موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا اثر دنیا بھر کے مختلف خطوں پر پڑ رہا ہے، اور پاکستان بھی اس سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا مطلب ہے کہ زمین کی فطری موسمی حالتوں میں تیز رفتار تبدیلیاں آنا، جیسے درجہ حرارت میں اضافہ، طوفانوں کی شدت میں اضافہ، بارشوں کی غیر متوقع نوعیت، اور دیگر موسمی حالات میں بے ترتیبی وغیرہ۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید متاثر ہورہا ہے، جو اس کے زراعت، معیشت، اور عوامی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔
پاکستان میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کا اثر نہ صرف انسانی صحت بلکہ فصلوں کی پیداوار پر بھی پڑ رہا ہے۔ گرمی کی لہریں زیادہ شدت اختیار کررہی ہیں، جس سے صحت کے مسائل جیسے ہیٹ اسٹروک، پانی کی کمی اور فصلوں کی تباہی جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں سیلابوں کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ مون سون کی بارشیں غیر متوقع طور پر زیادہ ہورہی ہیں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر سیلاب آرہے ہیں۔ 2010 کا سیلاب اس کی ایک مثال ہے، جس میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور ملک بھر میں زرعی اراضی تباہ ہوگئی۔
پاکستان کا بیشتر حصہ خشک یا نیم خشک ہے، اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے پانی کی کمی اور خشک سالی کا سامنا بڑھتا جارہا ہے۔ خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں زرعی پیداوار کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، اور کسانوں کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں، جیسے غیر معمولی درجہ حرارت اور غیر متوقع بارشیں، زرعی پیداوار پر منفی اثرات ڈال رہی ہیں۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زراعت پر انحصار کرتا ہے، اور جب فصلوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے تو اس سے نہ صرف کسانوں کی حالت زار خراب ہوتی ہے بلکہ معیشت پر بھی بوجھ پڑتا ہے۔ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کےلیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کےلیے پالیسی تشکیل دی ہے اور عالمی سطح پر موسمیاتی فنڈز کے حصول کےلیے بھی کوششیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ، مختلف منصوبوں کے ذریعے جنگلات کی افزائش، پانی کی بچت کے اقدامات، اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دیا جارہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پاکستان کےلیے ایک سنگین چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنے کےلیے عالمی سطح پر تعاون اور ملک میں پائیدار ترقی کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت، عوام، اور بین الاقوامی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جاسکے اور پاکستان کی مستقبل کی نسلوں کےلیے ایک محفوظ اور پائیدار ماحول فراہم کیا جاسکے۔ اس گمبھیر مسئلے کے تدارک کےلیے ’’کانفرنس آف پارٹیز‘ کوپ 29 آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں جاری ہے۔ اس کانفرنس میں 80 سے زائد ممالک کے سربراہان شریک ہیں۔ ہمارے وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار بھی موجود ہیں۔
نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے اور 2022 کے سیلاب نے جی ڈی پی میں 4 فیصد کمی اور 30 ارب ڈالر سے زائد نقصان پہنچایا۔ انہوں نے موسمیاتی بحران سے نمٹنے کےلیے سستی اور قابل رسائی موسمیاتی فنانس کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ موسمیاتی فنانس کا بڑا حصہ ترقی یافتہ ممالک میں رہتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک کو زیادہ سود کی شرح کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں اصلاحات، مقامی کرنسی میں قرضوں کے اجرا اور کرنسی سویپ جیسے اقدامات کو فروغ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کلائمیٹ ریسپانسیو سرمایہ کاری پر سالانہ پبلک سیکٹر پروگرام کا 20 فیصد خرچ کرتا ہے اور عالمی برادری کے ساتھ موسمیاتی اقدامات کےلیے تعاون بڑھانے کےلیے تیار ہے۔ انہوں نے پاکستان کی قومی موسمیاتی مالیاتی حکمت عملی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس کا مقصد موسمیاتی مالیات کو مؤثر طور پر استعمال کرتے ہوئے تخفیف اور موافقت کے اقدامات کو فروغ دینا ہے۔
باکو میں جاری کوپ 29 کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف نے بھی پاکستان کا مقدمہ لڑتے ہوئے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوا اور ہورہا ہے۔ پاکستان کی میزبانی میں کلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔ کوپ-29 سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ترقی پذیر ممالک کو 2030 تک 6 ہزار ارب ڈالر کی ضرورت ہے، ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلیے آگے آنا ہوگا۔ برسوں سے کیے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود بڑے پیمانے پر فرق بڑھتا جارہا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ماضی قریب میں دو تباہ کن سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان اب تک سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے نہیں نکل سکا ہے۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کےلیے اقوام متحدہ کے فریم ورک پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں کو یو این فریم ورک کے مطابق فنڈز مختص کرنا ہوں گے۔
کوپ سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے اپنے خطاب میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلیے فنڈنگ پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو انسانیت کو قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ہم گلوبل وارمنگ (عالمی درجہ حرارت میں اوسط اضافے) کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کے ہدف کے حصول کے حتمی مرحلے میں ہیں۔ انہوں نے جی 20 ممالک سے قائدانہ کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فوسل فیولز کو دگنا کرنا مضحکہ خیز ہے۔ انتونیو گوتیریس نے کہا کہ اس کانفرنس میں موسمیاتی فنڈنگ کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو گرا دینا چاہیے۔ کانفرنس دو ہفتے جاری رہے گی۔ یقین کامل ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق انصاف ملے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔