سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں دکھایا گیا ہے کہ ایک بچے کے والد اپنے بیٹے کا پرائیویٹ اسکول میں داخلہ کرانے جاتے ہیں تو اسکول کی ہیڈ مسٹریس انھیں داخلے کی شرائط کا بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’داخلہ فیس اسکول کی مختلف فیسوں کے علاوہ آپ کو اپنے بیٹے کے لیے یونیفارم، شوز، کتابیں اورکاپیاں اسکول سے ہی خریدنا ہوں گی‘‘ والد اسکول کی تعلیم کے متعلق پوچھتے ہیں کہ ’’ اسکول میں تعلیمی معیارکیسا ہے؟‘‘ تو وہ بتاتی ہیں کہ ’’ عام تعلیم تو اسکول سے ہی ملے گی مگر معیار، قابلیت اور امتحان میں کامیابی کے لیے آپ کو ٹیوشن سینٹر کی خدمات ان کے مقررہ معاوضے پر حاصل کرنا ہوں گی۔‘‘
یہ ہمارے پرائیویٹ عام اسکولوں کا حال ہے جہاں پرائیویٹ اسکولوں کی اپنی عمارتیں کم اور کرائے پر حاصل کی گئی عمارتیں زیادہ اور چھوٹی ہوتی ہیں جہاں رہائشی علاقوں کے حساب سے اسکول قائم کر کے من مانی فیس مقرر کی جاتی ہے اور نئے اسکول والے والد پر یہ احسان کرتے ہیں کہ داخلہ فیس اور جون جولائی کی چھٹیوں کی فیس نہ لینے کی خوشخبری دیتے ہیں اور شروع میں والدین کو ایک یونیفارم شاپ کا کارڈ دے کر پابند کرتے ہیں کہ اسکول کی یونیفارم، کتابیں اورکاپیاں وہیں سے ملیں گی۔ یونیفارم پر اسکول کا مونوگرام بھی وہیں سے ملتا ہے البتہ اسکول شوز وہ کہیں سے بھی خرید سکتے ہیں۔
داخلہ و اسکول فیس، یونیفارم، کتابیں کاپیاں اور شوز پر ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد اور بعض اسکولوں میں بعض اضافی شرائط پر بچوں کو داخلہ دیا جاتا ہے اور آنے والے دنوں میں اسکول میں تفریحی اخراجات اہم دنوں پر تقریبات کے لیے اور بچوں کو تفریح کرانے کے بہانے اکثر بعد میں فنڈز وصول کیے جاتے ہیں۔ نئے پرائیویٹ اسکولوں میں بے روزگار نوجوان لڑکیوں کو معمولی تنخواہ پر مس بنا کر مقررکیا جاتا ہے۔
جنھیں اسکول ہیڈ مس یا پرنسپل ابتدا میں تعلیم دینے کے گُر اور بچوں کو قابو میں رکھنے کی تربیت اپنے طور پر دیتی ہیں جب کہ سرکاری اسکولوں میں ایسا نہیں ہوتا اور انھیں سرکاری طور پر مقررہ اداروں سے تعلیمی تربیت کا سرٹیفکیٹ حاصل کر کے اور رشوت وصول کرکے سرکاری تعلیمی افسران ملازمت کا پروانہ جاری کرتے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں کے مقابلے میں گورنمنٹ پرائمری و ہائی اسکولوں میں تنخواہیں زیادہ اور سہولتیں آسانی سے حاصل کر لی جاتی ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی غیر حاضری اور سرکاری چھٹیاں زیادہ ہوتی ہیں یا اسکول ہیڈ سے ملی بھگت کرکے گھر بیٹھے بھی تنخواہیں معقول کمیشن سے حاصل کی جاتی ہیں اور ایسے اساتذہ گھوسٹ کہلاتے ہیں۔
نئے پرائیویٹ اسکولوں میں تنخواہیں کم نرمی زیادہ چھٹی کر لینے پر تنخواہ کاٹنے کا طریقہ بھی رائج ہے۔ گرمی کی دو ڈھائی ماہ کی سالانہ چھٹیوں میں پرائیویٹ اسکولز اپنے عملے کو تنخواہ نہیں دیتے جب کہ بچوں کے والدین سے دو ماہ کی فیس ضرور وصول کی جاتی ہے۔ ان اسکولوں کی طرف سے جن یونیفارم شاپس کا کارڈ دیا جاتا ہے وہاں اسکول کے یونیفارم، کاپی کتابوں کی زیادہ قیمت وصول کرکے حساب برابر کر لیتے ہیں۔
پرائیویٹ اسکولوں کے علاوہ مذکورہ اسکول تک بچوں کو گھروں سے لانے واپس لے جانے کے لیے جو وین ڈرائیور ماہانہ فیس پر رکھے جاتے ہیں وہ بھی چھٹیوں کی رقم وصول کرتے ہیں اور وہ اپنی گاڑیاں دیگر کاموں میں استعمال کرتے ہیں جب کہ ان کی اپنی چھٹی یا گاڑی خراب ہونے کی صورت میں بچوں کو لانے کی ذمے داری والدین پر عائد ہو جاتی ہے اور وین والے فائدے میں رہتے ہیں۔
بڑے اسکول جہاں بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے وہاں پرائیویٹ اسکول من مانے کرائے پر کینٹین کی جگہ فراہم کرتے ہیں، بچوں کو تعلیمی وقفے میں اسکول سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دروازہ بند کر دیا جاتا ہے اور طلبا کو اسکول کینٹین سے غیر معیاری اشیائے خورونوش مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہیں۔بڑے سرکاری اسکولوں میں ایسے بھی ہیں جن کا تعلیمی معیار مشہور ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہاں داخلہ آسانی سے نہیں بلکہ میرٹ اور قابلیت پر ملتا ہے اور بچوں کے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں مگر ایسے سرکاری اسکول بہت ہی کم ہیں۔
پرائیویٹ اسکولوں نے حصول علم کو تجارت اور سرکاری اسکولوں کے اکثر اساتذہ نے اپنے گھروں میں ٹیوشن سینٹر قائم کرکے ٹیوشن کو کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے وہ اسکولوں میں اگر آتے ہیں تو وقت گزارنے کے لیے وہ طلبا کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے اور طلبا کو ان کے گھر آ کر ٹیوشن لینے کا مشورہ دیتے ہیں اور ٹیوشن کے وسائل رکھنے والے طلبا ٹیوشن لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
بڑے پرائیویٹ اسکولز امتحانات کے بعد پوزیشن لینے والے طلبا کی تصاویر نمایاں کر کے اسکول کے باہر اور سڑکوں پر لگا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کے اسکول میں تعلیم اچھی ہے جب کہ اس کے برعکس یہ اسکول امتحانی بورڈوں کے کرپٹ افسروں اور اساتذہ سے ملی بھگت کرکے پوزیشن بڑی رقم کے عوض خریدتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی رقم پر پوزیشنیں خریدنے والے یہ تعلیمی تاجر اپنے اسکولوں کی مصنوعی شہرت رقم دے کر خرید لیتے ہیں اور سرکاری اسکول تعلیمی بورڈز کو رشوت دے کر اپنے طلبا کے لیے پوزیشنیں نہیں خرید سکتے، اس لیے سرکاری اسکولز کے طلبا محض پاس ہو جاتے ہیں انھیں پوزیشنیں نہیں ملتیں کیونکہ پوزیشنیں قابلیت پر نہیں بلکہ بھاری رشوت اور ملی بھگت سے حاصل کی جاتی ہیں۔
یوں تو آٹھویں جماعت تک کے امتحانات پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں میں وہی اساتذہ لیتے ہیں جو بچوں کو پڑھاتے ہیں، وہی امتحان لیتے اورکاپیاں چیک کرتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں سفارش اور رقم پر نمبر ملتے ہیں جب کہ پرائیویٹ اسکول نااہل طلبا کو بھی پاس کردیتے ہیں تاکہ اسکولوں کی مصنوعی مقبولیت برقرار رہے۔
عبادت سمجھ کر تعلیم دینے والے اساتذہ اب رہے نہیں، سرکاری اسکول میں ملازمت اہلیت پر نہیں سفارش اور رشوت سے ملتی ہے، اس لیے سرکاری اساتذہ دو دو ملازمتیں اور اپنا کاروبارکرتے ہیں جن کی تنخواہ بڑھتی رہتی ہے اور ریٹائرمنٹ پر معقول رقم اور بعد میں گھر بیٹھے پنشن ملتی ہے۔ سرکاری اساتذہ کا احتساب نہیں ہوتا اور پرائیویٹ اسکولز اب منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اور یہ اسکول تعلیمی جرائم کر کے معیار نہیں، اپنے اسکول بڑھا رہے ہیں۔