اس پُرفتن دور میں ہمارا معاشرہ بہت سارے مسائل کا شکار ہے، ان میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ اہلِ معاشرہ میں محبت و ہم آہنگی اور اتفاق کا فقدان، ایک دوسرے سے نفرت، عصبیت، حسد، بغض کا بڑھ جانا ہے۔
حالاں کہ اگر دیکھا جائے تو اﷲ رب العزت نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ صلۂ رحمی، عفو و درگزر کرنے اور آپس میں بھائی چارگی کی تعلیم دی ہے اور ان پر انعامات کا وعدہ فرمایا ہے۔ مسلمان تو مسلمان! دینِ اسلام میں تو ذمیوں کے حقوق کی بھی رعایت رکھی گئی ہے، رسول اﷲ ﷺ نے اپنے اقوال و افعال کے ذریعہ صلۂ رحمی کی اہمیت و ضرورت کو بیان فرمایا ہے۔
صلۂ رحمی کا معنی و مفہوم:
صلۂ رحمی کا مطلب ہے: اپنے نسبی عزیزوں اور رشتے دارو ں سے اچھا سلوک کرنا، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، ان کے احوال کی رعایت کرنا۔ نسبی رشتہ دار سے مراد وہ ہے جو آپ کا پیدائشی رشتہ دار ہو، چاہے وہ والد کی طرف سے ہو یا والدہ کی طرف سے ہو، قریب کا ہو یا دُور کا ہو۔
صلۂ رحمی اور ارشادِ باری تعالیٰ:
اﷲ رب العزت کے فرمانِ گرامی کا مفہوم ہے کہ تم لوگوں کے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اﷲ سے اور روزِ آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکرِ الٰہی کرتا ہو، اس کے لیے رسول اﷲ ﷺ کی زندگی کا ایک عمدہ نمونہ موجود ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اﷲ رب العزت نے تمام احکامات پر چاہے ان کا تعلق بدن سے ہو، مال سے ہو، عمل کرنے کے ایک مشکل ترین مسئلے کا حل بتلا کر تمام مشکلات آسان فرما کر امت کو ایک بہترین مرجع عطا فرما دیا۔ اُمتِ مسلمہ کو اپنے اعمال پرکھنے کے لیے ایک کسوٹی مہیا کردی کہ ہر عمل رسول اﷲ ﷺ کے طریقوں پر ہو، اور اسی میں دونوں جہاں کی کام یابی کا راز مضمر ہے۔
صلۂ رحمی کی اہمیت اور رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات:
جب ضرورت پڑتی گئی جناب رسول اﷲ ﷺ اپنی امت کو منشاء خداوندی کے مطابق مختلف تعلیمات سے آشنا کرتے گئے، یہ تعلیمات کبھی آپ ﷺ نے اپنے اقوالِ مبارکہ کے ذریعہ دی تو کبھی ان اقوالِ مبارکہ کو اپنے افعالِ مبارکہ کے سانچے میں ڈھال کر امت کے سامنے پیش کرکے ان کی آنے والی مشکلات کو آسان فرمایا، چناں چہ بہت سی احادیث مبارکہ جن میں رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امت کو صلۂ رحمی کی تعلیم دی، کبھی تو یہ تعلیمات آپ ﷺ نے صلۂ رحمی کی اہمیت اجاگر کرکے دیں، تو کبھی صلۂ رحمی اور دینِ اسلام کے درمیان ایک مضبوط تعلق بتلا کر دیں، تو کبھی بہ ذاتِ خود اپنے قریبی رشتے داروں کی خدمت کرکے ان تعلیمات سے ہمیں رُوشناس کیا۔ ام المومینین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا، رسول اﷲ ﷺ سے روایت فرماتی ہیں، مفہوم : ’’رحم یعنی رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ جس نے مجھے جوڑ دیا، اﷲ رب العزت اس کو جوڑ دے گا، اور جس نے مجھے توڑ دیا اﷲ رب العزت اسے توڑ دے گا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ میں رسول اﷲ ﷺ نے صلۂ رحمی کی اہمیت کے ساتھ صلۂ رحمی اور دینِ اسلام کا آپس میں ایک گہرے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلۂ رحمی کی عظمت، اس کے جوڑنے والے کی عظمت، اور اس کے توڑنے والے کو اس کے وبال کے مستحق ہونے کی خبر دی ہے۔
اسی طرح رسول اﷲ ﷺ کی ایک فعلی حدیث ہے جس کے راوی حضرت ابوالطفیل رضی اﷲ عنہ ہیں، وہ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’میں نے جعرانہ میں نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ رسول اﷲ ﷺ گوشت تقسیم فرما رہے تھے کہ اچانک ایک عورت آئیں، یہاں تک کہ وہ رسول اﷲ ﷺ کے قریب پہنچی تو آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک ان کے لیے بچھا دی، سو وہ اس پر بیٹھ گئیں، میں نے پوچھا کہ یہ عورت کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ رسول اﷲ ﷺ کی وہ ماں ہے، جنہوں نے آپ کو دودھ پلایا تھا۔‘‘
صلۂ رحمی کے ثمرات رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کے تناظر میں:
ذخیرۂ احادیث میں رسول اﷲ ﷺ نے صلۂ رحمی کے فائدے بتلاتے ہوئے کہیں تو اس کو رزق کی فراخی کا سبب، کہیں عمر دراز ہونے کا ذریعہ، کہیں رشتہ دارو ں کی باہمی محبتوں کی زیادتی کا سبب، کبھی رحمتوں کے نزول کا وسیلہ، کہیں جہنم جیسے عذاب سے خلاصی کا ذریعہ، یہاں تک کہ جنت جیسی عظیم نعمت کے حصول کا سبب قرار دیا ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی اور عمر میں برکت ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔‘‘
اسی طرح ایک دوسری روایت میں جناب رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں، مفہوم:
’’تم اپنے انساب میں سے اتنا سیکھو کہ جس کے ذریعہ تم اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرسکو، بے شک! قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا باہمی محبت کا سبب، کثرتِ مال کا ذریعہ اور درازیِ عمر کا باعث بنتا ہے۔‘‘
چناں چہ رسول اﷲ ﷺ صلۂ رحمی کو بارانِ رحمت کا سبب بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں ، مفہوم: ’’اس قوم پر رحمت نہیں اترتی جس میں قطع رحمی کرنے والا ہو۔‘‘
اس حدیث مبارک میں رسول اﷲ ﷺ صلۂ رحمی کی اہمیت بتلانے کے ساتھ یہ خبر بھی دے رہے ہیں کہ تم میں سے جو رب ذوالجلال کی رحمت کا متقاضی ہو، اسے چاہیے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، یہاں تک کہ ایک روایت میں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
اس حدیث میں رسول اﷲ ﷺ قطع رحمی کرنے والے کی دخولِ جنت سے نفی فرما کر جنت کے حصول کا سبب بھی اسی کو قرار دے رہے ہیں۔ پس یہ تمام احادیث جو ہم نے ماقبل میں ذکر کیں اہلِ معاشرہ کو اخوت، بھائی چارگی، باہمی محبت اور اتفاق و اتحاد کا درس دے رہی ہیں اور ایک بہترین معاشرہ فراہم کرنے کے اصولوں کی نشان دہی کر رہی ہیں۔
جب کہ آج ہمارا معاشرہ رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے دن بہ دن تنزلی کی طرف گام زن ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج انتہائی قریبی رشتے دار معمولی اور چھوٹی باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بند کردیتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے سے اپنے حقوق کا تقاضا کرتے ہوئے علاحدگی کی راہ اختیار کر لیتے ہیں، یہاں تک کہ سگے بھائی میراث کی تقسیم میں ادنیٰ سے اختلاف پر قتل و قتال کے لیے کمر بستہ ہوجاتے ہیں، پس لامحالہ نتیجا یہ نکلتا ہے کہ طلاق کی شرح روز بہ روز بڑھتی چلی جاتی ہے، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا چلا جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک اچھا بھلا معاشرہ تباہی کے آخری درجے پر پہنچ جاتا ہے۔
اگر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور رسول اﷲ ﷺ کی بتلائی ہوئی ان تعلیمات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے اور ان تعلیمات کو اہلِ معاشرہ میں عام کیا جائے اور اس کی تعلیم سے ان کے سینوں کو مزین کرنے کے ساتھ ان اصولوں کو جو رسول اﷲ ﷺ کے ذخیرۂ احادیث میں ہمیں ملتے ہیں، ان کو اصلاحِ معاشرہ کے لیے بہ روئے کار لایا جائے، تاکہ معاشرے میں روز مرہ کی بنیاد پر پیش آنے والے نِت نئے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے اور اس طرح ہمارا معاشرہ جنت نظیر بن سکے۔