وزیر سے محروم محکمہ

مسلم لیگ کی حکومت نے اب تک محکمے کے لیے کسی وزیر کا تقرر نہیں کیا

m_saeedarain@hotmail.com

اپنی گزشتہ حکومتوں میں محکمہ ریلوے کو بہترین وزیر دینے والی موجودہ مسلم لیگ کی حکومت نے اب تک محکمے کے لیے کسی وزیر کا تقرر نہیں کیا اور آٹھ نو ماہ سے ریلوے اپنے وزیر سے محروم ہے جس سے مسافروں کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے اور ٹرینوں میں رش کے باوجود خسارہ دکھایا جا رہا ہے۔

دو سال قبل کی طوفانی اور تباہ کن بارشوں کے نتیجے میں محکمہ ریلوے کو سب سے زیادہ مالی نقصان پہنچا تھا اور ریلوے ٹرین سروس پٹریاں تباہ ہو جانے سے معطل اور بند ہونے جیسی ہو گئی تھیں۔ سندھ میں زیادہ نقصان ہوا تھا اور لاہور اور پشاور سے کراچی و کوئٹہ کے لیے چلنے والی متعدد ٹرینیں بند ہو گئی تھیں جن میں بعض ٹرینیں اب بھی بند ہیں جن کی بحالی کی کوشش ہو رہی تھی کہ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر حالیہ دہشت گردی کی وجہ سے ریلوے کو کوئٹہ اور پشاور و کراچی کے درمیان چلنے والی دو مزید ٹرینیں چار روز کے لیے بند کرنا پڑ گئیں۔

کے پی اور بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہیں جہاں ٹرینوں کو نقصان پہنچانے کے آئے دن واقعات ہو رہے ہیں اور حالت یہ ہے کہ ملک بھر میں کسی ریلوے اسٹیشن پر دہشت گردی روکنے کے لیے کوئی خاص انتظامات نہیں ہیں اور ریلوے اسٹیشنوں پر آنے جانے کے تمام راستے کھلے ہیں، کوئی روک ٹوک یا جانچ پڑتال نہیں ہے، مسافر اللہ کے آسرے پر سفر کر رہے ہیں انھیں کوئی چیک کرنے والا ہے نہ ان کے سامان پر نظر رکھنے والا۔ ریلوے مسافروں کی حفاظت کے لیے ریلوے پولیس اہلکار تو محدود تعداد میں مقرر ہیں مگر وہ مسافروں پر کڑی نظر رکھنے کی بجائے اپنی کمائی کی جگاڑ میں رہتے ہیں یا کنڈیکٹر گارڈ جب بوگیوں میں ٹکٹ چیک کرتے ہیں تو ریلوے پولیس اہلکار ان کے ساتھ نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ وہ ریلوے حکام کی حفاظت کے لیے ہیں تاکہ کوئی مسافر ان سے بحث نہ کر سکے۔

ریلوے میں آن لائن ٹکٹ سسٹم کی وجہ سے مسافروں کو ٹکٹوں کے حصول اور ہر گاڑی میں نشستوں کا تو پتا چلانے میں کچھ سہولت ہوئی ہے مگر بڑے شہروں کے ریلوے اسٹیشنوں پر کاؤنٹر کم اور خالی ہونے کی وجہ سے سفر کرنے والوں کو اب بھی لائنیں بنانا پڑتی ہیں۔ کراچی کینٹ اسٹیشن پر ٹوکن جاری کرنے والی مشین خراب ہی رہتی ہے اور کاؤنٹر تو زیادہ ہوتے ہیں مگر عملہ وہاں کم ہی ہوتا ہے جب کہ کہا جاتا ہے کہ ریلوے میں اسٹاف زیادہ ہے مگر وہ ریلوے کے اندرونی کاموں کے لیے ہوگا مگر مسافروں کو سہولت دینے کے لیے کم ہی ہوتا ہے اور خالی کاؤنٹر مسافروں کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں اور مسافر ایک کاؤنٹر سے دوسرے کاؤنٹر پر جا کر معلومات حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور جو کاؤنٹر بزرگوں اور خواتین کے لیے مختص ہیں وہاں جوانوں کو بھی ٹکٹ جاری ہوتے رہتے ہیں اور بزرگوں اور خواتین کے مخصوص کاؤنٹر کی یہ سہولت برائے نام رہ گئی ہے۔ دن کے رش میں بھی ریلوے کاؤنٹروں پر عملہ پورا نہیں ہوتا اور وہاں رش ہی نظر آتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر ریلوے غلام احمد بلور اور پی ٹی آئی حکومت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور جتنے ان اداروں کی تباہی کے ذمے دار ہیں اس طرح تباہ حال ریلوے کو بحال کرنے میں مسلم لیگ (ن) دور کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق مشہور ہیں مگر نہ جانے وزیر اعظم نے محکمہ ریلوے کو وزیر سے محروم رکھا ہوا ہے اور ریلوے صرف افسروں کے بند کمروں میں کیے جانے والے فیصلوں پر چل رہی ہے جن کا مسافروں کو سہولت دینے کا کوئی فیصلہ عوام کے حق میں نہیں ہوتا کیونکہ انھیں ٹرین میں سفر کی خصوصی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ کراچی اور لاہور دو بڑے شہر ہیں جہاں کئی کئی اسٹیشن ہیں۔

ان اسٹیشنوں پر تمام نہیں تو زیادہ ٹرینوں کے اسٹاپ ہونے چاہئیں مگر یہ سہولت بڑھانے کی بجائے کم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے مین اسٹیشنوں تک آنے جانے میں مسافروں کو رکشہ ٹیکسی والوں کو منہ مانگے کرائے دینا پڑتے ہیں اگر کراچی میں لانڈھی اور ڈرگ روڈ اور لاہور میں کوٹ لکھپت اسٹیشنوں پر تمام ٹرینوں کا اسٹاپ ضروری قرار دیا جائے تو ریلوے مسافروں کی پریشانی ختم کی جا سکتی ہے جس سے ان کی رقم اور وقت بچ سکتا ہے مگر محکمہ ریلوے کے افسر مسافروں کو سہولتیں دینے پر یقین ہی نہیں رکھتے اور سہولتیں دینے کا خیال وزیر ہی کو آ سکتا ہے مگر محکمہ ریلوے وزیر کے بغیر چلایا جا رہا ہے۔

حکومت کو ریلوے کو فعال بنانے اور مسافروں کو سہولیات کی فراہمی کے لیے سعد رفیق جیسے وزیر کا تقرر کرنا چاہیے مگر ریلوے میںغیر ذمے دار اعلیٰ افسروں کی بھرمار ہے جنھیں صرف اپنی فکر ہے مسافروں کی حفاظت اور سہولیات کی فراہمی اور اشیائے ضروریہ مناسب نرخوں پر فراہمی پر ان کی نظر ہے نہ مسافروں کی انھیں فکر ہے۔

Load Next Story