مشرق وسطیٰ میں امن کیسے واپس لایا جائے؟
اسرائیلی فورسز کے غزہ میں مسجد پر بمباری کے نتیجے میں ستائیس فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے، لبنانی صوبے ماؤنٹ میں اسرائیل کے بڑے فضائی حملے میں سات بچوں سمیت 23 شہری لقمہ اجل بن گئے جب کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی عبوری سربراہ نے غزہ میں جاری بربریت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سنگین ترین بین الاقوامی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے حملے کی صورت میں اسرائیل، ایران کی تیل کی تنصیبات پر حملے کرسکتا ہے۔
درحقیقت اسرائیل توسیع پسندانہ عزائم اور خطے میں کئی ممالک کے ساتھ بیک وقت جاری محاذ آرائی اور سیاسی حل کی کوششوں کے فقدان سے مشرق وسطیٰ کے افق پر سیاہ بادل چھا گئے ہیں۔ اسرائیل مسلسل مقبوضہ اور متنازع عرب علاقوں پر قبضے کر کے ریاست کو توسیع دے رہا ہے جس کے نتیجے میں دو ریاستی حل کی مساعی مزید مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔ خطے میں موجودہ مخاصمت کے خاتمے کا دار و مدار بنیادی طور پر اسرائیلی حکومت پر ہے، جو فلسطینی غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری کر رہا ہے اور ان کی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے کی مکمل ناکہ بندی کرکے پانی، خوراک، ادویات کی سپلائی کو بند کرچکا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے مسلسل تیرہ ماہ سے فضائی اور بحری حملوں کے ذریعے مسلسل بارود برسایا جا رہا ہے، جب کہ اس کی بھاری اور وسیع تر ذمے داری اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور ان کے اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے، جو نہ صرف جاری قبضے، حملوں اور دیگر اقدامات کی حمایت اور توثیق کرتے ہیں بلکہ آج بھی ’’اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق‘‘ کے نام پر جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے اور منافقانہ رویہ اپناتے ہیں، جب کہ فلسطینی عوام کے ایسے کسی بھی حق کو سراسر نظر انداز کرتے ہیں۔
فلسطینی عوام کا اپنے گھروں کو باعزت واپسی کا حق بین الاقوامی قانون میں درج ہے اور یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے، جس کی کسی بھی مہذب قوم کو حمایت اور بلا خوف مطالبہ کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس چونکہ جنگ میں ہمیشہ پروپیگنڈا کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے، اس لیے فلسطینیوں کو بدنام کرنے اور دہشت گرد ثابت کرنے کی عالمی سامراجی کوششوں کا بہت عمل دخل ہے۔ جب تشدد اور جھوٹے پروپیگنڈے کی انتہا ہوجائے تو امتیازی سلوک اور بھی سنگین شکل اختیار کر جاتا ہے۔
فلسطینی عوام کے شہری اور انسانی حقوق کو ایک ایسی حکومت نے چھین رکھا ہے، جو اپنی تازہ ترین شکل میں اور بھی انتہا پسند اور متعصب بن چکی ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک تو درکنار، انھیں تو انسان ہی تصور نہیں کیا جاتا۔ اس لیے اس ظلم اور جھوٹ کا صحیح جواب ظالموں کے لیے پابندیاں اور مظلوموں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے مسلسل دباؤ ہوگا۔ متحرک فریقین کے درمیان مذاکرات کی بحالی پر وقت کی اہم ضرورت ہے، اگر موجودہ پالیسی جوں کی توں جاری رہی تو اس کے نتیجے میں حالات مزید پیچیدہ ہوجائیں گے۔
اگرچہ بات مذمت، مطالبات اور بیانات سے آگے نہیں بڑھی لیکن 11 نومبر کو سعودی عرب کی میزبانی میں ریاض کی عرب مسلم سربراہی کانفرنس کئی چونکا دینے والے پہلو لائی ہے جن میں سب سے بڑا اور اہم معاملہ اسرائیل کے لیے سعودی عرب کی بظاہر تبدیل ہوتی پالیسی ہے۔کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی سابقہ اعلامیوں سے مختلف اور سخت ہے۔ مطالبہ کیا گیا ہے کہ عالمی دنیا اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت روکے۔ لبنان میں فوری جنگ بندی کی جائے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی سے مکمل دستبردار ہو۔ تمام گزر گاہیں کھولی جائیں اور انسانی امداد کی رسائی تیز رفتار‘ محفوظ اور یقینی بنائی جائے۔
یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ عرب اور مسلم ممالک کے سربراہان اسرائیل کے معاملے میں شدید دہرے دباؤ کا شکار ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام کی اسرائیل سے نفرت اور مسلسل احتجاج داخلی پہلو ہے جسے ایک حد سے زیادہ دبایا نہیں جا سکتا۔ حکومتیں، بالخصوص بادشاہتیں عرب بہار کی تحریک کے زمانے سے خود کو مسلسل خطرے میں سمجھتی رہی ہیں۔ لیبیا، عراق، شام وغیرہ کا جو حشر کیا گیا وہ ان کے سامنے ہے۔
ان میں سب سے بڑا دباؤ امریکا، بالخصوص جوبائیڈن حکومت کاہے‘ جو اسرائیل کی نہ صرف سرپرست اعلیٰ ہے بلکہ اسرائیل کے ہر اقدام کی کھلی حامی بھی۔ اسرائیل کا خوف اور امریکا کی ناراضی کا خوف، اصل میں دونوں ایک تھے۔ انھی دونوں عوامل نے عرب ممالک کو مائل کیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات شروع کریں جو بالآخر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر منتج ہوں۔
یہ مذاکرات پسِ پردہ چلتے رہے اور کسی حتمی مرحلے پر پہنچنے کو تھے کہ سات اکتوبر 2023 کو حماس کی کارروائی نے انھیں ختم کرکے رکھ دیا۔ یہ حماس کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے نہ صرف فلسطینیوں کا معاملہ دنیا میں پھر سرفہرست رکھ دیا بلکہ مسلم ممالک کو اپنے نرم رویوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ مسلم سربراہوں کے لیے ممکن نہ رہا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات بنا سکیں۔ جوبائیڈن کے پورے دور میں مسلم ممالک اسرائیل کے لیے سخت پالیسی بنانے سے گریزاں رہے لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس پہنچنے کو ہیں، عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کو توقع ہے کہ نئی انتظامیہ اسرائیلی معاملات پر نظرثانی کر سکتی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ اور محمد بن سلمان کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں اور باوجود یہ کہ سابقہ دور میں ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر لیا تھا، عرب ملکوں کو توقع ہے کہ وہ بنیادی پالیسی میں ٹرمپ انتظامیہ سے کچھ تبدیلیاں کرا سکیں گے۔ اسی لیے یہ کانفرنس اس وقت منعقد ہوئی ہے جب ٹرمپ اپنی ٹیم تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ بلکہ یہ کانفرنس منعقد ہی اس لیے ہوئی کہ آنے والی امریکی انتظامیہ کو ان ممالک کا رخ دکھا کر پالیسی مرتب کرائی جا سکے۔
ایک بات جو عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نے کہی وہ غور طلب ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ دو ریاستی فارمولے کے سوا کوئی حل نہیں ہے جس میں فلسطینی ریاست مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل ہو‘ جو 1967ء کی حد بندی پر مبنی ہو اور مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہو۔‘‘ یہ دو ریاستی فارمولا بہت مدت سے زیر بحث ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اسرائیل اسے ماننے سے انکاری ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے ماننے کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہو گا کہ عرب اور مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں، جو بہت بڑا مسئلہ ہے۔
مسلم ممالک کا بنیادی موقف یہی رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا، لیکن اب اگر عرب ممالک اس کی بات کر رہے ہیں تو کیا وہ اپنے بنیادی موقف سے دستبردار ہو رہے ہیں؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چار و ناچار اسرائیل کو تسلیم کر لینے پر کتنے مسلم ملک راضی ہوں گے۔ مثلاً ایران؟ اور کیا مسلم ممالک میں اس موقف پر اتفاقِ رائے پیدا ہو سکے گا؟ فرض کر لیں کہ یہ فارمولا سب مان لیتے ہیں تو کیا اس سے عرب اسرائیل جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکے گا؟ کیا اسرائیل جو علی الاعلان عراق، شام، لبنان پر حملے کرتا رہا ہے، ہمسایہ فلسطینی ریاست پر جارحیت سے باز آجائے گا؟ دو ریاستی فارمولا خطے میں مستقل امن کا راستہ ہرگز نہیں ہے لیکن ان سب کے باوجود یہ کانفرنس ایک اہم تبدیلی کا نشان ہے
عالمی سامراج کی پشت پناہی میں کام کرنے والی اسرائیلی حکومتوں نے فلسطینیوں کی ناکہ بندی، ہزاروں فلسطینیوں کو قید خانوں اور ٹارچر سیلز میں ڈالا، سڑکوں پر رکاوٹیں، امتیازی سلوک اور فلسطینی عوام کو ان کی اپنی ریاست کے ناقابل تنسیخ حقوق سے محروم کیا بھی شامل ہے۔
اس لیے یہ توقع رکھنا دانشمندی نہیں ہو گی کہ اس ظلم، جبر، ناانصافی اور قبضے اس خطے میں فلسطینی عوام کے رد عمل کو جنم نہیں دیں گے، وہ بلاشبہ ان وحشیانہ مظالم اور جبر و تشدد کے خلاف مزاحمت کا جائز حق رکھتے ہیں، جو بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے۔ موجودہ اسرائیلی حکومت نے اپنی پیش رو حکومتوں کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اشتعال انگیزی میں مزید اضافہ کیا ہے اور غزہ کی پٹی میں لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیاں بچر خانے اور کھلی جیل کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس خطے میں امن کیسے واپس لایا جائے کیونکہ غزہ کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے خصوصاً جب اسرائیل کی جانب سے خوراک، پانی، ادویات کی فراہمی پر پابندی جیسے سخت ترین اقدامات سامنے آچکے ہیں۔ تمام فریقین کو ایک بڑے انسانی المیے کو ٹالنے کے لیے ہوش کے ناخن لینا ہوں گے کیونکہ وقت تیزی سے سب کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔