ہم دیہاتی لوگوں کو ہر وقت اپنے آبائی وطن کی یاد ستاتی رہتی ہے ۔جب بھی شہری مصروفیات سے کچھ وقت نکلتا ہے تو اپنے گاؤںکی راہ لیتے ہیں۔ حالانکہ چھٹیاں گزارنے کے لیے شہروں میں ہنگامہ خیزی اورسہولتیں زیادہ ہوتی ہیں لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں، یوں گاؤں پہنچ کر ہی سکون ملتا ہے۔دیہات سے شہروں کی جانب روزگار کے سلسلے میں مسلسل نقل مکانی ہورہی ہے کیونکہ اب کھیتی باڑی نقصان کا کام بن چکا ہے۔
قابل کاشت زمین پر ہاوسنگ پروجیکٹ کھڑے کیے جارہے ہیں۔ قابل کاشت رقبہ تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے ،شہروں سے ملحقہ دیہات تو ختم ہوچکے ہیں۔ قیام پاکستا ن کے بعد ایک ہی نیا شہر بسایا گیاہے جسے ہم اسلام آباد کے نام سے جانتے ہیں۔
اس نئے شہر کی آباد کاری کے وقت اس کے مضافات میں تازہ پھلوں ، سبزیوں اور دودھ کی سپلائی کے لیے فارم ہاؤس بنائے گئے تھے لیکن یہ سرسبز وشادات قطعہ زمین بھی احمق دولت مندوں کی دست برد سے نہ بچ سکا۔ سبزیوں اور اجناس کی کاشت کے لیے مخصوص کیے گئے قطعات اراضی نام نہاد بڑے لوگوں نے الاٹ کرا لیے اور یہاں پر فارم ہاوسز کے نام پر تعمیرات کر کے پارٹیاں شروع کر دی گئیں۔ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم احمق اور حریص اشرافیہ کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکے اور لوٹ مار کا ایک مسلسل سلسلہ جاری ہے۔
خیالات پریشان کا شاخسانہ ہے کہ بات کہاں سے شروع کی تھی اور کہاں نکل گئی۔ شہر کی دھند زدہ زندگی سے اکتا کر چند روز کے لیے گاؤں کی راہ لی ۔ امید یہ تھی کہ گاؤں پہنچ کر آلودہ فضاء سے جان چھوٹ جائے گی کہ بلند وبالا پہاڑوں کے دامن میں وادی سون کی فضاء بھی آلودہ ہے ،البتہ گاؤں کی فضاء سردیوں کی آمد کا اعلان ضرورکر رہی تھی۔
وادی سون کی خوبصورت جھیلیں مہمان آبی پرندوں کا مسکن ہیں سائبیریا سے پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے مرغابیوں کے غول کے غول جوق در جوق ہر سال سردیاں گزارنے کے لیے وادی سون کی جھیلوں کا رخ کرتے ہیں یہ ان کا ہر برس کا معمول ہے۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ دور دراز سے پرواز کر کے یہ مہمان پرندے ہر سال وادی سون آتے ہیں اور پھر جیسے ہی سائبیریا میں موسم ان کے موافق ہوتا ہے تو اپنے وطن واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ہم دیہاتیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے ہمیں بھی جیسے ہی موقع ملتا ہے تو ہم شہر سے اپنے گاؤں لوٹ جاتے ہیں۔
بطور کاشتکار گاؤں میں کسانوں سے ان کی فصلوں کی خیریت دریافت کرنا میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ وادی سون کے کاشتکار آلو کی فصل کی برداشت کے منتظر ہیں لیکن وہ حکومت کی زرعی پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ بجلی کے بھاری بلوں نے کسانوں کو پریشان کر رکھا ہے کھاد ، بیج اور ادویات کی ہوشرباء قیمتوں ان کی پریشانی کا اصل سبب ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت اگر ان کی مدد کے لیے سنجیدہ ہے تو ان کو زرعی آلات کی بھیک ہر گز نہیں چاہیے کیونکہ حکومت کی جانب سے قرعہ اندازی کے ذریعے رعائتی نرخوں پر فراہم کیے جانے والے زرعی آلات صرف چند کسانوں تک ہی پہنچ پاتے ہیں مگر کسی بھی فصل کی کاشت کے لوازمات ہر کسان کی ضرورت ہیں لہٰذا اگر حکومت کسان دوست ہو تو وہ ان ضروری اشیاء کی قیمتوں میں استحکام لائے جس سے تما م کسان مستفید ہوں گے۔
فصل کی کاشت کے اخراجات میں کمی ہو گی اورجب اخراجات میں کمی ہو گی تو لا محالہ قیمتوں میں کمی بھی ہو گی لیکن اگر حکومت گندم کے فصل کے لیے پچاس کلو بیج کو سات ہزار روپے سے زائد پر فروخت کرے گی اور توقع یہ رکھے کہ کسان سے فی من چھبیس سو روپے میں زبردستی خریداری کر لے تو یہ کسانوں کے ساتھ زیادتی ہے یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ اس دفعہ کسان گندم کی فصل کم رقبے پر کاشت کر رہے ہیں جو اس بات کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے کہ ملک میں کہیںگندم کا بحران نہ پیداہو جائے۔
بجلی کی ہوشرباء قیمتیں ہوں یا فصل کی کاشت اور برداشت کے لیے ڈیزل ، کھاد، بیج اور ادویات کسان پریشان ہے اور کسان کی پریشانی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کوٹھوس بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کے لیے کسانوں کے نمایندوں سے مشاورت کریں انھیں محدوداور زرعی آلات پرسبسڈی اور مزید قرضوں کے جال میں نہ پھنسائیں۔ ہمارے کسان بڑے معصوم اور توکل والے ہیں یہ کسی مافیا کا حصہ نہیں ہیں یہ تو وہ اللہ والے لوگ ہیں جو اپنی جمع پونجی زمین کے سپرد کر کے اللہ کی رحمت کے منتظر ہوتے ہیں اگر فصل اچھی ہو جائے تو بھی اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور اگر فصل خراب ہو جائے تو بھی اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔