مجاز اکتوبر 1911ء میں قصبہ رودولی ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ ان کا حقیقی نام اسرار الحق جب کہ مجاز تخلص ہے۔ لکھنؤ سے ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کی پھر اس شہر سے اس قدر لگاؤ ہوا کہ مجاز نے اپنے تخلص میں اس کا نام جوڑ لیا اور یوں مجاز لکھنوی کے نام سے جانے گئے۔
اسرار الحق مجاز لکھنوی، ذہانت کی اونچائی کو چھوتا ہوا ایک ایسا شاعر تھا جو جہان فانی سے بہت کم عمری میں گزر گیا مگر اپنی ان مٹ چھاپ اردو زبان، اردو شاعری، ترقی پسند تحریک اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر اس طرح چھوڑ گیا کہ اس کے دھندلے پڑنے کے آثار آج بھی نظر نہیں آتے۔ یہ چھاپ اتنی گہری ہے کہ جدید دور کی شاعری، ترقی پسند تحریک اور علی گڑھ کا ذکر بنا مجاز لکھنوی کے ادھورا سا لگتا ہے۔ مجاز کی 44 سالہ زندگی پر نظر ڈالیں تو بہ حیثیت شاعر ان کی عمر اور بھی مختصر نظر آتی ہے۔ ایسے دور میں جب اردو شاعری اپنے معراج پر پہنچی ہوئی تھی، اس کے افق پر فراق، جوش، فیض، فانی، مخدوم، جانثار، علی سردار، جذبی جیسے تاب ناک ستارے ابھر رہے تھے، کسی بھی شاعر کے لیے اپنی خاص جگہ بنانا مشکل تھا۔ اس دور میں مجاز کچھ لمحوں کے لیے اردو شاعری کے آسمان پر چمکے اور ایسی روشنی بکھیر کر گل ہوگئے جو آج بھی نوجوان نسلوں کے دلوں کو گرما دیتی ہے۔
مجاز کی شاعری کا آغاز 1930ء کے بعد سے ہوتا ہے، جب ہندوستانی نوجوان کے سامنے فردوسِ آزادی کے در کھلے تھے۔ جب نئی زندگی کا تصور اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے ہر نوجوان کو حقیقی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ مجاز نے جب باضابطہ شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو وہ بھی روایتی اندازِنظر کی انگلی تھام کر چل سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنے لیے دوسرا راستہ تجویز کیا۔
اگر مجاز کی شاعری کو تاریخی طور پر سامنے رکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس میں رومانیت کے بنیادی عناصر ایک خاص رنگ میں جلوہ گر ہوئے ہیں، اور کبھی ان کے یہاں سماج سے کٹ کر الگ ہونے، اپنی ذاتی مسرتوں میں کھوجانے اور ایک خیالی جنت بنانے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ان کی حساس طبیعت نے اپنی تکلیف کے ساتھ دوسروں کے کرب کو بھی محسوس کیا ہے۔ ابتدائی نظموں اور غزلوں سے ہی مجاز پختہ شعور کے مالک نظر آتے ہیں۔
مجاز کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے 1933ء ایک خاص سال معلوم ہوتا ہے۔ اس سال کی غزلوں اور نظموں میں شاعر کا بڑھتا تجربہ اور شعور کی وسیع حدود محسوس کی جاسکتی ہیں۔ اسی سال اس نے اپنی تین بہت ہی کام یاب نظمیں لکھیں۔۔۔ آج کی رات، رات کی ریل اور انقلاب۔
’’آج کی رات‘‘ کی بے پناہ غنائیت اسے ایک طرف رومانی نظم بناتی ہے، دوسری طرف تجربے کا والہانہ بیان اسے حقیقت سے منسوب کرتا ہے۔
’’رات کی ریل‘‘ کو مجاز کی بہترین نظموں میں شمار کرنا چاہیے۔ تیسری عہدآفریں نظم ’’انقلاب‘‘ کا موضوع، گہرے سماجی اور سیاسی شعور کا غماز ہے۔
مجاز کی نظم ’آوارہ‘ نے اس وقت کی پوری اردو دنیا کو چونکا دیا، دورحاضر اور اگلے زمانے کے شاعروں کو، اردو شاعری میں استعمال ہونے والی تشبیہات اور تلمیحات کو نئے انداز میں دیکھنے پر مجبور کردیا۔ اس نظم میں چاند کو ’’مُلا کا امامہ‘، ’بنیے کی کتاب‘، ’مفلس کی جوانی‘ اور بیوہ کے شباب جیسی بے کار، لاحاصل چیزوں سے تشبیہ دینے کی جسارت کسی شاعر نے، اردو شاعری میں پہلی بار کی تھی۔ اب تک چاند عشق، خوب صورتی اور معشوق کے معنی میں استعمال ہوتا رہا تھا۔ ویسے تو پوری نظم کے رنگ ہی عجیب طرح سے دل پر اثر کرتے ہیں مگر یہ بند عجیب تر ہے۔
اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب
جیسے ملا کا عمامہ جیسے بنیے کی کتاب
جیسے مفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
مجاز نے شاعری میں خود کو منوایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی کے نام ور شعرا ء میں مجاز نمایاں ترین نظر آتے ہیں تو شایدیہ بھی مبالغہ نہ ہوگا۔
بنجارے جو شہر شہر اورگاؤں گاؤں مارے مارے پھرتے ہیں، ان کی کیا حیثیت ہے، مجاز نے انہیں جس نظر سے دیکھا وہ چونکا دینے والی تھی اور اس نظر میں شدت جذبات اپنے پورے عروج پر ہے۔
ان کی مشہور نظم ’بول اری او دھرتی بول‘ یا ’سرمایہ داری‘ کو ہی لے لیجیے۔ بول اری او دھرتی بول کا بند ہے:
کیا افرنگی کیا تاتاری
آنکھ بچی اور برچھی ماری
کب تک جنتا کی بے چینی
کب تک جنتا کی بے زاری
کب تک سرمایہ کے دھندے
کب تک یہ سرمایہ داری
بول! اری او دھرتی بول!
اگر یہ نظر کسی کے دل و دماغ پر اثر نہ کرے تو یا تو اسے اردو نہیں آتی یا اس کا دل پتھر کا ہے اور ذہن ماؤف ہے۔
مجاز نے سرمایہ داری نظام کی جس طرح مذمت کی اس کی مثال اردو ادب میں نہیں ملتی۔ اس نظم میں بھی شدت جذبات کچھ اتنی تیز تھی کہ سرمایہ داری کی حمایت کرنے والوں کی زبان پر تالا لگ گیا:
کلیجہ پھنک رہا ہے اور زباں کہنے سے عاری ہے
بتاؤں کیا تمھیں کیا چیز یہ سرمایہ داری ہے
یہ وہ آندھی ہے جس کی رو میں مفلس کا نشیمن ہے
یہ وہ بجلی ہے جس کی زد میں ہر دہقاں کا خرمن ہے
جوش جیسے تنقیدی شعور رکھنے والے شاعر اور دانش ور کا مجاز کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ ’’اب مجھے اپنے مرنے کا غم نہیں ہے کہ میرے بعد مجاز جیسا شاعر موجود ہوگا۔‘‘ غزل اور نظم کا یہ بے مثال شاعر اپنے لہجے، آہنگ اور غنائیت کی بناء پر اردو دنیا میں آج بھی زندہ ہے اور آنے والا کل بھی اس کے لہجے کے بانک پن کو اور نمایاں کرے گا۔ کسی نے مجاز کو مطرب انقلاب کہا اور مثال میں یہ اشعار پیش کیے:
دیکھ شمشیر ہے یہ ساز ہے یہ جام ہے یہ
تو جو شمشیر اٹھا لے تو بڑا کام ہے یہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
مجاز کا دور توڑپھوڑ اور انتشار کا دور تھا۔ دوسری جنگ عظیم کی ہول ناک تباہی نے جہاں انسانیت کو خوف زدہ اور مایوس کردیا تھا وہیں اس خاک سے چنگاریاں بھی پیدا ہو رہی تھیں اور یہ آہستہ آہستہ انقلاب کے شعلوں کی صورت کر رہی تھیں۔
مجاز کا اسلوب بیان کمال ہے۔ ان کے کلام کی ایک خاص صفت تراکیب کی ندرت ہے۔ وہ مروجہ تراکیب سے ہٹ کر نئی تراکیب استعمال کرتے ہیں۔ خاص طور سے فارسی تراکیب کی وجہ سے ان کے کلام میں حسن اور کیف پیدا ہوجاتا ہے، وسعت پیدا ہوجاتی ہے اور کلام کی معنوی خوبیاں اجاگر ہوتی ہیں، جیسے:
رعشہ بر اندام کرتی انجم شب تاب کو
آشیاں میں طائروحشی کو چونکاتی ہوئی
مجاز اپنے کلام میں ایسی دل نشیں تشبیہات اور استعارات استعمال کرتے ہیں جن سے مناظر کی تصویرکشی میں مدد ملتی ہے اور ان کے ذریعے وہ معمول کی اشیاء کو اہم بنا کر پیش کرتے ہیں۔
فیض احمد فیض مجاز کے بارے میں کہتے ہیں:
’’مجاز انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں، انقلاب کا مطرب ہے۔ اس کے نغمے میں برسات کے دن کی سی سکون بخش خنکی ہے اور بہار کی رات سی گرم جوش تاثرآفرینی۔‘‘
نیاز فتح پوری لکھتے ہیں:
’’قومی نظمیں لکھنے کا رواج اردو میں بہت عرصے سے ہے لیکن مجاز کی نظمیں ان سب سے الگ ہیں۔ ان میں ہمیں وہ خستگی اور تھکن نظر نہیں آتی جو عام طور پر ایسی نظموں میں پائی جاتی ہے، بل کہ ان میں ایک زندہ ولولہ نظر آتا ہے جو پڑھنے والے کے دل کو متاثر کیے بنا نہیں رہتا۔ ان کی نظموں کی اصل روح انقلاب ہے۔‘‘
عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
’’مجاز کی انقلابی شاعری میں زندگی اور انسانیت کے بارے میں ایک بہت واضح نظریہ ملتا ہے، اس کی بنیادیں حکیمانہ شعور پر استوار نظر آتی ہیں اور یہ ہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔‘‘
مجاز کی غزلیں بھی نظموں سے کسی طرح کم نہیں۔ ان میں سوزومستی بھی ہے، سازوجام بھی۔ لیکن غزلیں محض جذباتیت اور رومانیت کے رنگ میں رنگی ہوئی نہیں بل کہ ان میں حقیقت کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ ایک غزل کچھ یوں ہے:
کیوں کر ہوا ہے فاش زمانے پہ کیا کہیں
وہ رازِدل جو کہہ نہ سکے رازداں سے ہم
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجاز
ڈرتے نہیں سیاستِ اہل جہاں سے ہم
ان کی غزلوں کی تعداد اگرچہ کم ہے مگر ان میں بھی شاعری اپنے جوبن پر دکھائی دیتی ہے۔ ایک اور غزل کا یہ شعر دیکھیے:
شوق کے ہاتھوں اے دل مضطر کیا ہونا ہے، کیا ہوگا
عشق تو رسوا ہو ہی چکا ہے، حسن بھی کیا رسوا ہوگا!
مجاز نے ممبئی انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کے علاوہ، دہلی ریڈیو اسٹیشن میں بہ طور مدیر ملازمت بھی کی۔ پھر لکھنؤ میں نیا ادب اور پرچم کی ادارت کی۔ مجاز انجمن ترقی پسند مصنفین اور مجلس ادارت نیا ادب کے رکن بھی رہے۔ دسمبر 1955ء میں شاعری کی یہ منفرد اور انقلابی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ ہندوستان کی حکومت نے 2008ء میں مجاز کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔