وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی مدد چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے باکو میں کلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج کے زیر انتظام آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں کانفرنس آف پارٹیز ’’ کوپ 29 ‘‘ کا آغاز ہوچکا ہے، اس کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں کلائمٹ فنانسنگ کے وعدوں کی تکمیل کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ٹھوس شراکت اور جوابدہی پر زور دینا ہے، علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا مقامی حل تلاش کر کے اس پر عمل درآمد کے لیے علاقائی اور عالمی شراکت داری کو فروغ دینا بھی کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔
اس کانفرنس کے دوران پاکستان کلائمیٹ فنانسنگ کے وعدوں کی تکمیل پر توجہ مرکوز کرے گا۔ اس سلسلے میں ماضی کی یقین دہانیوں پر بھی بات کی جائے گی تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے وسائل کی دستیابی میں اضافہ ہو سکے۔
پاکستان ارضیاتی طور پر ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی آمدنی، رہائش، خوراک اور سلامتی کو خطرے میں ڈال چکی ہیں۔ اس سنگین صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا درجہ حرارت عالمی اوسط سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مارچ میں جاری ہونے والی عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو سالانہ 4 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے اس کے باوجود پاکستان کو موسمیاتی آفات کے سنگین نتائج کا سامنا ہے۔ سیلاب اور خشک سالی نے بنیادی ڈھانچے اور معاشی ذرایع کو تباہ کر دیا ہے جب کہ 2022 میں آنے والے سیلاب کے متاثرین کی بحالی کا عمل بھی تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔ اس حوالے سے پاکستان کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں جہاں ماحولیاتی سفارت کاری کے اہداف کا حصول یقینی بنانے کی ضرورت ہے وہیں صنفی مساوات کو فروغ دینے اور نجی شعبے کی شمولیت کے ذریعے اسمارٹ زراعت کے اقدامات کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں فوسل فیول یعنی حیاتیاتی ایندھن کے بڑے پیمانے پر استعمال سے ہونے والے کاربن کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلوں میں آگ لگنے کے بڑھتے واقعات بھی اسی صورت حال کا نتیجہ ہیں۔ گلیشیئرز کے پگھلنے اور سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے وسیع آبادیاں پانی میں غرق ہونے کے امکانات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ان حالات میں اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کو بھی موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اب ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس حوالے سے درپیش چیلنجز کو نظر انداز کر سکیں۔گزشتہ برس متحدہ عرب امارات میں ہونے والی کوپ 28 کانفرنس میں یورپی یونین کی طرف سے 275ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات نے 100 ملین ڈالر، امریکا نے 17.5ملین ڈالر، جاپان نے 10ملین ڈالر، جرمنی نے 10ملین ڈالر اور دیگر 100رکن ممالک نے مجموعی طور پر 100ملین ڈالر سے زائد کی فراہمی کا اعلان کیا تھا۔
رکن ممالک نے رواں دہائی کے آخر تک عالمی قابل تجدید توانائی کی پیداواری صلاحیت کو کم از کم گیارہ ہزار گیگا واٹ تک لانے جب کہ کانفرنس میں شریک تیل اور گیس پیدا کرنے والی 50بڑی کمپنیوں نے 2050 تک کاربن فری ہونے اور میتھین کا اخراج صفر کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا جس پر عملدرآمد شروع نہیں ہو سکا۔ کلائمیٹ چینج کے زیر اثر صرف ہماری زراعت ہی نہیں بلکہ لائیو اسٹاک کا شعبہ بھی متاثر ہورہا ہے۔
سب سے بڑا چیلنج ہمیں پانی کی کمی کی صورت میں پیش آرہا ہے اور اگلے سال یعنی 2025 کے آخر تک ہم ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے، جن کو پانی کی کمی یا سطح آب کے نیچے چلے جانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ 1972 میں ہمارے پاس موجود ذخائر 7500 کیوبک تھا اور اب یہ مقدار 1150 تک آگئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ظاہر ہے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہیں، لیکن ہماری لاعلمی اور ناسمجھی کے زیر اثر ہم پانی کے ضیاع کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم کپڑے دھونے، فرش صاف کرنے، نہانے اور پھر گاڑیاں دھونے پر بے دردی سے پانی بہا رہے ہیں۔
ہمیں احساس ہی نہیں کیونکہ اس وقت ہمیں سستا پانی میسر ہے، پاکستان میں 2 ڈالر میں فی کیوبک میٹر پانی میسر ہے جب کہ برادر اسلامی ملک ملائیشیا میں اتنے پانی کی قیمت اس وقت 56 ڈالر ہے۔ ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں، بارش کا پانی سیلاب کی شکل میں سمندر برد ہورہا ہے۔ جب کہ ہمارے پانی کا 78 فیصد انحصار بھارتی دریاؤں یا ذخائر پر ہے جو ہمارا دشمن ہے اور جب چاہے ہمارے خلاف اسے بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ ایک اور مسئلہ پانی کی آلودگی بھی ہے خیبر پختونخوا میں کالام سوات سے لے کر چارسدہ تک دریاؤں میں سیوریج کا پانی جارہا ہے۔ جس سے انسانی صحت کے ساتھ ساتھ آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پھر ہماری سیمنٹ اور کنکریٹ سے محبت بھی ایک وجہ ہے۔
گلیاں اور سڑکیں پکی ہورہی ہیں جب کہ زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ اسکیمیں بن رہی ہیں۔ زمین کے پانی جذب کرنے کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے جس کا نتیجہ اربن فلڈنگ کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ پشاور شہر خیبرپختونخوا کا دارالحکومت جو کبھی پھولوں کا شہر تھا اور ارد گرد کے دیہات میں تازہ پھلوں کے باغات پھیلے ہوئے تھے، اب وہ باغات تقریباً ختم ہیں اور انجام کار پشاور میں پانی کی زیر زمین سطح 60 فٹ سے بڑھ کر 170 فٹ ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی حدت کی وجہ سے چترال سال بھر سیلاب کی زد میں رہتا ہے۔
موسمی تغیر کے تحت بارشوں کا نظام بھی متاثر ہے جس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔ ہمیں اب تبدیل ہوتے موسم کے مطابق فصل کی بوائی کرنی ہے اور ساتھ ساتھ جدید دور کی سائنسی تحقیق سے استفادہ کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے مکئی اور دیگر اجناس کے بیج تیار کر لیے ہیں جب کہ حیوانات کے شعبے میں تجربات جاری ہیں۔ تاہم کسانوں اور کاشتکاروں کو پرانے طریقہ کار سے نکلنے کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ اب وقت اور موسم کے تقاضوں کے مطابق بیجوں کا انتخاب بھی کرنا ہے۔ اور پانی کے استعمال کے لیے بھی ڈرپ ایری گیشن اور دیگر ذرایع اختیار کرنے ہونگے جس کے لیے سرکاری سرپرستی، بیداری اور آگاہی مہم چلانا ضروری ہے۔
ایشیا پیسیفک کلائمٹ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث آیندہ برسوں میں پاکستان کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان کو 2070 تک جی ڈی پی میں 21 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان زراعت کے شعبے میں ہونے کا خطرہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2070 تک چاول، مکئی کی پیداوار میں تقریبا 40 فیصد تک کمی کا امکان ہے۔
سویا بین کی پیداوار میں 20 فیصد اور گندم کی پیداوار 45 فیصد کم ہوسکتی ہے۔ مچھلی کے کاروبار سے وابستہ افراد کو 20 فیصد پیداوار میں کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں درختوں کی پیداوار میں 10فیصد تک کمی کا امکان ہے۔ موسم گرما میں اضافے کے باعث بجلی کی کھپت میں 40 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ آفات کے خطرے کی سطح کو ماپنے کے نظام انفارم رسک انڈیکس کی طرف سے 2024 میں جاری کی گئی رینکنگ کے مطابق پاکستان 191ممالک میں سے 10ویں نمبر پر ہے جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا شکار ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔
اس لیے ہمیں ہر ممکن طریقے سے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے متحرک ہونے اور آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے کوپ29 کانفرنس کا پلیٹ فارم ایک موثر فورم ہے جہاں ہمیں اپنا کیس پوری شدت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے کلائمٹ فنانسنگ نہایت اہمیت کا حامل پروگرام ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ اپنے مقررہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کاربن کے اخراج کے بڑے ذمے دار ترقی یافتہ ممالک کی یقین دہانیوں کے باوجود فنڈز کی عدم فراہمی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ پاکستان جیسے ممالک کو فنانسنگ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ان چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے کوپ29 میں کلائمٹ فنانسنگ کے حوالے سے اہداف کے حصول کا تعین اور مستقبل میں ترقیاتی منصوبوں کی شراکت داری کے لیے ڈیویلپمنٹ پارٹنرز کو اپنے وعدے پورے کرنے کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔