اسموگ کے پیش نظر توانائی کے نئے ذرائع سےچلنے والی گاڑیوں کے فروغ کا فیصلہ

وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر نیوانرجی وہیکلز پالیسی 30-2025 کا ابتدائی مسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے

نیو انرجی وہیکلز پالیسی سے پاکستان کو اہداف کے حصول میں مدد ملے گی—فوٹو: ایکسپریس

کراچی:

پاکستان کے بڑے شہروں میں اسموگ اور فضائی آلودگی کی صورت حال کے پیش نظر توانائی کے نئے ذرائع سے چلنے والی گاڑیوں کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر نیو انرجی وہیکلز پالیسی 30-2025 کا ابتدائی مسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے۔

نیو انرجی وہیکلز پالیسی 30-2025 کے ابتدائی مسودے میں قلیل، وسط اور طویل مدتی اقدامات کی سفارشات شامل ہیں، جن کے تحت پاکستان میں نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار کے لیے سرمایہ کاری پر مراعات اور سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اہم پرزہ جات پر درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکس میں چھوٹ، گرین فنانسنگ، اراضی اور یوٹلیٹیز کی فراہمی اور دیگر سہولتیں شامل ہیں۔

وزارت صنعت و پیداوار کے ذرائع کے مطابق ابتدائی مسودہ کابینہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے بعد وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم کی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

مذکورہ مسودے پر تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے، جن میں اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، ایف بی آر سمیت متعلقہ وزارتیں اور محکمے شامل ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ نیو انرجی وہیکلز پالیسی پاکستان کے ماحول کے تحفظ کے عالمی وعدوں سے ہم آہنگ ہوگی، پاکستان نے نیو انرجی وہیکلز کے ذریعے ماحول کے تحفظ اور ایندھن کی بچت کا فیصلہ کرلیا ہے اور تین مراحل پر مشتمل نیو انرجی وہیکل پالیسی کے خدوخال اور اہداف طے کرلیے  گئے ہیں۔

پالیسی کے مطابق 2030 تک نیو انرجی وہیکلز کا تناسب 30 فیصد، 2040 تک 90 فیصد پر لایا جائے گا، 2050 تک پاکستان میں 100 فیصد گاڑیاں توانائی کے نئے ذرائع پر چلیں گی۔

اسی طرح 2060 تک گاڑیوں سے دھوئیں کا اخراج 100 فیصد کم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے اور الیکٹرک وہیکلز، پلگ ان ہائبرڈ، ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیوں کو فروغ دیا جائے گا۔

نیو انرجی وہیکلز پالیسی 30-2025 کے تحت خصوصی مراعات کی تجاویز زیر غور ہیں، جن میں اسپیشل ٹیکنالوجی زونز میں نیو الیکٹرک وہیکلز ٹیکنالوجیز کے لیے 20 فیصد کوٹہ، اسپیشل ٹیکنالوجی زونز میں ترجیحی رسائی 20 فیصد رعایتی لاگت پر دی جائے گی۔

بہتر کارکردگی دکھانے والے یونٹس کے لیے مراعات میں 5 سال تک کی تجدید کی تجویزبھی شامل کی گئی ہے۔

نیو انرجی وہیکلز کی پیداوار کے لیے زمین مؤخر ادائیگی پر ملے گی، چھوٹے منصوبوں کو 30 سال اور 3 ارب روپے کے منصوبوں کے لیے 50 سال لیز پر اراضی ملے گی۔

پالیسی میں نیو انرجی وہیکلز مینوفیکچرنگ کے لیے گرین فنانسنگ کی اسکیم کی تجویز بھی شامل ہے، نیو انرجی وہیکلز سرمایہ کاروں کو پبلک لمیٹڈ بنانے کے لیے فاسٹ ٹریک سہولت کی تجویزبھی مسودے کا حصہ ہے۔

نیو انرجی وہیکلز کے لیے اہم پرزہ جات اور کمپونیٹس کی درآمد پر ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں کمی یا چھوٹ کی تجویز بھی پالیسی مسودے کا حصہ ہے تاہم یہ تمام مراعات کارکردگی اور اراضی کی فراہمی کے بعد اندرون تین سال پیداوار شروع کرنے سے مشروط ہوں گی۔

تین سال میں پیداوار شروع کرنے کی صورت میں اراضی کی خریداری اور منتقلی پر اسٹامپ ڈیوٹی اور ٹیکسز بھی واپس کردیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہے کیونکہ سالانہ 200 ملین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ٹرانسپورٹ سیکٹر سے خارج ہوتی ہے۔

ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائڈ کا تناسب 43 فیصد ہے اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں ٹرانسپورٹ کا حصہ 30 فیصد ہے۔

نیو انرجی وہیکلز پالیسی کے ذریعے 2060 تک پاکستان میں گاڑیوں سے کاربن اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو 100فیصد ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

نئی پالیسی الیکٹرک وہیکلز، ہائی برڈ الیکٹر وہیکلز، فیول سیل الیکٹرک وہیکلز کو فروغ دے گی۔

روایتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیاں ماحول، انسانی صحت اور معیشت پر بھی بوجھ ہیں، روایتی گاڑیوں کے چلتے رہنے سے 2060 تک آئل امپورٹ بل 64 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

نیو انرجی وہیکلز پالیسی کے تسلسل سے 2060 تک ایندھن کی امپورٹ ختم ہوسکتی ہے۔

پاکستان کو نیو انرجی وہیکلز پالیسی سے پیرس ایگری منٹ کے تحت 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ  سمیت مضر گیسز کے اخراج میں 50 فیصد کمی لانے کے ہدف کی تکمیل میں مدد ملے گی۔

Load Next Story