جیلوں میں اصلاحات
کچھ وکیلوں کا کہنا ہے کہ جیلیں جرائم کی آماج گاہ ہیں
ڈاکٹر توصیف احمد خان |
November 13, 2024
پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی نے جیلوں کے خراب حالات کو بہتر بنانے کا ارادہ کیا ہے، انھوں نے گزشتہ ہفتے لاہور میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کی۔
اس اجلاس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم، لاہور ہائیکورٹ کے ایڈمنسٹریٹو جج شمس محمود مرزا، آئی جی پنجاب اور آئی جی جیل خانہ جات‘ہوم ڈیپارٹمنٹ اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹریز نے شرکت کی جب کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی نمایندگی کے لیے مسلم لیگ ن کے سنیٹر احد چیمہ اور پی ٹی آئی ایکٹوسٹ ، فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ کو مدعو کیا گیاتھا۔
دونوں نے جیل میں رہنے کے حوالے سے اپنی سوچ وفکر سے اجلاس کے شرکاء کو آگاہ کیا۔ سنیٹر احد چیمہ سابق بیوروکریٹ ہیں اور وزیر اعظم شہباز شریف کے قریبی معاونین میں شامل تھے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں انھیں کرپشن الزامات کے تحت ایک سال سے زیادہ عرصہ نیب جیل میں رکھا گیا جب کہ فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً سال بھر جیل میں رہیں۔ اس اجلاس میں Law and justice commissionکی رپورٹ پیش کی گئی۔
لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی رپورٹ میں جیلوں میں مقید سزا یافتہ اور انڈر ٹرائل ملزموں کے اعداد و شمار پیش کیے گئے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں 108,643 قیدی جیلوں میں بند ہیں جب کہ گنجائش صرف 66,625 قیدیوں کی ہے۔ صرف پنجاب میں آدھے قیدی انڈر ٹرائل ہیں۔ ماہر وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کریمنل جسٹس سٹسم اتنا ناقص ہے کہ اکثر بے گناہ افراد برسوں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک نام ادریس خٹک کا بھی ہے ، بہرحال معاملہ صرف ایک شخص کا نہیں ہے بلکہ ہزاروں قیدیوں کا بھی ہے۔
ایچ آر سی پی ہر سال انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کرتی ہے۔ اس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جیلوں میں کچھ لوگ بغیر مقدمہ چلائے برسوں سے بند تھے۔ ایچ آر سی پی اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں سے کئی بے گناہ قیدیوں کو رہائی ملی۔ ایچ آر سی پی کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف پنجاب کی جیلوں میں 59,652 قیدی نظربند تھے جن میں خواتین قیدیوں کی تعداد 1,016 اور قیدی بچوں کی تعداد 791 تھی۔
ان میں 44 ہزار 113 انڈر ٹرائل قیدی تھے اور سزا یافتہ قیدیوں کی تعدد 14,862 ہیں جن میں پھانسی کی سزا پانے والے قیدیوں کی تعداد 275 تھی۔ جیل حکام کا کہنا تھا کہ پنجاب میں 43 جیلیں ہیں جن میں 37,217 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ سزائے موت پانے والے قیدی برسوں سے اپنی رحم کی اپیلوں پر فیصلوں کے منتظر ہیں۔
اس رپورٹ میں سندھ کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے سندھ میں 2022کے مقابلے میں جیلو ں میں کچھ صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ سندھ کی کل 22 جیلوں میں 20103 قیدی ہیں جن میں 197 خواتین قیدی بھی ہیں، جب کہ جیلوں میں قیدیوں کے رہنے کی گنجائش 13,939 ہے۔ سندھ کی جیلوں 49 بچے بھی اپنی ماؤں کے ساتھ قید ہیں۔ ان بچوں کا کوئی معزز رشتے دار ان بچوں کو اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں ہے۔ ان بچوں کا بچپن جیل میں قید اپنی ماؤں کے ساتھ گزر رہا ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا میں 39 جیلیں ہیں۔ ان جیلوں میں 11,326 انڈر ٹرائل، 2 ہزار 447 سزا یافتہ اور 375 قیدی بچے مقید ہیں جب کہ ان جیلوں میں 13,375 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ 143 قیدی سزائے موت کا انتظارکر رہے ہیں۔ بلوچستان میں 12 جیلیں ہیں جن میں 11,631 انڈر ٹرائل، 964 سزا یافتہ اور 7 قیدی بچے شامل ہیں مگر جیلوں میں گنجائش بہت کم ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میںجیلوں میں برسوں زندگی گزارنے والے نظریاتی سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تمام جیلوں میں رشوت کا ہتھیار انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔
جیل حکام کہتے ہیں کہ حکومت بہت کم بجٹ فراہم کرتی ہے، یوں قیدیوں کو رہائش کے علاوہ دیگر سہولتوں کے لیے بہت کم بجٹ فراہم کیا جاتا ہے۔ کراچی جیل کے سابق ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ جیل، نیازی جو بعد میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے، صحافیوں سے اکثر اوقات کہا کرتے تھے کہ قیدیوں سے وصول کی جانے والی رقوم سے جیل کا نظام چلتا ہے۔ کچھ وکیلوں کا کہنا ہے کہ جیلیں جرائم کی آماج گاہ ہیں جہاں کوئی نوجوان بھیج دیا جاتا ہے تو وہ چند ماہ بعد جرائم کے تمام ہنر سیکھ لیتا ہے۔ سینئر صحافی سہیل سانگی 80ء کی دہائی میں کمیونسٹ دانشور پروفیسر جمال نقوی اور نذیر عباسی وغیرہ کے ہمراہ گرفتار ہوئے تھے اور بغیر کسی جرم کے 8 سال تک سندھ کی مختلف جیلوں میں نظربند رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیلیں ہمارے نوآبادیاتی نظام کے تحت چل رہی ہیں۔
آج بھی جیل کا عملہ قیدیوں کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرتا ہے۔ سہیل سانگی اپنے تجربے کی بنیاد پر لکھتے ہیں کہ کسی بھی قیدی کی بغیر جرم کے سزا گالیوں سے شروع ہوتی ہے جو جسمانی سزا اور قیدِ تنہائی پر ختم ہوتی ہے، یوں جیل میں قیدی کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ وہ جیل کو ذہنی طور پر قبول کر لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جیلوں میں قیدیوں کو ناقص کھانا دیا جاتا ہے اور انھیں لواحقین سے ملاقات کرنے میں شدید مشکلات ہوتی ہیں۔ قیدیوں کے لواحقین کے ساتھ بھی انتہائی برا سلو ک کیا جاتا ہے۔
سہیل سانگی اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی جیلوں میں روز انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے انتہائی اہم مسئلے کی طرف توجہ دی ہے۔
حکومت نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھا کر سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت مقدمات کے جلد نمٹنے کے لیے ایک راہ نکالی ہے، مگر صرف سپریم کورٹ میں مقدمات کے جلد فیصلوں سے جیلوں میں بند قیدیوں کی تعداد کم نہیں ہوسکتی۔ اس مقصد کے لیے ماتحت عدالت کے ججز اور عملے کی تعداد میں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ کریمنل جسٹس سسٹم کو بھی تبدیل کرنا ہوگا، پولیس کے انوسٹی گیشن افسروں کو ناقص، غلط یا جھوٹی تفتیش کرنے اور چالان بھیجنے پر سزا کا قانون بنانا پڑے گا ۔ جیلوں کا کلچر اتنا تبدیل کرنا ہوگا کہ وہ تربیت گاہیں بن جائیں۔