کھیل کس طرف جائے گا ؟
تحریک انصاف کی جانب سے فائنل کال کی بازگشت روز تیز ہو رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس فائنل کال کے اہداف کے حوالے سے ابہام ختم ہو گیا ہے۔ 24نومبر کی تاریخ دے دی گئی ہے۔میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ڈی چوک یا پاکستان میں کسی جگہ احتجاج کیا جائے‘ وہاں کوئی جادو کی چابی نہیں جو احتجاج کے نتیجے میں حکومت ختم کر دے۔ اس کا تجربہ تحریک انصاف کو ہے۔ اگر بانی پی ٹی آئی کی رہائی ہی مقصد ہے تو بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کسی احتجاج کے نتیجے میں حکومت یا عدلیہ کیسے مجبور ہو گی کہ ان کی رہائی کا حکم دے دے۔
بہر حال دو تین روز قبل تحریک انصاف کی قیادت جس میں عمر ایوب، شبلی فراز اور دیگر شامل تھے جب بانی تحریک انصاف کو ملنے اڈیالہ پہنچے تو انھیںملاقات سے پہلے جیل کے باہر سے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ تا ہم تھوڑی دیر بعد چھوڑ بھی دیا گیا۔ یہ سوال کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا ؟اگر گرفتار کیا گیا توپھر چھوڑ کیوں دیا گیا؟ اس کا سرکاری جواب خاصا مضحکہ خیز ملا ہے کہ انھیں دفعہ 144کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔ تا ہم بعد میں رہا کر دیا گیا۔ راولپنڈی پولیس کا موقف ہے کہ وارننگ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ لیکن اس سب کی وجہ سے تحریک انصاف کی قیادت کی بانی تحریک انصاف سے ملاقات نہ ہو سکی۔
اس گرفتاری کے حوالے سے دو باتیں سامنے آرہی ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ فرمائشی گرفتاری تھی۔ وہ خان سے ملاقات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اگر خود انکار کرتے تو غدار کہلاتے۔ اس لیے گرفتاری نے انھیں محفوظ راستہ دے دیا۔ دوسرا حکومت کو یہ فائدہ نظر آیا کہ ٹرمپ کے جیتنے کے بعد جو ایک ماحول بنایا جا رہا ہے کہ حکومت دباؤ میں ہے‘ وہ بھی ختم ہو جائے گا کہ ابھی بھی گرفتاریاں ہو سکتی ہیں۔ امریکی غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ مجھے نہیں لگتا کہ امریکی غبارے سے ہوا نکلی ہے۔ البتہ فائنل کال دے دی گئی ہے‘ یہ ایک الگ سوال ہے۔
تحریک انصاف کے اندرونی حلقے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ بانی تحریک انصاف ایک فائنل کال دے کر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی سیاسی قیادت انھیں روکنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ بضد اور دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر ان کی فائنل کال کی ہدایات پر عمل نہیں کیا جائے گا تو وہ انکار کرنے والوں کو پارٹی سے نکال دیں گے۔ پھر اوور سیز سوشل میڈیا ٹرول بریگیڈ کا بھی خوف ہے۔ اس لیے پارٹی قیادت فائنل کال کے خلاف ہونے کے باوجود بھی مجبور نظر آرہی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح بچا جائے۔
یہ سوال اہم ہے کہ بانی تحریک انصاف کے ذہن میں کیا ہے۔ذرایع کے مطابق بانی تحریک انصاف ایک بھاری تصادم کے خواہاں ہیں۔ وہ نو مئی سے بڑے تصادم کے خواہاں ہیں۔ ان کو علم ہے کہ لمبا دھرنا نہیں دیا جا سکتا۔ دھرنے سے کچھ حاصل بھی نہیں ہوگا۔ اسی لیے وہ تصادم چاہتے ہیں۔ میرے منہ میں خاک ۔ میری اطلاع اللہ کرے غلط ہی ہو۔ لیکن کہا یہی جا رہا ہے۔ان کا خیال ہے کہ ٹکراؤ کے نتیجے میں امریکا کی نئی حکومت کو مداخلت کا موقع مل سکتا ہے۔ اس طرح ان کی رہائی ممکن ہوگی۔
حکومت کو اب تحریک انصاف کے احتجاج سے کوئی خاص مسئلہ نہیں۔ پنجاب میں تو اب تحریک انصاف احتجاج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کارکن اب مزید احتجاج نہ کرنے کے فیصلہ پر پہنچ گیا ہے۔ اسی لیے حال ہی میں ڈی چوک سمیت جلسوں کی جو بھی کال دی گئی ہے پنجاب سے کوئی خاص لوگ شامل نہیں ہوئے۔ اس لیے حکومت کو یہ خیال ہے کہ اگر فائنل کال سے پہلے تھوڑی سختی کی جائے گی تو پنجاب سے لوگ نہیں آئیں گے۔ پنجاب میں کوئی تحریک نہیں ہے۔ مسئلہ کے پی کا ہے ۔
جہاں حکومت ہے اور حکومت کے زور پر احتجاج کی کال کو کامیاب بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ویسے تو صوابی جلسے کے بارے میں بھی سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے یہی ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں سے زیادہ سرکاری ملازمین تھے۔ ان کی وہاں حاضری لگائی گئی تھی اور حاضری یقینی بنانے کے احکامات بھی تھے۔ اس لیے اگرتصادم کا کوئی کھیل کھیلا بھی جانا ہے تو کے پی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن کے پی حکومت کو اس سے ہونے والے نقصان کا بھی اندازہ ہے۔ اسی لیے گنڈا پور پر اسٹبلشمنٹ سے ملنے کا پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
فائنل کال اگر پر امن ہو تو اس سے کوئی مقصد حل نہیں ہوگا۔ اسی لیے پر امن نہیں ہوگی۔ ذرایع کے مطابق حکومت یہ پلاننگ کر رہی ہے کہ اب ڈی چوک کی اگر کال دی جائے تو کے پی والوں کو ڈی چوک آنے سے نہ روکا جائے۔ پنجاب کے لیے حکمت عملی مختلف ہو گی۔ وہ کب تک بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن اب یہ بات بھی سامنے ہے کہ وہ پر امن نہیں بیٹھیں گے۔ معاملات کو تصادم کی طرف لے جایا جائے گا۔ تصادم کی پہلے بھی پلاننگ تھی۔ اسی لیے گنڈاپور ڈی چوک سے پہلے غائب ہو گئے اور تصادم نہیں ہوا۔ اب کیا کیا جائے گا۔ کھیل کہاں جائے گا۔ دیکھنے کی بات ہے۔