سندھ حکومت کے 26 ہزار 500 ملازمین اور افسروں کے قریبی عزیزوں نے کئی برسوں تک جعل سازی کے ذریعے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ہر سہ ماہی میں 8500 کی رقم وصول کی۔ حکومت سندھ نے صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف کے ایک رکن کے سوال کے جواب میں تحریری طور پر یہ اطلاع فراہم کی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت جب 2008میں برسر اقتدار آئی تو حکومت نے ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کی خدمات اس لیے حاصل کی تھیں کہ خواتین میں غربت کے خاتمے کے لیے پروگرام تیارکریں۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ڈیزائن تیارکیا تھا۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کچھ عرصہ اس پروگرام کی نگرانی کی تھی، مگر سندھ حکومت میں کرپشن کے کلچرکی بناء پر وہ مایوسی کا شکار ہوئے تھے اور اس پروگرام سے لاتعلقی اختیارکر لی تھی۔
ان کے بی آئی ایس پی (B.I.S.P) پروگرام سے علیحدگی کے بعد یہ پروگرام تو جاری رہا مگر اس کی سمت تبدیل ہوگئی۔ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان A.G.P.R سرکاری محکموں میں آڈٹ کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اے جی پی آر کے اہلکاروں نے 2019 میں پورے ملک میں 820,165 سرکاری ملازمین کا پتہ چلایا تھا جو اس پروگرام سے رقم حاصل کرنے کے حقدار نہیں تھے۔ ان افراد میں اعلیٰ افسروں کی بیگمات کے علاوہ ضلع افسروں کے قریبی عزیز شامل تھے، اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی۔
اس حکومت نے ان افراد پر سرکاری فنڈ غبن کرنے کا الزام لگاتے ہوئے تادیبی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے بدعنوان افسروں کے خلاف کارروائی کو انتقامی کارروائی قرار دے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں خاصا شور شرابہ کیا تھا، شاید سیاسی دباؤ کی بناء پر اس وقت سرکاری فنڈ غبن کرنے والے افراد تادیبی کارروائی سے بچ گئے۔ یہی وجہ تھی کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم غبن کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ کہا جاتا ہے کہ اے جی پی آر کی آڈٹ رپورٹوں میں اس پروگرام فنڈز کے غلط استعمال کی بار بار نشاندہی کی تھی مگر سندھ حکومت کی ترجیحات میں بدعنوانی کا خاتمہ شامل نہیں ہے۔
اس بناء پر فراڈ کرنے والے افراد بچ گئے مگر اب حکومت سندھ کو اس معاملے پر توجہ دینی پڑی اور صوبائی اسمبلی کے سامنے غربت کے خاتمے کے پروگرام کو سبوتاژ کرنے والے افراد کے نام اور تعداد ظاہر کرنی پڑی مگر حیرت کی بات ہے کہ حکومت سندھ نے بی آئی ایس پی پروگرام کا فنڈ غلط استعمال کرنے والے سرکاری افسروں کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کے بارے میں کچھ نہیں کیا۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ پروگرام تیار کیا تھا۔ یہ پروگرام صرف غریب خواتین کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں درخواست کے کوائف کی جانچ پڑتال کا ایک سخت طریقہ کار موجود ہے۔
اس پروگرام میں کام کرنے والے افسروں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ہر درخواست گزار کے فراہم کردہ کوائف کی سختی سے جانچ پڑتال کرے، جس قانون کو اس پروگرام کے تحت امداد کا مستحق قرار دیا جاتا ہے، اسے بینک کارڈ کے ذریعے رقم ادا کی جاتی ہے اور ہر دفعہ اس قانون کی بائیو میٹرک تصدیق ضروری ہوتی ہے، مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بناء پرکام کرنے والے بی آئی ایس پی پروگرام میں ایک طرح کے غبن کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ اس کیس میں صرف ایک خاتون ملوث نہیں ہے بلکہ پروگرام کے افسران کے علاوہ متعلقہ بینک کا عملہ بھی ملوث ہوسکتا ہے۔
اس پروگرام میں دھاندلی کی صورتحال یہ ہے کہ ہر مہینہ اخبارات میں یہ خبر شایع ہوتی ہے کہ دیہاتوں میں غریب خواتین کو بینک کا عملہ مکمل رقم ادا نہیں کر رہا اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ ناخواندہ خواتین خود اپنے کارڈ کو استعمال کرنا نہیں جانتیں تو اس کا فائدہ بینک کا عملہ اٹھاتا ہے۔
پاکستان میں غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 40 فیصد کے قریب ہے، ان میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ خاص طور پر سندھ کے دیہی علاقوں میں غربت کی سطح بڑھ رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں خاص طور پر غربت کی سطح بڑھنے کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی کی اکثریت کا تعلق زرعی نظام سے ہے۔
گزشتہ ہفتے ایکسپریس ٹریبیون میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دیہی علاقوں میں خاندانوں میں قریبی عزیزوں میں رقم کی تقسیم سے زمین کی فصل پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے، جس کی بناء پر کسانوں کی آمدنی کم ہو رہی ہے۔ خاندانوں میں معاشی بنیادوں پر ہونے والی تبدیلیوں کے سماجی اثرات بھی برآمد ہو رہے ہیں۔ ہزاروں غریب کسان اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر روزگارکے حصول کے لیے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
کورونا کی وباء کی وجہ سے زرعی اور صنعتی معیشت اس طرح ترقی نہیں کرسکی ہے، جس کے اثرات ظاہر ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بی آئی ایس پی پروگرام ان خواتین کے لیے تیار کیا تھا جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہیں۔ 2008 سے 2024 تک اس پروگرام پر اربوں روپے خرچ ہوئے مگر اس خطیر رقم سے غربت کی سطح کم نہ ہوسکی۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے غربت کے خاتمے کا کوئی موثر پروگرام جاری نہیں کیا۔ دوسری طرف پھر بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے نہ صرف نچلے طبقہ کا تو ذکر ہی کیا، متوسط طبقے کی معاشی صورتحال بھی مزید خراب ہوگئی ہے، مگر ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ غربت کے خاتمے کے لیے اس طرح کے پروگرام ضروری ہیں۔ سندھ سیکریٹریٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی جب سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی کارروائی کا مشاہدہ کرنے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ پیپلز پارٹی کے رہنما نثارکھوڑو ہیں، ہر اجلاس میں مختلف محکموں میں ہونے والی بدعنوانیوں اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کے بارے میں اے جی پی آر کے اعتراضات پیش ہوتے ہیں اور کمیٹی کے سربراہ ان رپورٹوں پر کارروائی کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں یہ انکشاف ہوا کہ محکمہ فشریز اینڈ لائیو اسٹاک میں 132 وینٹری ڈاکٹروں کو سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے بغیر مستقل کردیا گیا اور ان ڈاکٹروں کی تنخواہیں 7 بلین روپے بھی جاری کردی گئیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس غیر قانونی اقدام پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے اعتراضات کو بھی نظرانداز کردیا گیا تھا۔ سندھ حکومت کی کارکردگی ان بدعنوانیوں سے براہِ راست متاثر ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ترقی کی شرح کم ہوجاتی ہے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فنڈز اگر غیر مستحق افراد پر خرچ ہونگے تو اس پروگرام کا اصل مقصد پسِ پشت چلا جائے گا اور دیہی علاقوں میں خاص طور پر غربت کی شرح کم کرنے کے امکانات کم ہوجائیں گے۔ اس وقت ضروری ہے کہ اس پروگرام میں ہونے والی دھاندلیوں کی ہائی کورٹ کے ایک حاضر جج پر مشتمل ٹریبونل سے تحقیقات کروائی جائیں اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آیندہ کوئی اس پروگرام میں غبن نہ کرے۔