فائنل کال کیا ہوگی؟
تحریک انصاف دوبارہ ایک فائنل کال کی بات کر رہی ہے۔ ویسے تو اس فائنل کال اور فائنل لائحہ عمل کا صوابی کے جلسے میں اعلان ہونا تھا، ہمیں تو یہی بتایا گیا تھا کہ صوابی کے جلسہ میں فائنل لائحہ عمل کا اعلان کر دیا جائے گا۔
ساری تحریک انصاف کو یہی بتایا گیا تھا کہ فائنل لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ پھر بانی تحریک انصاف کے ٹوئٹر ہینڈل سے بھی یہی اعلان کیا گیا کہ صوابی میں فائنل لائحہ عملہ کا اعلان کیا جائے گا۔ تا ہم سب نے دیکھا کہ صوابی میں کسی بھی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا گیا۔ بس اتنا کہا گیا کہ بانی تحریک انصاف جب کہیں گے فائنل کال کا اعلان کر دیا جائے گا۔
اس کے بعد وزیر اعلیٰ گنڈا پور کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا کہ انھوں نے کمزوری دکھائی ہے اور فائنل کال نہیں دی ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اپنی ہی پارٹی کے رہنما اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور پر تنقید کر رہا ہے۔ انھیں اسٹبلشمنٹ کا ایجنٹ کہا جا رہا ہے۔ جس پر گنڈا پور نے جواب دیا ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر تنقید کر رہے ہیں، پہلے وہ میدان میں آکر خود احتجاج کریں۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ان سب پر جوابی تنقید کی ہے جو ان پر سوشل میڈیا پر تنقید کر رہے ہیں۔
گنڈا پور کا موقف ہے کہ سوشل میڈیا پر مہم چلانے اورگھروں سے باہر نکل کر سڑکوں پر احتجاج کرنے میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کے وہ لیڈر اور سوشل میڈیا یوتھیئے جو سڑکوں پر احتجاجی جلسے و جلوس نکالنے کے حامی ہیں، وہ سب سے پہلے خود سڑکوں پر آئیں اور احتجاج میںشامل ہوں۔ گرفتاریوں کا خوف دل سے نکال کر پولیس کا سامنا کریں ۔ سوشل میڈیا، مین اسٹریم میڈیا پر بیان داغنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف کے اندر یہ لڑائی نئی نہیں ہے۔ا س سے پہلے پارٹی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے بھی کہا تھا کہ ہم سوشل میڈیا ٹرولرز کے ہاتھ میں اپنی پارٹی پالیسی نہیں دے سکتے۔ مجھے ایسا لگ رہا کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ٹرولرز اب تحریک انصاف کے لیے درد سر بن گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت اب خود ہی ان سے تنگ آگئی ہے۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی سوشل میڈیا ٹرولرز کے ہاتھوں یر غمال ہو گئی ہے۔ ان کو زمینی حقائق کا علم نہیںہے، وہ اپنی الگ ہی پالیسی چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بہر حال اب یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کہ آخری فائنل کال کیا ہو سکتی ہے؟ ایک رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف ڈی چوک پر دھرنا دینے کا اعلان کر سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ڈی چوک اسلام آباد پر دھرنے دینے کی کال سے کیا تحریک انصاف کو اپنے اہداف حاصل ہو جائیں گے۔ پہلے تو یہ طے کر لیتے ہیں کہ اہداف کیا ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا ہدف بانی تحریک انصاف کی رہائی ہے۔
دوسر بڑا ہدف حکومت کا خاتمہ ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ڈی چوک میں دھرنے سے دونوں اہداف یا ان میں سے کوئی ایک بھی ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔اور اس کے لیے کیا حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ لیکن صوابی جلسہ کے بعد بھی بانی تحریک انصاف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ اب فائنل کال وہی دیں گے۔ اور لوگ تیاری سے اس کال میں آئیں، واپس نہیں جانا ہے، جب تک مقصد کی تکمیل نہیں ہوتی۔ انھوں نے توآئین کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی جیسے مقاصد بیان کیے ہیں۔ لیکن اصل ہدف حکومت کا خاتمہ ہی ہے۔
تحریک انصاف کو دھرنے کا تجربہ ہے۔ انھوں نے 2014میں ایک دھرنا دیا تھا۔ اس دھرنے میں انھیں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ وسائل کی بھر مار تھی۔ اسٹبلشمنٹ کی مکمل سہولت کاری کی وجہ سے اس دھرنے کو ایک مقدس حیثیت بھی حاصل تھی۔ اس وقت کی حکومت اس دھرنے پر کریک ڈاؤن کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ میڈیا دھرنے میں پڑی خالی کرسیاں دکھانے سے خوف زدہ تھا یا پیسہ اتنا خرچ کیا جارہا تھا کہ کوئی دکھا ہی نہیں رہا تھا۔ خالی کنٹینر اتنا طاقتور تھا کہ حکومت اس کو اٹھا کر تھانے نہیں لیجا سکتی تھی۔
وہ خالی کنٹینر بھی حکومت سے زیادہ طاقتور تھا۔ پولیس اس دھرنے سے ڈرتی تھے۔ بانی پی ٹی آئی کی اے ٹی ایم مشینیں دھرنے کے اخراجات برداشت کررہی تھیں۔ وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود حکومت گری نہیں تھی۔ سیاسی دوستوں اور تجزیہ نگاروں کی رائے میں سب کچھ تھا لیکن عوام نہیں تھے۔ عوامی تحریکوں سے حکومتیں گرانے کے لیے عوامی طاقت ناگزیر ہوتی ہے۔ تقرروں اور بیانات کے ذریعے انقلاب نہیں آتے۔ تب سب کہتے تھے کہ اسٹبلشمنت کو گلہ ہی یہی تھا کہ بانی تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری مل کر بھی اتنے لوگ نہیں لا سکے جو حکومت گرانے کے لیے چاہیے۔ خالی کرسیوں اور خالی کنٹینر سے سیاسی بحران تو آسکتا تھا لیکن حکومت نہیں گرا سکتی۔
امپائر ساتھ تھا لیکن باولر میں دم نہیں تھا،وہ میچ ونر باولر نہیں تھا ، اس لیے وکٹ نہیں گری تھی۔ وزیر عظم کا استعفیٰ روز مانگتے تھے لیکن نہیں ملا تھا۔ پارلیمان کو گالیاں دی جاتی تھیں، دھاندلی کا شور تھا۔ لیکن پارلیمان ڈٹی رہی۔ بانی تحریک انصاف، اس کی پارٹی اور اس وقت کی اسٹبلشمنٹ مل کر بھی ناکام ہو گئے۔
اس لیے اب بھی ڈی چوک میں دھرنے سے حکومت کو گھر بھیجنا آسان کام نہیں ہے۔لیکن تحریک انصاف دوبارہ یہ کوشش کرنا چاہتی ہے۔ حا لانکہ اب اسٹبلشمنٹ ان کے ساتھ نہیں۔ وسائل کی بھی کمی ہوگئی ہے۔ حکومت پہلے کی طرح کمزور نہیں ہے بلکہ سختی کا ارادہ باندھ چکی ہے، خالی کرسیوں اور کنٹینر کو وہ مقدس حیثیت حاصل نہیں ہوگی۔ اس بار بھی حکومت گرانے کے لیے لوگ نہ آئے تو حکومت گھر نہیں جائے گی۔ میں کوئی ہزاروں لوگوں کی نہیں لاکھوں لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ اس لیے اس بار ایسی کسی کوشش کو سختی سے کچلا جائے گا، جو قابو آگیا، اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔
ڈی چوک میں کوئی جادو کی چابی نہیں پڑی ہوئی کہ جسے اٹھا کر اقتدار کا بند دروازہ کھول لیا جائے گا۔ آپ سوال کریں گے کہ اگر ایسا ہے تو حکومت ڈی چوک تک جانے کیوں نہیں دیتی۔ میں سمجھتا ہوں پہلے عدلیہ کا خوف تھا کہ عدالتی سہولت کاری ہو جائے گی۔ لیکن اب شاید اس طرح روکا نہ جائے۔
پنجاب سے کسی کو آنے نہیں دیا جائے گا جب کہ کے پی سے گنڈا پورکے جلوس کو روکا نہیں جائے گا۔ ڈی چوک میں بیٹھنے دیا جائے گا۔ لیکن سہولت کاری نہیں ہوگی۔ باتھ روم نہیں ہوںگے اور نہ بنانے دیے جائیں گے۔ کھانے کی سپلائی بھی نہیں ہوگی۔ جس نے جتنے دن بیٹھنا ہے بیٹھ جائے۔ حکومت کو اندازہ ہے کہ دو دن میں سب واپس گھر چلے جائیں گے۔ لوگوں کو بٹھانا آسان نہیں ہے۔ موجودہ تحریک انصاف کی حکومت یہ نہیں کر سکتی۔
جہاں تک پورے ملک کو بندکرنے کی بات ہے تو پنجاب میں اب تحریک انصاف کے پاس کچھ بھی بند کرنے صلاحیت نہیں۔ کے پی میں ان کی اپنی حکومت ہے جتنا مرضی بند کر لیں۔ اسی طرح کراچی اور سندھ بھی بند نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پورا ملک بند کرنا بھی ممکن نہیں۔ ایک ڈی چوک جانے کا ہی آپشن ہے۔ لیکن اس میں کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ کامیابی تب ہی ممکن ہے کہ اگر دس لاکھ لوگ ڈی چوک آجائیں۔ لیکن ماضی کے چند احتجاج یہ واضح کررہے ہیں کہ اگر پنجاب کو قابو رکھا جائے تو کے پی سے دس ہزارسے زائد لوگ نہیں آسکتے ۔
گنڈا پور اور کے پی تحریک انصاف کی یہی طاقت سامنے آئی ہے۔اس لیے دس ہزار لوگ مستقل بٹھانا بھی مشکل ہے اور صرف دس ہزار سے نہ تو بانی تحریک انصاف رہا ہو سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت گھر جا سکتی۔
البتہ تحریک انصاف کو ایک اور سیاسی شکست ہوگی۔ جو زیادہ خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ڈی چوک پہنچ کر تحریک انصا ف کے لوگ کسی بلڈنگ پر حملہ کرتے ہیں تو یہ ایک اور نو مئی ہوگا۔ لیکن حکومت سمجھتی ہے کہ اگر انھوں نے ایک بھی بلڈنگ پر حملہ کیا تو سیاسی نتائج ان کے لیے کافی خطرناک ہوںگے۔ اس لیے ایسا کچھ حکومت کے لیے سیاسی تحفہ ہی ہوگا۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ لاکھوں لوگ کی کوئی کہانی نہیں۔ لوگ نہیں آتے۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔