اسموگ سے معمولات زندگی متاثر، وجوہات‘ خطرات اور تدارک

خطے میں فضائی آلودگی پر کنٹرول کیلئے سب ممالک کو باہمی تعاون کی راہ اپنان ہوگی


پاکستان میں اسموگ کی بڑی مقدار بھارت سے داخل ہوتی ہے، حکومتی اقدامات کو موثر بنانے کیلئے عوام کا تعاون لازم ہے ۔ فوٹو : فائل

سموگ فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے جو ماحول دھندلا کرتی اور انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے۔

"سموگ" کی اصطلاح سب سے پہلے امریکا اور یورپ میں 1900ء کی دہائی کے اوائل میں فضا میں دھوئیں اور دھند سے جنم لیتا مرکب بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔ اس وقت دھواں عموماً جلتے کوئلے سے نکلتا تھا۔ یہ کوئلہ کارخانوں اور گاڑیوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے، اس زمانے کے امریکا اور یورپ میں صنعتی علاقوں میں سموگ عام تھی۔

قدرتی حسن خطرے میں

آج پاکستان میں فضائی آلودگی اہم ماحولیاتی خطرہ بن چکی۔ ہمارے ہاں شہر تیزی سے پھیل رہے ہیں اور صنعتی ترقی ہو رہی ہے، ایسے میں فضائی معیار کا مسئلہ بڑھ گیا ہے جو صحت عامہ اور ماحولیاتی استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکا۔پاکستان ایک بھرپور ثقافتی ورثے اور قدرتی حسن سے مالامال ملک ہے مگر اب اسے سخت ماحولیاتی چیلنج کا سامنا ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہر اکثر سموگ کی لپیٹ میں رہتے ہیں جو گھٹتے فضائی معیار کے بحران کی سنگین یاد دہانی ہے۔ ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کئی شہر مسلسل عالمی سطح پر آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ تشویشناک حقیقت عیاں کرتی ہے کہ پاکستان کو بہ عجلت فضائی آلودگی سے نمٹنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔

متوقع زندگی کم ہو گئی

پاکستان میں فضائی آلودگی کی شدت کے چونکا دینے والے اشارے میں سے ایک’’ متوقع زندگی‘‘ پر اس کا اثر ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ فضائی آلودگی پاکستان میں اوسط عمر 3.9 سال تک کم کر رہی ہے۔ اقتصادی طور پر بھی نقصان اتنا ہی اہم ہے۔ اندازہ ہے کہ فضائی آلودگی سمیت ماحولیاتی تنزلی سے پاکستان کو اس کی جی ڈی پی کا تقریباً 6 فیصد سالانہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ یہ معاشی نقصان مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے: آلودگی سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات، محنت کی پیداوار میں کمی، اور آلودہ ہوا کی وجہ سے زرعی بھارتی اسموگ

 پاکستان میں فضائی آلودگی کا بحران میں بھارت سے آنے والی آلودگی غیر معمولی اضافے کا باعث بنتی ہے۔ خاص طور پر سردیوں کے مہینوں میں اس میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بھارت میں کروڑوں گاڑیوں سے دھویں کے اخراج، صنعتی آلودگی اور موسمی زرعی باقیات کو جلانے سے پیدا ہونے والی اسموگ پاکستان پہنچتی ہے اور مقامی فضائی آلودگی کو خطرناک حد تک بڑھا دیتی ہے۔ یہ مشترکہ جغرافیائی اور سماجی و اقتصادی عوامل کی عکاسی ہے جو جنوبی ایشیائی خطے میں فضائی آلودگی کو بڑھاتے ہیں۔ حکومت پاکستان بارہا اس بات کا کھلے لفظوں میں اظہار کر چکی ہے کہ پاکستانی علاقوں میں بیشترحالیہ اسموگ بھارت سے آتی ہے۔

عوامی صحت پہ اثرات

پاکستان کی فضائی آلودگی کے بارے میں ایک حیران کن حقیقت عوامی صحت پر اس کے اثرات ہیں۔ اسٹیٹ آف گلوبل ایئر کی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی پاکستان میں اموات کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہے۔اس کی وجہ سے سالانہ کئی ہزار قبل از وقت اموات ہونے لگی ہیں۔ یہ اعدادوشمار صرف ایک عدد نہیں بلکہ ماحولیاتی نظر اندازی کی انسانی قیمت کا سنگین اشارہ ہے۔

 معاشی مضمرات

مزید یہ کہ معاشی مضمرات بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ فضائی آلودگی سمیت ماحولیاتی تنزلی پاکستان کو اس کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فیصد سالانہ خرچ کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ معاشی بوجھ فوری کارروائی اور پالیسی مداخلت کے لیے ایک جگا دینے والی کال ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی کا بحران پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ اور یاد رکھیں ، یہ صرف ایک مقامی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی چیلنج ہے جو اجتماعی کارروائی اور مشترکہ ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔

تاہم پاکستان میں فضائی آلودگی ایسا بحران بن چکا جو لاکھوں لوگوں اور ماحولیات کو گہرائی میں متاثر کررہا ہے۔ اس کے شہر اکثر سموگ کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ قوم کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے جس پر فوری توجہ اور کارروائی کی ضرورت ہے۔ آج عوام کے لیے درپیش فضائی آلودگی کے مسئلے کی سنگینی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ مسئلہ اتنا زیادہ سنگین ہے کہ اس نے غلط وجوہ کی بنا پر پاکستانی شہروں کو عالمی نقشے پر نمایاں کر دیا۔ اب وہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔

پاکستان کی جغرافیائی اور ٹوپوگرافیکل خصوصیات فضائی آلودگی کا مسئلہ بڑھاتی ہیں۔ ملک کے بڑے شہر ان علاقوں میں واقع ہیں جہاں جغرافیہ فضائی آلودگیاں دبوچ لینے کا رجحان رکھتا ہے۔اس وجہ سے ہوا میں نقصان دہ ذرات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ مزید برآں پاکستان میں شہروں کے پھیلاؤ اور آبادی میں اضافے نے توانائی کی کھپت اور گاڑیوں سے دھوئیں کے اخراج میں اضافہ کیا ہے جس سے ہوا کا معیار گر رہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف شہری علاقوں تک محدود نہیں ، پاکستان کے دیہی علاقوں کو بھی آلودہ ہوا کے چیلنجوں کا سامنا ہے، خاص طور پر فصلوں کی باقیات جلانے اور کھانا پکانے و گرم کرنے کے لیے کم معیاری ایندھن کے استعمال کی وجہ سے۔

پاکستان میں فضائی آلودگی کی سطح میں موسمی تغیر بھی تشویش کا ایک اور نکتہ ہے۔ سردیوں کے دوران ہوا کا معیار نمایاں طور پر بگڑ جاتا ہے جسے مقامی طور پر ’سموگ سیزن‘ کہا جاتا ہے۔ آلودگی کی سطح میں یہ موسمی اضافہ نہ صرف روزمرہ زندگی متاثر کرتا ہے بلکہ آبادی کے لیے صحت کے خطرات پیدا کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی ایک ناقابل تردید مسئلہ ہے جس کے دور رس اثرات جنم لے رہے ہیں۔ متوقع زندگی، معیشت اور زندگی کے مجموعی معیار پر پڑنے والے اس کے منفی اثرات فوری کارروائی چاتے ہیں۔

دور جدید کی سموگ

 آج لیکن ہم جو زیادہ تر سموگ دیکھتے ہیں، وہ فوٹو کیمیکل سموگ (photochemical smog) کہلاتی ہے۔ فوٹو کیمیکل سموگ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب سورج کی روشنی نائٹروجن آکسائیڈ (nitrogen oxides) اور فضا میں کم از کم ایک غیر مستحکم نامیاتی مرکب ( volatile organic compound) کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتی ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ گیس کار کے ایندھن کے اخراج، کوئلے کے پاور پلانٹس اور فیکٹری کے اخراج سے جنم لیتی ہے۔ غیر مستحکم نامیاتی مرکب پٹرول، پینٹ اور بہت سے صفائی سولوینٹس (cleaning solvents) سے جاری ہوتے ہیں۔ جب سورج کی روشنی ان کیمیکلز(یعنی نائٹروجن آکسائیڈ اور غیر مستحکم نامیاتی مرکب ) سے ٹکراتی ہے، تو وہ ہوا میں حرکت پذیر ذرات(غیر مستحکم نامیاتی مرکب) اور زمینی سطح پر اوزون کو جنم دیتی ہے جسے عرف عام میں سموگ کہتے ہیں۔

اوزون کیا ہے؟

اوزون ایک گیس ہے جو انسان کے لیے مددگار یا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ فضا میں اوزون کی تہہ ہمیں سورج کی خطرناک بالائے بنفشی شعاعوں سے بچاتی ہے۔ لیکن جب اوزون زمین کے قریب ہو تو یہ انسانی صحت کے لیے مضر بن جاتی ہے۔ اوزون ہمارے پھیپھڑوں کے بافتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے، اور یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے خطرناک ہے جو دمے جیسی سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوں۔ زمین کے قریب آ کر اوزون آنکھوں میں خارش اور جلن کا سبب بھی بنتی ہے۔

سموگ انسانوں اور جانوروں کے لیے مضر صحت ہے اور یہ پودوں کو تو ہلاک کر سکتی ہے۔ یہ ایک بدصورت شے بھی ہے۔ یہ دھوپ روک کر آسمان کو بھورا یا سرمئی بنا دیتی ہے۔ صنعتوں اور ٹریفک کی بہتات والے بڑے شہروں میں سموگ عام ہے۔ پہاڑوں سے گھرے طاسوں میں واقع شہروں میں بھی سموگ کا مسئلہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ وادی میں پھنس جاتی ہے اور اُسے ہوا کے ذریعے دور نہیں کیا جا سکتا۔

جزوی طور پر اس قسم کے جغرافیائی حالات کی وجہ سے امریکی شہر لاس اینجلس اور میکسیکو کے دارالحکومت ، میکسیکو سٹی دونوں میں سموگ کی سطح زیادہ ہے ۔ جبکہ خاص طور پہ بھارت کے شہروں میں بھارتی کھیتوں میں فصلوں کا فضلہ جلانے کا عمل اور گاڑیوں اور فیکٹریوں سے دھوئیں کا اخراج مل کر سموگ پیدا کرتے ہیں۔

درجہ بندی

سموگ کی اکثر ’’ گرمیوں کی سموگ‘‘ اور’’ سردیوں کی سموگ‘‘ کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔ موسم گرما کی سموگ بنیادی طور پر اوزون کی فوٹو کیمیکل تشکیل سے وابستہ ہے۔ گرمیوں کے موسم میں جب درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور سورج کی روشنی زیادہ ہوتی ہے، تب فوٹو کیمیکل سموگ بھی زیادہ مقدار میں جنم لیتی ہے۔ سردیوں کے مہینوں کے دوران جب درجہ حرارت سرد ہوتا ہے، اور فضا میں گیسوں اور کیمیائی ذرات کی الٹ پھیر (atmospheric inversions )عام ہوتی ہے، گھر اور عمارتیں گرم کرنے کے لیے کوئلے اور دیگر فوسل یا رکازی ایندھن کے استعمال میں اضافہ ہوجا تا ہے۔

اس کے علاوہ گاڑیوں کا دھواں اور فصلیں جلانے سے خارج ہوتے دھوئیں ماحول میں موجود دیگر گیسوں اور کیمیکلز کے ساتھ مل کر موسم سرما میں سموگ کی تشکیل کرتے ہیں۔ سموگ کی تشکیل عام طور پر بنیادی اور ثانوی، دونوں اقسام کی آلودگیوں پر انحصار کرتی ہے۔ بنیادی آلودگی ( Primary pollutants) براہ راست کسی ذریعے سے خارج ہوتی ہے، جیسے کوئلہ جلنے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ ثانوی آلودگی (Secondary pollutants) جیسے اوزون اس وقت بنتی ہے جب بنیادی آلودگی فضا میں کیمیائی رد عمل سے گزرے۔بھارت اور پاکستان کے علاقوں میں اسی عمل سے اسموگ پیدا ہوتی ہے۔

فوٹو کیمیکل سموگ

لاہور، ملتان ، دہلی اور پاکستان و بھارت کے دیگر وسیع علاقے میں پھیلی سموگ کا اصطلاحی نام فوٹو کیمیکل سموگ (Photochemical smog)ہے۔اور جیسے کہ بتایا گیا، یہ فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے جو گاڑیوں کے انجنوں سے نکلتے اور صنعتی و زرعی فضلہ جلانے سے پیدا کردہ دھوئیں سے جنم لیتی ہے۔ یہ آلودہ عناصر پہلے سورج کی روشنی کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ماحول میں ثانوی آلودگی بناتے ہیں۔ وہ پھر بنیادی آلودگی کے ساتھ مل کر فوٹو کیمیکل سموگ بنا ڈالتی ہے۔

 1980 ء کی دہائی سے بھارت کے خصوصاً زرعی علاقوں میں فصلوں کی باقیات جلانے سے سموگ کی شدت موسم سرما میں بڑھنے لگی۔ جیسے جیسے کھیتوں ، گاڑیوں اور انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، فوٹو کیمیکل سموگ کو جنم دینے والے عناصر بھی زیادہ مقدار میں جنم لینے لگے۔ یہی وجہ ہے، اب سموگ ایک نمایاں ماحولیاتی آفت بن چکی جو ماحول اور انسانی صحت ، دونوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ انسان اگر مسلسل سموگ میں رہے تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

سموگ سے کیسے جان چھڑائیں؟

امریکا سمیت کئی ممالک نے سموگ ختم یا کم کرنے کے لیے قوانین بنائے ہیں۔ کچھ قوانین میں یہ پابندیاں شامل ہیں کہ فیکٹری کون سے کیمیکل فضا میں چھوڑ سکتی ہے یا فیکٹری انہیں کب چھوڑ سکتی ہے۔ کچھ کمیونٹیز میں "جلانے کے دن" رکھے گئے ہیں…صرف انہی دنوں میں رہائشی اور کسان اپنے صحن و کھیتوں میں پتے یا فصل کا فضلہ وغیرہ جلا سکتے ہیں۔ فضا میں چھوڑے جانے والے کیمیکلز پر یہ پابندیاں سموگ کی مقدار کم کر دیتی ہیں۔

لندن کی جان لیوا سموگ

برطانیہ کے دارالحکومت، لندن کی فضا میں بھی ایک سو سال قبل تک سموگ کا راج تھا۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا جب لوگ کوئلہ جلا کر گھر گرم کرتے اور شہر میں موجود کارخانوں میں سے مختلف کیمیکل فضا میں چھوڑے جاتے 1952ء میں ’’دی گریٹ سموگ آف لندن‘‘ نے جنم لیا۔ تب چار روز تک حدِ نگاہ اتنی کم ہو گئی تھی کہ صرف چند فٹ تک ہی واضح دکھائی دیتا۔ اس دورا 10 ہزار افراد ہلاک بھی ہوگئے۔ کہا جاتا ہے ،سموگ نے زندگی کو ایسے مفلوج کر دیا کہ وہ گھروں اور تہہ خانوں میں بھی داخل ہو گئی۔

اس کے بعد حکومت اور عوام ، دونوں ہوش میں آئے اور انھوں نے ایسے اقدامات اٹھائے جن سے سموگ، دھوئیں اور فضائی آلودگی کے زہریلے بادل نہ صرف چھٹ گئے بلکہ شہر کی خوبصورتی اور رونقیں بھی بحال ہوگئیں ۔ مثال کے طور پر 1956 می پارلیمان نے ’کلین ایئر ایکٹ‘ پاس کیا ۔اس کے ذریعے صنعتوں اور گھروں سے نکلنے والے دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں ’سموک کنٹرل ایریاز‘ بنائے گئے جہاں صرف ایسے ایندھن جلائے جاتے جن کا دھواں قدرے کم ہوتا ہے۔نیز گھروں کے مالکان کو سبسڈی دی گئی تاکہ وہ ماحول دوست ایندھن استعمال کرنے لگیں۔

 1968 ء میں اس ایکٹ میں توسیع کی گئی اور لندن کے فضائی معیار میں بہتری آنے لگی۔مزید براں لندن میں’الٹرا لو ایمشن زون‘ متعارف کروائے گئے جن میں زیادہ دھواں پھیلانے والی وہیکلز پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ لندن سٹی ہال کی جانب سے اس پالیسی کے نفاذ کے چھ ماہ بعد کہا گیا کہ فضائی آلودگی میں ایک تہائی کی کمی واقع ہوئی ہے۔

بیجنگ کی سبق آموز مثال

چین میں بھی صنعتی ترقی کے باعث فضائی آلودگی بڑھ گئی۔خاص طور پہ دارالحکومت بیجنگ کی فضا میں زہریلے کیمیکلوں کی سطح بڑھنے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہونے لگا۔ آخرکار 2014 ء میں شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنسز نے اعلان کر دیا کہ شہر انسانوں کے لیے رہنے کے قابل نہیں رہا کیونکہ یہاں آلودگی بہت زیادہ ہے۔ اس کے بعد چینی حکومت بھی بیدار ہوئی اور شہر کی فضا صاف کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے لگی۔ سب سے پہلے حکومت نے صنعتوں سے دھوئیں اور کیمیائی مادوں کا اخراج بہت کم کرنے کے لیے معیار وضع کیے، جدید ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم بنایا اور پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر بھی تشکیل دیا بنایا۔ گاڑیوں میں استعمال شدہ ایندھن کی کوالٹی بھی بہتر بنائی گئی۔

ان اقدمات سے بیجنگ میں سموگ خاصی حد تک کم ہو گئی گو مسئلہ مکمل طور پہ حل نہیں ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گاڑیوں سے خارج شدہ دھوئیں کم کرنے، نجی بزنس کو حکومتی مراعات دینے، ڈیٹا کے درست استعمال اور صنعت کو ہیوی انڈسٹری کے علاوہ دیگر شعبوں میں پھیلانے سے فضائی آلودگی میں کمی آسکتی ہے۔

حکومت چین نے بعد ازاں ایک بڑے قومی ایکشن پلان کے تحت کوئلے سے چلنے والے نئے منصوبوں پر پابندی لگا دی ۔ رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلتے ہیٹنگ سسٹم کو بند کر دیا ۔ ڈیزل کے ٹرکوں میں ایندھن اور انجن کا معیار بڑھایا جبکہ آلودگی پھیلاتی پرانی کاروں کا استعمال بند کر دیا۔ لوگوں کو الیکٹرک کار اپنانے اور مختصر سفر کے لیے اپنی سائیکل چلانے کی ترغیب دی گئی۔ اس سارے منصوبے پر اربوں روپے خرچ ہوئے۔

حرف آخر

یہ بات اگر درست ہے کہ بیشتر سموگ پڑوسی ملک میں جنم لے رہی ہے تو یہ امر عالمی سطح پر اجاگر کرنا ضروری ہے۔ عالمی برادری کے دباؤ سے بھارتی حکومت مجبور ہو جائے گی کہ وہ سموگ پیدا کرنے والے عوامل پر قابو پائے اور پڑوسیوں کو متاثر نہ کرے۔ اس کے باوجود ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو بھی اس فضائی آفت سے نمٹنے کے لیے اپنے طور پر ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ ظاہر ہے، کروڑوں عوام کی قیمتی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ نیز سموگ کاروبار ِ حیات کو بھی متاثر کرتی ہے۔ حکومت پاکستان اس خطرے سے بچاؤ کی خاطر دوست ممالک مثلاً چین سے بھی مدد لے سکتی ہے۔

سموگ کم کیجیے

سموگ بھارت اور پاکستان سمیت کئی ممالک اور شہروں میں ایک بڑا مسئلہ بن چکا۔ حکومت پاکستان کا دعوی ہے کہ پاکستانی علاقوں میں سموگ بھارت کی جانب سے آ ئی ہے۔ بہرحال حکومت سے لے کر انفرادی انسان تک ہر کوئی چند طرز عمل اپنا کر علاقے میں سموگ کم کرنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرسکتا ہے، جیسے:

٭… گاڑی کم ڈرائیو کریں۔ چہل قدمی کریں، موٹر سائیکل چلائیں، ایک کار میں مل کر سفر کریں اور جب بھی ممکن ہو پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔

٭… گاڑیوں کا خیال رکھیں۔ باقاعدگی سے ٹیون اپ حاصل کرنا، شیڈول کے مطابق تیل تبدیل کرنا اور ٹائروں کو مناسب سطح پر رکھنا پٹرول کی مائلیج بہتر بنا سکتا ہے اور اس طرح ایندھن کا اخراج کم کر تا ہے۔

٭… دن کے ٹھنڈے گھنٹوں میں یعنی رات کو یا صبح سویرے اپنی گاڑی میں ایندھن بھریں ۔ یہ عمل گیس کے دھوئیں کو گرم ہونے اور اوزون پیدا کرنے سے روکتا ہے۔

٭… ایسی مصنوعات سے پرہیز کریں جو غیر مستحکم نامیاتی مرکبات بڑی مقدار میں خارج کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر غیر مستحکم نامیاتی مرکب پینٹ کم استعمال کریں۔

٭… رکازی ایندھن سے چلنے والے صحن کا سامان استعمال کرنے سے پرہیز کریں، جیسے لان کاٹنے والے مشین۔ اس کے بجائے بجلی کے آلات استعمال کریں۔n

پاکستان میں اسموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت اور ماحولیاتی ادارے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک ان اقدامات سے مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ اسموگ کے مسئلے کا حل صرف حکومتی کوششوں میں نہیں بلکہ عوامی شعور کی بیداری اور انفرادی سطح پر بھی اقدامات ضروری ہیں۔

پاکستان میں اسموگ کے خاتمے کیلئے قلیل مدتی اورطویل مدتی اقدامات
-1 صنعتی آلودگی پر قابو

پاکستان میں صنعتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے حکومت نے مختلف قوانین متعارف کرائے ہیں جن کے تحت صنعتی فضلے کو بہتر طریقے سے تلف کیا جا سکے اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں کو فلٹر کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ ماحول دوست ٹیکنالوجی کا استعمال بھی فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ فضائی آلودگی میں کمی لائی جا سکے۔

 -2 الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ

پاکستان میں گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کو کم کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ الیکٹرک گاڑیاں نہ صرف ماحول دوست ہوتی ہیں بلکہ یہ روایتی پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں فضائی آلودگی کو بہت حد تک کم کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان نے الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیکسوں میں کمی اور دیگر مراعات کا اعلان کیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ الیکٹرک گاڑیاں استعمال کریں۔

-3  فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی

پاکستان میں ہر سال فصلوں کی کٹائی کے بعد بھوسے اور دیگر باقیات کو جلانا ایک عام عمل ہے، جو ۱سموگ کی شدت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کاشتکاروں کے لیے ایسی پالیسیز متعارف کرانی ہوں گی جو بھوسے کو جلانے کے بجائے اس کو ری سائیکل کرنے یا زمین میں شامل کرنے کی ترغیب دیں۔ اس کے لیے زرعی مشینری فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی کی بھی ضرورت ہے تاکہ کاشتکار اس عمل کے مضر اثرات سے واقف ہوں۔

-4 شجرکاری مہمات

درخت زمین کی ''فطری فلٹر'' ہوتے ہیں جو ہوا میں موجود آلودگی کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں ۱سموگ کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری کی مہمات کا آغاز کیا جانا ضروری ہے۔ حکومت نے ''بلین ٹری سونامی'' اور دیگر شجرکاری پروگراموں کا آغاز کیا ہے، لیکن ان کو مزید وسعت دینا اور موثر بنانا ضروری ہے تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔

-5  کوئلے سے پیدا ہونے والی توانائی کا متبادل

پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے لیے کوئلے کا استعمال بھی فضائی آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے نکلنے والا دھواں ۱سموگ کے ذرات کو فضا میں شامل کرتا ہے۔ حکومت کو کوئلے کے پاور پلانٹس کے بجائے صاف توانائی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی، ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی اور ہائیڈرو پاور پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ ۱سموگ اور فضائی آلودگی کو کم کیا جا تا۔

-6  عوامی آگاہی کی مہمات

اسموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے عوام کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی آگاہی کی مہمات کے ذریعے شہریوں کو بتایا جانا چاہیے کہ فضائی آلودگی کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور روزمرہ کی زندگی میں وہ کن اقدامات کے ذریعے ۱سموگ کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے خصوصی تربیت اور آگاہی سیشنز منعقد کیے جا سکتے ہیں تاکہ نئی نسل کو ماحولیاتی مسائل کا احساس ہو اور وہ مستقبل میں اس حوالے سے بہتر اقدامات اٹھا سکیں۔

 بین الاقوامی تجربات سے سبق حاصل کرنا

پاکستان میں اسموگ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی ماڈلز کا مطالعہ اور ان سے سبق حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے اسموگ اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی ہے جن سے پاکستان بھی سیکھ سکتا ہے۔

-1  چین کا ماڈل

چین نے اپنے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین اور پالیسیز متعارف کرائی ہیں۔ چین نے فیکٹریوں سے دھویں کے اخراج پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں، کوئلے کے استعمال کو محدود کیا ہے اور بڑے پیمانے پر شجرکاری مہمات کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان بھی اسی طرز پر فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے موثر اقدامات اٹھا سکتا ہے۔

-2  بھارت کی حکمت عملی

بھارت بھی اسموگ سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے، خاص طور پر نئی دہلی جیسے شہروں میں فضائی آلودگی کی صورتحال سنگین رہی ہے۔ بھارت نے فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کی ہے اور فضائی آلودگی کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی فصلوں کی باقیات کو جلانے کی پالیسیوں کو بہتر بنا سکتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فضائی آلودگی کی مسلسل نگرانی کر سکتا ہے۔

-3یورپی ممالک کا طریقہ کار

یورپ کے کئی ممالک نے صاف توانائی کے استعمال کو فروغ دیا ہے اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے متبادل ذرائع جیسے الیکٹرک گاڑیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک سے سیکھ کر اپنی ٹرانسپورٹ اور انرجی پالیسیز میں بہتری لا سکتا ہے۔

 پاکستان میں اسموگ کے تدارک کیلئے طویل المدتی اقدامات

۱سموگ ایک طویل المدتی مسئلہ ہے جس کا حل صرف عارضی اقدامات میں نہیں بلکہ مستقل اور جامع پالیسیز میں مضمر ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی اور ۱سموگ کے تدارک کے لیے طویل المدتی اقدامات درج ذیل ہیں:

-1  فضائی آلودگی کے قوانین کی مؤثر عملداری

پاکستان میں فضائی آلودگی کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد میں کمزوری ہے۔ حکومت کو فضائی آلودگی کے قوانین پر سختی سے عمل کروانا ہو گا اور فیکٹریوں، پاور پلانٹس اور دیگر صنعتی سرگرمیوں کی مسلسل نگرانی کرنی ہو گی تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔

-2 تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کا فروغ

۱سموگ کے مسئلے کا مستقل حل تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان کو ماحولیاتی تحقیق کے لیے فنڈز مختص کرنے چاہئیں تاکہ ۱سموگ کے اسباب کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے اور ان کے حل کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جا سکے۔ صنعتی شعبے میں ایسے فلٹرز اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہیے جو کہ فیکٹریوں کے اخراج کو کم کر سکے۔

-3 صاف توانائی کے ذرائع

پاکستان میں توانائی کی پیداوار کے لیے صاف اور ماحول دوست ذرائع کو فروغ دینا ہو گا تاکہ کوئلے اور فوسل فیولز کے استعمال کو کم کیا جا سکے۔ شمسی توانائی، ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی اور ہائیڈرو پاور جیسے صاف ذرائع کے استعمال سے نہ صرف فضائی آلودگی کم ہو گی بلکہ توانائی کے بحران کا بھی بہتر حل ممکن ہو سکے گا۔

-4 پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری

پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنا کر بھی فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو بسوں، ٹرینوں اور میٹرو سسٹمز کو فروغ دینا ہو گا تاکہ لوگ ذاتی گاڑیوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف ٹریفک کا دباؤ کم ہو گا بلکہ گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی بھی کم ہو گی۔

پاکستان میں اسموگ ایک سنگین ماحولیاتی بحران بن چکا ہے جو کہ ہر سال شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے اسباب میں صنعتی آلودگی، گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، فصلوں کی باقیات کو جلانا، کوئلے کا استعمال اور موسمیاتی حالات شامل ہیں۔ اسموگ کے صحت، ماحول اور معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن سے بچنے کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔

اسموگ کے مسئلے کا حل عارضی اقدامات سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے جامع اور طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو صنعتی آلودگی پر قابو، الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ، شجرکاری مہمات اور عوامی آگاہی کی مہمات کو موثر بنانا ہو گا تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ صاف توانائی کے ذرائع کا استعمال اور بین الاقوامی تجربات سے سیکھنا بھی پاکستان میں اسموگ کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔