کراچی سمیت سندھ کے 18 اضلاع میں ضمنی بلدیاتی انتخابات، پی پی پی کو برتری

سندھ بھر میں ضمنی بلدیاتی انتخابات کے لیے 157 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس اور 10 کو حساس قرار دیا گیا تھا

کراچی:

کراچی سمیت سندھ کے 18 اضلاع میں ضمنی بلدیاتی انتخابات کے لیے ووٹنگ کے بعد نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے اور غیرحتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق کراچی کی 10 بلدیاتی اور 1 کنٹونمنٹ کا غیر حتمی نتیجہ مکمل ہوگیا.

پیپلز پارٹی نے 8 بلدیاتی اور 1 کنٹونمنٹ بورڈ کی نشست پر میدان مارلیا۔ جماعت اسلامی نے 2 بلدیاتی نشستوں پر فتح حاصل کی۔

پیپلز پارٹی نے 4 چیئرمین، 1 وائس چیئرمین اور 3 وارڈ ممبر کی نشست پر فتح حاصل کی۔ پیپلز پارٹی کو کورنگی کریک کنٹونمنٹ بورڈ کے 1 وارڈ پر بھی کامیابی سمیٹی۔ جماعت اسلامی کو ایک وائس چیئرمین اور 1 وارڈ ممبر کی نشست پر کامیابی ملی۔

کراچی کے مختلف اضلاع میں ضمنی بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی اور بغیرکسی وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہی تاہم مقررہ وقت کے بعد پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود لوگوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دی گئی۔

غیرحتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کراچی کی 10 میں سے 8 نشستوں پر پی پی پی نے کامیابی حاصل کی ہے، پی پی پی 3 چیئرمین، ایک وائس چیئرمین اور 4 وارڈ ممبرز کی نشستیں جیت گئی ہے جبکہ جماعت اسلامی ایک چیئرمین اور ایک وارڈ ممبر کی نشست پر فتح حاصل کرسکی ہے۔

کراچی کے منگھوپیر ٹاؤون یو سی 5 کے وارڈ 4 کا غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجے کے مطابق جماعت اسلامی کے عرفان عمر 108 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ پی پی پی امیدوار محمد عرفان نے 32 اور آزاد امیدوار شکیل احمد نے 28 ووٹ لیے۔

مذکورہ وارڈ میں ووٹرز کی مجموعی تعداد دوہزار 617 ہے تاہم صرف 237 ووٹ درست قرار پائے اور ٹرن آؤٹ 4.39 فیصد رہا۔

ضلع ملیر ابراہیم حیدری ٹاؤن کی یو سی 7 کے وارڈ 4 کے غیر حتمی نتیجے کے مطابق پی پی پی امیدوار آصف خان 994 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے، جماعت اسلامی امیدوار اکرام اللہ 362 اور آزاد امیدوار اعظم خان نے 131 ووٹ حاصل کیے۔

ضلع ملیرکی یو سی 9 کے چیئرمین کی نشست کے غیر حتمی اورغیر سرکاری نتیجے کے مطابق پی پی پی امیدوار بابر مگسی دو ہزار 493 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے، جماعت اسلامی کے امیدوار نعمان احمد 528 اور آزاد امیدوار عزیر علی کو 121 ووٹ ملے۔

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن یو سی 10 کے وارڈ 4 کے غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پی پی پی امیدوار اقرار حسن 374 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، آزاد امیدوار اسامہ نے 188 اور جماعت اسلامی امیدوار محمد طحہ نے 122 ووٹ لیے۔

ضلع کورنگی کی یو سی 7 وارڈ 1 پر پی پی پی امیدوار مرتضی قریشی 1045 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار کامران نے 666 اور آزاد امیدوار محمد وسیم نے 157 ووٹ لیے، ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ 14.32 فیصد رہا۔

اسی طرح لانڈھی ٹاؤن یو سی 6 کے وائس چیئرمین کی نشست پر پی پی پی امیدوار عمیر احمد خان درانی 1775 ووٹ لے کر منتخب ہوگئے، جماعت اسلامی کے عبدالرحمان 816 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے اور آزاد امیدوار تحسین خان کو 486 ووٹ ملے۔

مذکورہ وارڈ میں ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ 5.87 فیصد رہا۔

گلبرگ ٹاؤن یو سی 5 کی وائس چیئرمین کی نشست پر جماعت اسلامی امیدوار عرفان 955 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، پی پی پی امیدوار منیب حسن نے 591 اور آزاد امیدوار نادر خان نے 352 ووٹ حاصل کیے، ٹرن آؤٹ 3.08 فیصد رہا۔

کراچی کے صدر ٹاؤن میں یو سی 13 کے چیئرمین کی نشست پر پی پی پی امیدوار کرم اللہ 3616 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، جماعت اسلامی کے نور اسلام نے 759 اور آزاد امیدوار محمد بابر خان نے 678 ووٹ حاصل کیے اور یہاں ووٹنگ ٹرن آؤٹ 14 فیصد رہا۔

لیاقت آباد ٹاؤن کی یو سی 7 کے چیئرمین کی نشست پر پی پی پی کے محمد وقار 3784 ووٹ لے کر جیت گئے، جماعت اسلامی کے سلیم اللہ 1646 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

ماڈل کالونی ٹاؤن کی یو سی 7 کے چیئرمین کی نشست پر  پیپلز پارٹی امیدوار امام بخش 4362 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔ جماعت اسلامی کے امیدوار انصار اللہ خان 2415 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے، آزاد امیدوار سلمان خان نے 1296 ووٹ حاصل کیے۔

خیال رہے کہ ضمنی بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ کا ماحول مجموعی طور پر پرامن رہا جہاں کراچی سمیت سندھ کے 18 اضلاع میں ضمنی بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی اور مجموعی طور پر 26 اضلاع کی 77 بلدیاتی نشستوں پر انتخابات شیڈول تھے۔

کراچی کے 8 اضلاع میں 41 بلدیاتی نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے، 4 بلدیاتی نشستوں پر کسی امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے اور 39 نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوئے، ایک نشست پر جی ڈی اے اور ایک پر آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق سندھ کے 18 اضلاع میں 32 بلدیاتی نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی، کراچی میں 10 بلدیاتی اور ایک کنٹونمنٹ بورڈ کی نشست پر انتخابات ہوئے، کراچی میں 4 چیئرمین، 2 وائس چیئرمین اور 4 وارڈ ممبر کی نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی۔

کراچی میں 10 بلدیاتی نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 68 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا اور کنٹونمنٹ بورڈ کی ایک نشست کے لیے بھی پولنگ ہوئی، کراچی کی 10 بلدیاتی نشستوں کے لیے 167 پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے تھے۔

سندھ بھر میں ضمنی بلدیاتی انتخابات کے لیے 157 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس اور 10 کو حساس قرار دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ پولنگ بوتھس کی مجموعی تعداد 618 تھی، 10 بلدیاتی حلقوں میں ووٹرز کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 95 ہزار 491 ہے، ایک لاکھ 57 ہزار 617 مرد اور ایک لاکھ 37 ہزار 874 خواتین ووٹرز ہیں۔

کراچی میں 10 بلدیاتی اور ایک کنٹونمنٹ بورڈ کی نشست پر انتخابات

کراچی میں 10 بلدیاتی اور ایک کنٹونمنٹ بورڈ کی نشست پر انتخابات ہوئے، کراچی میں 4 چیئرمین، 2 وائس چیئرمین اور 4 وارڈ ممبر کی نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی، 10 بلدیاتی نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 68 امیدوار بیلٹ پیپر پر موجود تھے۔

ملیر ٹاؤن یو سی 9 کے چیئرمین کے لیے 5 امیدواراور ابراہیم حیدری ٹائون یو سی 7 وارڈ 4 کے لیے 5 امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا جبکہ لانڈھی ٹاؤن کی یو سی 6 کے وائس چیئرمین کے لیے 8 امیدوار مدمقابل تھے۔

ماڈل کالونی ٹاؤن یو سی 7 کے چیئرمین کے لیے 12 امیدوار میدان میں تھے، کورنگی ٹاؤن یو سی 7 کے وارڈ ایک پر 7 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ صدر ٹاؤن کی یو سی 13 کے چیئرمین کے لیے 7 امیدوار مدمقابل تھے۔

منگھوپیر ٹاؤن کی یو سی 5 کے وارڈ 4 پر 5 امیدوار بیلٹ پیپر پر موجود تھے۔ گلبرگ ٹاؤن یو سی 5 کے وائس چیئرمین کے لیے 6 امیدوار میدان میں تھے، لیاقت ٹاؤن یو سی 7 کے چیئرمین کے لیے 8 امیدوار مدمقابل تھے، بلدیہ ٹاؤن کی یو سی 10 کے وارڈ 4 میں 5 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔

ضمنی انتخابات کی وجہ سے یوسی 13 ضلع ساؤتھ میں چھٹی کا اعلان کیا گیا تھااورڈپٹی کمشنر ضلع ساؤتھ نے چھٹی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا تھا جبکہ الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کے لیے سیکیورٹی انتظامات اور دیگر تیاریاں مکمل کرلی تھیں اور انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے تھے۔

انتہائی حساس پولنگ اسٹیشن پر 16 سے 18 اہلکار تعینات کرنے کے احکامات صادر کیے گئے تھے، حساس پولنگ اسٹیشنوں پر 8 سے 12 پولیس اہلکار تعینات اور دیگر پولنگ اسٹیشنز پر پولیس اور رینجرز کی نفری تعینات کرنے کی حکمت عملی بنائی گئی تھی۔

Load Next Story