابھی تھوڑی دیر پہلے اُن سے رابطے کی کوشش حسبِ سابق ناکام رہی کیونکہ چترال میں موبائل فون کے سگنل کا مسئلہ ہمہ وقت رہتا ہے، بہرحال اُن کی مہربانی کہ واٹس ایپ پر پیغام رسانی جاری رکھتے ہوئے اپنی لغت ارسال کرنے کا وعدہ فرمایا اور کچھ معلومات فوری بہم پہنچائیں)۔ ڈاکٹر رحمت عزیز چترالی صاحب نے فرمایا:’’میرا تعلق اَپر چترال سے ہے۔
میں ایک عرصے سے چترال کی زبانوں کے ساتھ ساتھ ساتھ پاکستان کی دیگر زبانوں پر سائنسی بنیادوں پر کام کررہا ہوں۔ کھوار زبان کی بچوں کی کہانیاں میں نے کھوار سے اردو میں ترجمہ کرکے ''تلاش'' کے نام سے شائع کی ہیں، بچوں کی ایک اور کھوار کہانی کو اردو میں ترجمہ کرکے ''خوابوں کی شہزادی'' کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ کھوار زبان میں بچوں کے ادب کے فروع کے لیے سیرت النبی (ﷺ) پر کھوار کتاب ''رہبراعظم'' کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے، میری کھوار زبان میں نعتیہ شاعری کا گوجری زبان اور اردو میں تراجم پر کتاب ''حضور اکرم ﷺ'' کو چودھری حق نواز احمد (مترجم گوجری) اور اردو تراجم میں نے خود ہی کیے ہیں۔
قرآن مجید کے سورہ فاتحہ کے کھوار زبان میں تراجم و تفسیر بھی میں نے خود ہی کی ہے۔ یہ قرآن مجید سورہ فاتحہ کی کھوار زبان میں پہلی تفسیر ہے، اس کے علاوہ اقبالیات پر میری تین کتابیں ''فکر اقبال''، ''پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال)'' اور ''میرا اقبال (اردو/کھوار'') کے نام سے منظرعام پر آچکے ہیں میری کتاب ''محمد ( ﷺ) '' قومی صدارتی ایوارڈ اور سند امتیاز کا اعزاز عطا گیا ہے۔ میں نے شاعری کے پشتو سے کھوار، اردو سے کھوار، انگریزی سے کھوار، فارسی سے کھوار تراجم کرکے ان کو اپنے کالموں میں بھی شامل کیا ہے، میرے تین کالموں کے مجموعے ''سرعام''، ''خیال سے قرطاس تک'' اور ''قلم کہانی'' کے نام سے زیر تدوین ہیں، انگریزی میں میری کھوار نعتیہ شاعری کی کتاب ''ٹریبیوٹ ٹو حضرت محمد( ﷺ)'' اور اردو ناول ''کافرستان'' شائع ہوچکے ہیں۔ میں نے کھوار زبان کے لیے ''کھوار کی بورڈ'' اور کھوار زبان کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا سافٹ وئیر بھی بنایا ہے، اس کے علاوہ میں نے اردو، پشتو، سندھی، سرائیکی اور دیگر چالیس سے زائد مادری زبانوں کے لیے بھی مفت کیبورڈ سافٹ وئیر بنائے ہیں، جو ہر زبان کو سات پلیٹ فارمز پر تحریر لکھنے کے قابل بناتے ہیں‘‘۔
’’چترال کی زبانیں: ماضی، حال، مستقبل‘‘ از فخرالدین اخونزادہ میں چترال کی بارہ زبانوں پشتو، پالولا، دمیلی، کتہ وری، کمویری، کالاشہ، کھوار، گوجری، گورباتی، مڈک لشٹی، وَخی (واخی) اور یَدغا کے متعلق مواد بالتحقیق فراہم کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر یہ اوّلین مبسوط تحقیقی کتاب ہے ، ورنہ اس سے قبل کام اکثر انگریزی ودیگر غیرملکی زبانوں میں شایع ہوا۔
مآخذ
۱۔’’چترال کی زبانیں: ماضی، حال، مستقبل‘‘ از فخرالدین اخونزادہ۔ ناشر: فَورَم فار لینگوئج انیشی ایٹِوز، اسلام آباد : 2023ء
۲۔ چترال کی لوک کہانیاں از غلام عمر ، ناشرلوک ورثے کا قومی ادارہ، اسلام آباد، بہ اشتراک انجمن ترقی کھوار، چترال : جنوری 1984ء
۳۔گلگت بلتستان کی زبانوں کا جائزہ مع تقابلی لغت از ڈاکٹر عظمیٰ سلیم ، ناشر : اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد: 2017ء
۴۔شاہکار اِسلامی انسائیکلوپیڈیا ، ناشر : فیصل ناشران ِکتب، لاہور: 2000ء
۵۔جامع اردو انسائیکلوپیڈیا ، ناشر: شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور جلد اوّل: 1987ء
۶۔…………ایضاً………جلد دُوَم: 1988ء
۷۔ ’’کھوار زبان کا ارتقاء‘‘ (مضمون) اَز ممتاز حسین
۸۔’’کھوار زبان و ادب: ایک تعارف‘‘(مضمون) از ممتاز حسین
9. https://www.iranicaonline.org/
10. Chitrali language Kalash-English Lexicon
11. KALASHA - KHOWAR - NURISTANI WORD LIST
https://salvadorjafer.net/linguasfera/ 5Indoeuropeu/58Indoiranic/Dardic/kalasha.htm
12. Kalasha Dictionary -with English and Urdu
https://www.indigenouspeople.net/ Kalashdictionary.pdf