ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی اور دنیا کا مستقبل
دنیا کے تمام ممالک میں سیاسی ہلچل اپنی جگہ، لیکن جب امریکا میں صدارتی انتخابات کا طبل بجتا ہے تو ہر طرف سیاسی مبصرین اس پہ بات کرتے ہیں، گرما گرم بحثیں ہوتی ہیں۔ تمام دنیا کی نظر امریکا پہ ہوتی ہے۔ امریکی انتخابات کو جو اہمیت ملتی ہے وہ کسی دوسرے ملک کے انتخابات کو نہیں ملتی۔ 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات محض امریکی عوام کے لیے نہیں بلکہ عالمی سیاست، اقتصادیات اور امن کے لیے بھی فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی دنیا کے لیے کیا تبدیلی لاسکتی ہے؟ ان کی دوبارہ جیت نے عالمی سیاس افق پر ہلچل مچا دی ہے۔ یہ ان کا دوسرا دور ہے اور ان کی پالیسیوں سے متعلق امیدوں اور خدشات نے پوری دنیا میں سیاسی ماہرین کو متوجہ کیا ہوا ہے۔ ٹرمپ کی پہلی مدت میں ’’ پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ سر فہرست تھا، جس میں امریکا نے زیادہ تر معاملات میں خود کو عالمی فورمز سے علیحدہ رکھا۔ اس بار یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ٹرمپ اپنی پالیسیز کو تبدیل کریں گے یا پہلے کی طرح سخت گیر، سامراجی انداز اپنائیں گے۔
سامراجی پالیسی کی واپسی یا ایک نیا راستہ، وہ کیا اپنائیں گے؟ 2024 کے انتخابات کے بعد، دنیا کی توجہ اس بات پہ ہے کہ ٹرمپ اس دفعہ اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے یا نہیں۔ کیا وہ دوبارہ اپنے سامراجی مفادات کو فروغ دیں گے، عالمی معاملات میں یکطرفہ فیصلے کریں گے اور دوسرے ممالک پر اثرورسوخ بڑھائیں گے یا وہ اس بار ایک مختلف راستہ اختیار کریں گے، جس میں عالمی امن، ماحولیات اور ترقی پر توجہ ہوگی؟
دنیا کو یہ امید ہے کہ اگر امریکا، خاص طور پر ٹرمپ کی قیادت، اپنی سامراجی پالیسی کو ترک کر کے ایک برابری کی بنیاد پر خارجہ پالیسی اپنائے تو یہ عالمی امن کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
تاہم، اگر ٹرمپ نے اپنے پرانے سخت گیر رویے کو اپنایا تو دنیا میں تناؤ میں اضافے کا امکان ہے، خاص کر روس اور چین کے ساتھ تعلقات میں۔ اگر ٹرمپ اس بات کو سمجھ سکیں کہ دنیا کے معاملات میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، تو یہ امریکا کے لیے ایک تاریخی موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔
ایک غیر سامراجی امریکا دوسرے ممالک کو اپنے وسائل اور پالیسیز پر اختیار دے سکتا ہے اور انھیں اپنے ترقی کے راستے خود متعین کرنے کے موقع فراہم کرسکتا ہے۔ اس سے عالمی استحکام میں بہتری آئے گی اور ایسے مسائل جیسے ماحولیاتی آلودگی، غربت اور عالمی دہشت گردی کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔
پہلی مدت میں ٹرمپ نے ماحولیات پر سنجیدہ توجہ نہیں دی اور پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی، اگر ٹرمپ اپنی دوسری مدت میں ماحولیات کو اہمیت دیں، تو امریکا دنیا کے ساتھ مل کر ماحول کو بچانے کے لیے مؤثر اقدامات کرسکتا ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل کا ضامن ہوگا۔
ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے امریکا کو اپنا کاربن اخراج کم کرنا ہوگا اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔کیا امریکا اپنے کردار میں تبدیلی لاسکتا ہے؟ امریکا کے لیے اپنے سامراجی کردار کو تبدیل کرنا ایک مشکل چیلنج ہے، خاص کر ٹرمپ کی قیادت میں جہاں اقتصادی اسٹیبلشمنٹ کا بڑا حصہ عالمی بالادستی پر انحصار کرتا ہے۔ امریکا کی بڑی کمپنیاں، تیل کی صنعت اور دفاعی معاہدے اسی بات پر منحصر ہیں کہ امریکا دنیا میں اپنی طاقت قائم رکھے، لیکن دنیا کا منظر نامہ بدل چکا ہے 2024 کا صدارتی انتخاب اس تناظر میں نہایت اہم ہے کہ آج دنیا ایک پیچیدہ دور سے گزر رہی ہے۔
روس، چین اور مشرق وسطی کے ممالک اپنی جگہ مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ امریکا کو درپیش اندرونی مسائل جیسے سماجی تفریق، نسلی مسائل اور اقتصادی بحران بھی اس انتخاب کو خصوصی بنا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کی حکومت میں کیا دوبارہ امریکا عالمی پلیئر کے طور پہ سامنے آتا ہے یا وہ اپنی توجہ داخلی ترقی پر مرکوز رکھے گا۔
اگر ٹرمپ کی قیادت سمجھداری سے کام لے اور امریکا کو ایک شراکت دار کے طور پر پیش کرے تو اس سے دنیا میں پائیدار ترقی اور امن کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ امریکا کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے فوجی اڈوں کی تعداد کم کرے، دوسرے ممالک کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی سے باز آئے اور حقیقی معنوں میں دنیا کو ایک پرامن جگہ بنانے کی کوشش کرے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کا آغاز عالمی سیاست میں ایک نیا موڑ ثابت ہوسکتا ہے، اگر امریکا نے اپنے کردار کو ایک نئی سمت میں موڑنے کا فیصلہ کیا، تو یہ عالمی سیاست کے لیے نہایت اہم ہوگا۔ دنیا ایک ایسے امریکا کی امید کر رہی ہے جو طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ ذمے دار بھی ہو، اگر امریکا اپنے مفادات کو تھوپنے کے بجائے امن، ترقی اور برابری کے اصولوں کو اپنائے تو امریکا دنیا کے لیے ایک بہترین مثال بن سکتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ امریکا اپنی روایات اور پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے اور ایک غیر سامراجی طاقت کے طور پر خود کو پیش کرے۔ یہ انتخاب امریکا کو ایک نئی راہ پر لے جا سکتے ہیں۔ یہ انتخاب امریکا کو ایک نئی راہ پر لے جا سکتے ہیں جس میں وہ ایک عالمی قائد کے بجائے ایک عالمی ساتھی کے طور پر ابھرے۔