اسلام آباد: پاکستان میں 58 فیصد اسمگل شدہ اور نان ڈیوٹی پیڈ غیرقانونی سگریٹ کی فروخت کا انکشاف ہوا ہے جس کے ساتھ ہی نان ڈیوٹی پیڈ اور اسمگل سگریٹ کی فروخت میں اضافے کے باعث سالانہ ساڑھے 300 ارب روپے کی ٹیکس چوری کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں پلڈاٹ کے اشتراک سے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین اینڈ ریسرچ(آئی پی او آر) کے زیر اہتمام تقریب منعقد ہوئی ۔ تقریب کا آغاز ایڈوائزر پلڈاٹ مامون بلال نے اپنے افتتاحی کلمات سے کیا جبکہ ا نسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینیئن ریسرچ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر طارق جنید نے سگریٹ سیکٹر کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔
تقریب سے خطاب میں وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ اگر سگریٹ سیکٹر سے یہ دو سے تین سو ارب روپے کا اضافی ٹیکس آجائے تو دودھ کے ڈبے اور تنخواہ دار طبقے پر بھی عائد کردہ اضافی ٹیکس واپس ہوجائے گا وزیر اعظم شہباز شریف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا بوجھ کم کرنا چاہتے ہیں، مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک محدود ہو چکی ہے، رواں مالی سال 35 سو ارب روپے کے ٹیکسز لگائے گئے، گزشتہ 70 سال سے قائم سسٹم کے تحت ملک نہیں چل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ 18 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا جسے کنٹرول کیا گیا، ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالنے کیلئے آمدن میں اضافہ اور ٹیکس چوری روکنا ہوگی، ہم اقدامات کررہے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ثابت ہو، گزشتہ ادوار میں ڈالر کی قلت کے باعث یومیہ ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھاوٴ ہوتا رہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف بی آر نے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو نافذ کرنے میں انتھک محنت کی ہے، ایف بی آر کو ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے ٹیکس چوروں کو پکڑنا ہوگا، ایف بی آر انفورسمنٹ بہتر بنانے کیلئے وسائل فراہمی کی سمری منظور کی گئی ہے۔
ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ظہیر قریشی نے کہا کہ سگریٹ سیکٹر پر انفورسمنٹ موثر بنانے کیلئے جلد صوبائی لاء انفورسمنٹ اداروں اور پولیس کو بھی کارروائی کے اختیارات دیئے جارہے ہیں جس کیلئے جلد قانون آجائے گا، آزاد جموں و کشمیر میں سگریٹ فیکٹریوں پر ٹریک اینڈ ٹریس لگانے سے متعلق ایف بی آر کا اے جے کے اتھارٹیز کے ساتھ معاہدہ ہوچکا ہے لیکن آزاد جموں و کشمیر میں ہی کسی ٹیکس دہندہ نے عدالت سے حکم امتناعی لے رکھا ہے جس کی وجہ سے اسے لاگو نہیں کیا جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ آئی پی او آر کی ریسرچ رپورٹ پالیسی سازی کے لیے معاون ثابت ہوگی حکومت سگریٹ سیکٹر میں ٹیکس چوری روکنے کیلئے بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 264 برانڈز ہیں جبکہ ایف بی آر کے پاس 154 برانڈ رجسٹرڈ ہیں اور ان سگریٹ ساز کمپنیوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لاگو ہیں، جن پانچ کمپنیوں نے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لاگو نہیں کیا تھا ان کمپنیوں کو سیل کردیا گیا تھا جو کہ ابھی تک سیل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم انیس بیس سال سے لاگو کرنے کی کوششیں کررہے تھے بالآخر 2021ء میں یہ سسٹم لاگو کردیا گیا، سگریٹ سیکٹر کے بعد فرٹیلائزر، شوگر اور سمینٹ سمیت چار مزید شعبوں میں بھی نافذ کردیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں سگریٹ فروخت کرنے کے ساڑھے سات لاکھ آؤٹ لیٹس ہیں لہذا ان کی مانیٹرنگ اور چیکنگ کیلئے بھاری افرادی قوت بھرتی نہیں کی جاسکتی البتہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان کی مانیٹرنگ کی جاسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ڈیجیٹائزیشن کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جعلی سگریٹ مینوفیکچرنگ پر قابو پالیا گیا ہے جس کا اظہار آئی پی او آر کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے جہاں تک اسمگلنگ کا تعلق ہے اور نان ڈیوٹی پیڈ سگریٹ کا تعلق ہے تو ان کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں جلد قانون لایا جارہا ہے جس میں اسمگل شدہ و نان ڈیوٹی پیڈ سگریٹ فروخت کرنے والے آوٹ لیٹس سیل کرنے اور ان پر بھاری جرمانے عائد کرنے کے اختیارات دیئے جارہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی اتھارٹیز و ایجنسیوں کو بھی کاروائی کے اختیارات دیئے جارہے ہیں جس کے تحت ملک بھر میں پولیس اسٹیشنز بھی اسمگل شدہ و نان ڈیوٹی پیڈ سگریٹ بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کرسکیں گے اور توقع ہے کہ اکتیس دسمبر تک یہ قانون لاگو ہوجائیں گے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینیئن ریسرچ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر طارق جنید نے ریسرچ رپورٹ پیش کی جس کے مطابق ملک بھر میں فروخت ہونے والے 264 برانڈز میں سے صرف 19 برانڈز پر ٹریک اینڈ ٹریس مہر لگی ہے، 245 سگریٹ برانڈز پر ٹریک اینڈ ٹریس اسٹمپ نہیں ہے، مقامی طور پر تیار شدہ سگریٹ کا شیئر 65 فیصد، آئی پی او آر غیر قانونی طور پر اسمگلڈ سگریٹ کا شیئر 35 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک سگریٹ کا پیکٹ کم از کم 80 روپے میں فروخت ہورہا ہے، 197 برانڈز کا سگریٹ کم از کم قیمت سے نیچے فروخت ہورہا ہے، 166 اسمگلڈ سگریٹ کے برانڈز مارکیٹ میں فروخت ہورہے ہیں تمباکو کے شعبے میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر عمل درآمد کرنے کی کوششیں 2021 میں تین دیگر شعبوں کے ساتھ شروع ہوئیں جن میں سیمنٹ، کھاد اور چینی کے شعبے شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق جولائی 2022ء سے ٹریک اینڈ ٹریس کی مہر کے بغیر سگریٹ کا پیک فروخت کرنا غیر قانونی ہے تاہم حتمی تاریخ گزرنے کے بعد سیاس سسٹم پر عمل درآمد صرف ایک خواب ہی رہا ہے، آئی پی او آر نے پنجاب اور سندھ کے 11 شہروں میں مارکیٹ پر تحقیق کی جس میں 18 مارکیٹوں میں 40 پرچون فروشوں (retailers) کی دکانوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جس میں کل 720 دکانیں شامل تھیں،اس تحقیق کے دو مقاصد تھے؛ فروخت کے وقت ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر عمل درآمد کی صورت حال کا پتا لگانا اور سگریٹ کے لیے کم از کم طے شدہ قانونی قیمت(ایم ایل پی) پر عمل درآمد کا جائزہ لینا جو ایف بی آر کی طرف سے لازمی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سروے کیے گئے 264 سگریٹ برانڈ میں سے صرف 19 برانڈ نے اس سسٹم کے مطلوبہ تقاضوں پر پوری طرح عمل کیا جو کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی مہر کے استعمال کو لازمی قرار دیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عمل درآمد نہ کرنے والے برانڈ مارکیٹ کے 58 فیصد حصے پر مشتمل ہیں، جن میں مقامی طور پر تیار کردہ ڈیوٹی ادا نہ کرنے والے (ڈی این پی) برانڈ 65 فیصد ہیں جبکہ اسمگل شدہ برانڈ 35 فیصد ہیں جو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی مہر کی غیر موجودگی سے لے کر قیمتوں یا صحت سے متعلق انتباہ کے ضوابط پر عمل درآمد نہیں کرتے ہیں علاوہ ازیں 197 برانڈ کم از کم طے شدہ قانونی قیمت سے کم جبکہ 48 برانڈ اس طے شدہ قیمت سے زیادہ قیمت پر فروخت کرتے پائے گئے۔
مزید یہ کہ وہ دیگر طے شدہ قانونی تقاضوں پر بھی عمل درآمد نہیں کر رہے تھے۔ 19 برانڈ تمام طے شدہ قانونی تقاضوں کے مطابق عمل درآمد کرتے پائے گئے مگر وہ کم از کم طے شدہ قانونی قیمت سے زیادہ قیمت پر فروخت کر رہے تھے۔
کلیدی مقررین میں ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے پروجیکٹ ڈائریکٹر محمد ظہیر قریشی بھی شامل تھے جنہوں نے اس سسٹم کے نفاذ کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بتایا۔ تقریب کی صدارت علی پرویز ملک، رکن قومی اسمبلی اور وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات نے کی جنہوں نے تمام شعبوں میں اس سسٹم پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کے عزم پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مذکورہ سسٹم کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بہتر ریگولیٹری اقدامات کی ضرورت ہے، اس سسٹم پر عمل درآمد کو بڑھانے کے لیے دی گئی سفارشات میں تجویز کیا گیا ہے کہ عدم تعمیل والے برانڈ تک رسائی کو روکنے کے لیے پرچون فروشوں کی سطح پر نفاذ کو مضبوط بنایا جائے جبکہ خلاف ورزیوں کے لیے سزاوٴں میں اضافہ کیا جائے صارفین کو تعمیل شدہ مصنوعات کی خریداری کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے عوامی آگاہی کی مہمات کا آغاز کیا جائے۔