غزل
دل کہہ رہاہے میرامگرکس طرح کروں
اتنا طویل تنہا سفر کس طرح کروں
ہر سانس چاہتی ہے ترا ساتھ مستقل
اک دن بھی بن ترے میں بسر کس طرح کروں
سایہ بھلے نہیں ہے ہماری طرف تو کیا
شکوہ تمہارا بوڑھے شجر کس طرح کروں
کتنی ملامتیں ہیں بغل گیر آ کے دیکھ
خواہش کسی کی بارِدگر کس طرح کروں
رونا میں چاہتا ہوں کسی قہقہے پہ آج
منت میں ہنستی آنکھ کی پر کس طرح کروں
کافی سمجھ اسے تجھے جینا سکھا دیا
اب دان تجھکو سارے ہنر کس طرح کروں
(اسد رضا سحر ۔ احمد پور سیال)
غزل
جابجا خاک ہے وحشت کی فراوانی ہے
مجھ سے آباد میں ویرانی ہی ویرانی ہے
اس لیے روز میں ہنستے ہوئے گھر آتا ہوں
یہ جگہ وہ ہے جہاں رونے میں آسانی ہے
یہ سنہری سے بدن زرق لباسوں والے
ان سے بڑھ کر کہیں اچھی مری عریانی ہے
ایسا گمنام ہوں ہر روز یہی پوچھتا ہوں
زندگی تو نے مری شکل بھی پہچانی ہے
مسئلے اور بھی ہیں مجھ کو بہت سے درپیش
تو مگر یار مری پہلی پریشانی ہے
جل رہی ہے مری آنکھوں میں ترے نام سے جو
میں نے یہ آگ ترے جسم میں دہکانی ہے
میری آنکھوں میں سمٹ آیا ہے رنگوں کا ہجوم
میرے ہونٹوں کے مقابل تری پیشانی ہے
کچھ نہیں بدلا نہ بدلے گا ہمارے حق میں
پھر وہی ہم ہیں وہی بے سروسامانی ہے
کون تبلیغِ محبت کرے ان لوگوں میں
سارے جسموں میں یہاں خون نہیں پانی ہے
(فقیہ حیدر ۔اسلام آباد)
غزل
جاؤ کہ مجھے تجھ سے کوئی پیار نہیں ہے
وعدے سے ترے کوئی سروکار نہیں ہے
تم تھے تو تیری چاہ تھی ارمان بہت تھے
اب دل یہ کسی شئے کا طلبگار نہیں ہے
اک میں ہوں ترا غم ہے یہ یادوں کے ہیں سائے
اب اس کے سوا کوئی عزادار نہیں ہے
ہر شخص ہی کرتا ہے میری سمت اشارے
کیا میرے سوا اور گنہگار نہیں ہے
اس بار چمن ایسا خزاؤں نے اجاڑا
اب پھول کا کیا ذکر کوئی خار نہیں ہے
وہ کاٹ کے سر اور پریشان ہوا ہے
اتری ابھی سر سے میرے دستار نہیں ہے
کاٹو نہ چلو سائے میں ہی بیٹھ لو اس کے
وہ پیڑ جو مدت سے ثمر بار نہیں ہے
(عابد علیم سہو۔ بھکر)
غزل
دل کا موسم وہ سرِ شام بدل دیتے ہیں
اپنی خوشبو سے دور و بام بدل دیتے ہیں
اور ہوتی ہے فزوں اُن کی محبت دل میں
جب وہ باتوں میں مرا نام بدل دیتے ہیں
اب یہ سوچا ہے کہ جب اُن کو نہیں کوئی ملال
ہم بھی اپنا دلِ نا کام بدل دیتے ہیں
میں تو لکھ لکھ کے محبت ہی اُنہیں بھیجتا ہوں
نامہ بر راہ میں پیغام بدل دیتے ہیں
وجد میں ہم کو کہاں اپنی خبر رہتی ہے
رقص میں گردشِ ایام بدل دیتے ہیں
ایک ہی شخص نشانے پہ سدا رہتا ہے
بس یہ کرتے ہیں کہ الزام بدل دیتے ہیں
اِن کی اِس اندھی عقیدت پہ نہ جانا اظہر
جاں سے پیارے بھی یہاں جام بدل دیتے ہیں
( اظہر کمال خان۔پاک پتن)
غزل
آنکھ میں ڈر اٹھائے پھرتے ہیں
ایک لشکر اٹھائے پھرتے ہیں
بوجھ کرتے ہیں زندگی اور پھر
زندگی بھر اٹھائے پھرتے ہیں
ایسے لگتا ہے اپنے کاندھوں پر
غیر کا سر اٹھائے پھرتے ہیں
آئنہ لے کے کون نکلا ہے؟
لوگ پتھر اٹھائے پھرتے ہیں
نجمؔ کچھ دھڑکنیں جہاں والے
تم سے بہتر اٹھائے پھرتے ہیں
(جی اے نجم ۔لاہور)
غزل
میرے گاؤں میں کوئی بھی ایسا دل والا نہ تھا
حالِ دل جس پر عیاں ہوتا کوئی ایسا نہ تھا
دو جہاں مجھ کو ملے ماں کی دعائوں کے طفیل
ورنہ ربِ دو جہاں سے میں نے کچھ مانگا نہ تھا
بند آنکھوں والی لڑکی بولتی تھی اور میں
پی رہا تھا، پی رہا تھا، رات بھر بہکا نہ تھا
اس طلسمِ خانہ داری نے کیا بزدل مجھے
جب میں تنہا تھا تو اپنی موت سے ڈرتا نہ تھا
بے گناہی دیکھ کر میری فرشتوں نے کہا
کیا ترا دنیا میں کوئی چاہنے والا نہ تھا
میری ساری زندگی پہلی نظر کے نام تھی
میں نے اُس کے حسن سے آگے کبھی سوچا نہ تھا
یوں لگا جیسے ہمارے درمیاں کچھ بھی نہیں
چھوڑنے والے نے گویا لوٹ کے آنا نہ تھا
(ناصر ملک ۔چوک اعظم)
غزل
اپنے جیسا بنا دیا ہے مجھے
یعنی صحرا بنا دیا ہے مجھے
آنکھ کھلتے ہی ٹوٹ جاتا ہوں
خواب جیسا بنا دیا ہے مجھے
بادِ صر صر! خزاں کے موسم میں
زرد پتہ بنا دیا ہے مجھے
مجھ سے ویرانیاں بھی ڈرتی ہیں
دشت چپ کا بنا دیا ہے مجھے
دل گزیدہ،اداس راتوں نے
اک ستارا بنا دیا ہے مجھے
کینوس پر کسی مصور نے
الٹا سیدھا بنا دیا ہے مجھے
دل میں کرکے جہان سا آباد
کیوں اکیلا بنا دیا ہے مجھے؟
حرف اور صوت کی محبت نے
کچھ نرالا بنا دیا مجھے
(مبشر سعید ۔ملتان)
غزل
اسی باعث زیادہ ہنس رہا ہوں
میں بالکل بے ارادہ ہنس رہا ہوں
سجے ہیں زخم سینے پر ہزاروں
مگر میں حسبِ وعدہ ہنس رہا ہوں
نہیں ہے مطمئن منزل پہ کوئی
میں ہو کر وقفِ جادہ ہنس رہا ہوں
عجب بے اختیاری سی ہے خود پر
حزیں آدھا ہوں آدھا ہنس رہا ہوں
کہیں آغازِ وحشت تو نہیں ہے
عجب رنگین و سادہ ہنس رہا ہوں
( ساون شبیر۔ کالاباغ)
غزل
کہانی ہے بڑی دلچسپ ،تھوڑی سی توجہ
کسی نے منہ بنایا ہے کسی نے دی توجہ
تمہارے ہاتھ کی تصویر دیکھی گیلری میں
یہی تو تھی کہ جس نے لی ہے لوگوں کی توجہ
یہ دن ہیں امتحانوں کے مری مانو تو پڑھ لو
تمہارا کام ہو گا دو گے تھوڑی بھی توجہ
ہنر یہ سیکھ لو گے میرے بچے شوق ہے تو
رکھو تم دھیان سے بس کام پر اپنی توجہ
نہ دیکھو تم ہمیں ہر بار یوں وارفتگی سے
ہمیں کھینچے ہے اپنی سمت پر جوشی توجہ
گلی کے موڑ پر اک دلربا کے سامنے میں
ہوا کرتی تھی دن بھر کے لیے کافی توجہ
جو کوٹہ آج کا ہنسنے کا تھا ہم ہنس چکے ہیں
سبق پڑھنا ہے ہم کو آج کا لو جی توجہ
پرائی سر زمیں پر دل نہیں لگتا رشیدؔ اب
چلا ہوں دیس کو اپنے مرے جوگی توجہ
(رشید حسرتؔ۔ کوئٹہ)ؔ
غزل
کم بخت مشورے سے بغاوت نہ کر سکا
یعنی کہ تجربے سے بغاوت نہ کر سکا
کچھ خواب چیختے رہے دہلیزِ چشم پر
لیکن میں رتجگے سے بغاوت نہ کر سکا
جرگے نے اختلاف کا بھی حق دیا مگر
کوئی بھی فیصلے سے بغاوت نہ کر سکا
کوشش تو اندمال کی چارہ گروں نے کی
میں دل کے عارضے سے بغاوت نہ کر سکا
پہلے ہی مرحلے میں وہ ناکام ہو گیا
جب رعب و دبدبے سے بغاوت نہ کر سکا
میں ذات کا اسیر تھا سو عمر بھر کبھی
اپنے محاصرے سے بغاوت نہ کر سکا
سب نے ہی چھپ چھپا کے بغاوت کی راہ لی
کوئی بھی سامنے سے بغاوت نہ کر سکا
(شاہد شوق۔اسلام آباد)
غزل
میں ہر اک قافلے کے جسم و جاں میں خوفِ محشر ہوں
چلے جو چشمِ صحرا میں وہی میں بادِ صر صر ہوں
کھنکتا ہوں گلستاں میں گلِ تازہ کی نظروں میں
سمجھ لو برگِ آوارہ کی مانند ایک بے گھر ہوں
مرے درد و الم کا آپ کو اندازہ کیا ہوگا
میں جنت کے کسی گوشے کا اک برباد منظر ہوں
لرزتی آنکھ ہوں شاید کسی معصوم لڑکی کی
مجھے دیکھو میں اپنی ذات میں ہی خوف محشر ہوں
مری اس زندگی کی پائیداری ہے شہابؔ اتنی
ہٹا دے گا کوئی آخر ترے رستے کا پتھر ہوں
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا،دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
غزل
عشقِ دنیا سے عداوت کرلو
اس کے خالق سے رفاقت کرلو
آج کل دور بڑا نازک ہے
اپنی نظروں کی حفاظت کرلو
عاقبت کو جو سنورنے نکلے
ایسے ٹولے کی حمایت کرلو
نفرتوں کو نہ بسالو دل میں
جتنی ممکن ہو محبّت کرلو
گر طلب ہے تجھے عزّت اپنی
تو پھر انسان کی عزّت کرلو
حسنِ اخلاق کے محبوبؔ طفیل
دل پہ اوروںکے حکومت کرلو
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی