اسلامی عرب سربراہی کانفرنس کا اعلامیہ
سعودی عرب کے شہر ریاض میں فلسطین اور غزہ کی صورتحال پر اسلامی عرب سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اعلامیے میں دنیا کے تمام ملکوں سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سربراہی اجلاس میں جنگ بندی تک پہنچنے اور اس کے لیے مربوط اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ سربراہی اجلاس میں عالمی برادری پر واضح کیا گیا کہ اسرائیلی اقدام کے نتائج انتہائی خطرناک اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے اور نہ صرف مسلم امہ بلکہ عالمی برادری بھی فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اب دوبارہ عرب اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کا مرکزی مسئلہ بن چکا ہے۔ غزہ کے فلسطینیوں نے تینتالیس ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دے کر دنیا کی تاریخ میں ایک نئے سنہری باب کا اضافہ کیا ہے۔
اسرائیلی ریاست کو سابقہ نوآبادیاتی طاقتوں کی توسیع کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جو مشرق وسطیٰ سے دستبردار ہوگئی تھیں لیکن اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسرائیل کو ایک ایجنٹ کے طور پر چھوڑ دیا گیا تھا ۔ ماضی میں اسرائیل کے خلاف مصر، شام اور اردن جیسے ممالک نے جو جنگیں لڑی ہیں ، وہ جنگیں اب ماضی کی بات ہیں۔ کئی مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کررکھے ہیں۔
موجودہ صورتحال نے اسرائیل کے خلاف پانسہ پلٹ دیا ہے۔ اسرائیل کی فوجی برتری کا دعویٰ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ سفارتی طور پر بھی اسرائیل کو ہر جگہ منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ اسرائیل صرف فلسطینی سرزمین پر ہی قابض نہیں بلکہ اس کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی ہلا شیری کی وجہ سے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی مسلسل بمباری اور حملوں سے جو تباہی ہو چکی ہے اور مزید ہو رہی ہے، اس کے خلاف اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی کھل کر بولے۔ یورپی یونین، جس کے کچھ رکن ممالک اسرائیل کو اسلحہ، ہتھیار اورگولا بارود سپلائی کر کے اس تباہی میں بالواسطہ ملوث رہے ہیں، کے فارن افیئر چیف نے بھی اس تباہی کو ناقابلِ برداشت قرار دیا ہے۔ یورپی ممالک بھی اب فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے یورپی ممالک کی طرف سے اسرائیل کو ہتھیار سپلائی کرنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جنوبی افریقہ نے ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی (Genocide) کا ارتکاب کررہا ہے۔ بین الاقوامی عدالت کا آخری فیصلہ ابھی نہیں آیا، لیکن اس نے اسرائیل کی سرزنش کی ہے اور اس کو نسل کشی روکنے کے لیے کہا ہے، لیکن اس کا اسرائیل پرکوئی اثر نہیں ہو رہا ہے، کیونکہ اس کو امریکا اور مغربی ممالک خصوصاً جرمنی اور برطانیہ کی پوری تائید حاصل ہے۔
اسی جنگ کے دوران اسرائیل کو بچانے کے لیے امریکا چار بار اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد کے خلاف ویٹو کرچکا ہے، نیز جنگ کے دوران اسرائیل کی بھرپور جنگی اور مالی مدد کر رہا ہے۔ جنگ کے شروع ہوتے ہی امریکا نے اپنے دو بحری بیڑے علاقے میں بھیج دیے تھے تاکہ کوئی ملک اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہوسکے۔ جنگ کے دوران امریکا نے ہوائی اور بحری جہازوں کے ذریعے مسلسل اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا۔
نسل کشی کے مقدمے کے علاوہ، دنیا کے 52 ممالک نے بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف ایک اور مقدمہ دائرکیا ہے کہ غزہ، مغربی پٹی اور بیت المقدس پر جاری اسرائیلی قبضہ ہٹایا جائے۔ افسوس ہے کہ مقدمہ زیادہ تر غیر عرب اور غیر مسلم ملکوں ہی نے دائرکیا ہے۔
یہ توفیق کسی مسلم ملک کو حاصل نہیں ہوسکی۔ غزہ کی جارحیت کی وجہ سے متعدد غیر مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں، لیکن کسی عرب یا مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ کچھ درپردہ اسرائیل کی مدد کررہے ہیں جب کہ عرب دنیا میں عوامی رائے اسرائیل کے سخت خلاف ہے۔ دوسری طرف غزہ کی جنگ لبنان اور یمن تک پھیل چکی ہے اور ایران بھی اس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔
عالمی رائے عامہ کا فلسطینیوں کے حق میں جھکاؤ ہے جس کا واضح ثبوت امریکا اور مغربی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہیں۔ اس مسئلے کے حوالے سے پہلی مرتبہ ریاستی مفادات اور عوامی جذبات میں واضح فرق نظر آرہا ہے۔انسانی حقوق، حریت، فکری آزادی اور قوموں کا حق خود ارادیت کے موجودہ دور میں دنیا میں فلسطینی اور کشمیری ایسی بد قسمت قومیں ہیں جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ خصوصاً فلسطینی خطہ نما عرب میں عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے سات دہائیوں سے بھی زائد عرصے سے اپنی ہی سرزمین میں اجنبی بنا دیے گئے ہیں۔ ان سے ان کی ریاست ہی نہیں بلکہ باعزت اور پروقار زندگی کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔
فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کے طویل ترین امن مشن میں شامل ہے۔ 24اکتوبر 1945کو جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اس وقت سے آج تک مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود حل نہ ہو سکے اور دونوں خطوں میں اتنے برسوں سے امن کا قیام بھی عمل میں نہ لایا جا سکا۔ دونوں خطوں میں نہ صرف انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے بلکہ ان خطوں میں نام نہاد عالمی طاقتوں اور لیڈروں کی مسائل کے حل میں کسی قسم کی دلچسپی نظر نہیں آئی۔ اقوام متحدہ جو عالمی سطح پر قیام امن کے حوالے سے ایک ذمے دار ادارہ تصور کیا جاتا ہے، بھی دونوں خطوں میں امن قائم کرنے میں ناکام رہا۔
1947کی فلسطین جنگ اور1967 کی 6روزہ جنگ سے لے کر 1993 کے اوسلو معاہدے تک ذرا ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی مظالم کم ہو ئے نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاسکی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ مزید ممالک جن میں کچھ اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، نے ناجائز ریاست کو جائز تسلیم کر لیا بلکہ اب تو امریکا سمیت کئی ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کر چکے ہیں۔
مسئلہ فلسطین پر پاکستان کی سات دہائیوں سے حمایت غیر متزلزل چلی آ رہی ہے بلکہ مختلف مواقع مثلاً عرب اسرائیل کی چوتھی جنگ (1973-74) اور اس کے نتیجے میں عربوں کی طرف سے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے موقع پر پاکستان نے عربوں کے ساتھ جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا، وہ پاکستان اور عربوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم باب ہے۔ خاص طور پر فروری 1974میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کا منصوبہ یہ تھا کہ شدید بمباری اور کھانے پینے کی اشیاء کو بالکل روکنے سے غزہ کے لوگ مصر کے صحرائے سیناء کی طرف بھاگ جائیں گے اور یوں غزہ کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا، لیکن غزہ کے لوگوں نے جان کی قربانی دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ غزہ میں مکمل اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں اور دواؤں کی شدید قلت ہے، جس کی وجہ سے وہاں درجنوں لوگ خاص طور سے بچے بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
تمام اسپتال تقریباً تباہ اور اکثر بند ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے تقریباً تیرہ لاکھ لوگوں کو اپنے اپنے علاقوں سے نکل کر صحرائے سیناء سے ملے ہوئے غزہ کے جنوب مغربی شہر رفح میں پناہ لینے پر مجبورکر دیا ہے، لیکن وہ وہاں بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ اسرائیل اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں یہاں تک کہ ایمبولینس کے قافلوں کو بھی نشانہ بنارہا ہے۔ صہیونی دعویٰ تو حماس کو ختم کرنے کا کر رہے ہیں لیکن غزہ کو فلسطینی شہریوں سے خالی کرایا جا رہا ہے۔
غزہ دو ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ہے اور شمالی غزہ سے گیارہ لاکھ فلسطینیوں کو جنوبی غزہ میں دھکیلنے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے۔ ایک اسرائیلی وزیر نے فوج کو مشورہ دیا ہے کہ وہ غزہ کو نیوکلئیر بم سے اڑا دے تاکہ قصہ ہی ختم ہوجائے۔
اسرائیل کو خطے کا پولیس مین بنانا اور پھر اس کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کا حصول عالمی قوتوں کا پسندیدہ فارمولہ بن چکا ہے۔ اسی لیے ہزاروں جانیں گنوانے اور باعزت و پر سکون زندگی کے لیے ترستے فلسطینی دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے عالم اسلام کو واضح مؤقف اپنانے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جارحیت کو دنیا کے کونے کونے تک اس انداز سے پیش کرنا ہوگا کہ اسرائیل آیندہ ایسا قدم اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔