سر اٹھاتا گندم بحران
ملک میں سیاسی طلاطم پھر سے سر اٹھا رہا ہے، 2025 کو سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے ،کچھ باخبر حلقے تو آیندہ برس کو نظام کی تبدیلی سے بھی جوڑ رہے ہیں لیکن سب کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور ان کے خاص عقابوں کو آیندہ برس میں بھی کوئی ’’ڈھیل‘‘نہیں ملے گی۔ سال 2025 میں سیاسی تبدیلیاں آئیں گی یا نہیں اس بارے تو وقت بتائے گا لیکن ایک غذائی بحران آتا ضرور دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان کے عوام کی بنیادی خوراک ’’روٹی‘‘ ہے جس کا خام مال ’’گندم‘‘ ہے، رواں برس گندم کی کاشت کے سرکاری اہداف پورے ہونا اگرناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے، گندم کی ملکی مجموعی پیداوار کا65 فیصد سے زیادہ پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔اس مرتبہ گندم کی کاشت کے لیے پنجاب حکومت نے1 کروڑ65 لاکھ ایکڑ رقبے کا ہدف مقرر کیا ہے جب کہ فی ایکڑ 32 من پیداوار کے تناسب سے پیداواری ہدف2 کروڑ11 لاکھ25 ہزار ٹن مقرر کیا گیا ہے۔13 نومبر تک کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ابھی تک پنجاب میں61 لاکھ81 ہزار ایکڑ رقبے پر کاشت ہوئی ہے۔
زرعی ماہرین کے مطابق گندم کی کاشت کے حوالے سے فیصل آباد ڈویژن، ساہیوال ڈویژن، ملتان ڈویژن اور بہاولپور ڈویژن حکومتی امیدوں کے لیے چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں، بہاولپور میں سرسوں کی کاشت زیادہ ہورہی ہے، ملتان اور ساہیوال میں مکئی کاشت جب کہ فیصل آباد ڈویژن میں سرسوں اور مکئی کی کاشت کا رحجان بڑھ رہا ہے ۔کئی دہائیوں سے جاری کرپشن، چوری، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی روکنے کے لیے وفاقی وپنجاب حکومتوں کی جانب سے سرکاری گندم کوٹہ سسٹم اور سرکاری گندم خریداری ختم کرنے کا فیصلہ انتہائی ناگزیر تھا اور یہ ہمت ماضی میں کسی حکومت نے نہیں کی بلکہ انھوں نے سیاسی مفادات اور سستی شہرت کے لیے گندم اور آٹے کو استعمال کیا جس سے نہ صرف کھربوں روپے کا قومی سرمایہ ضایع ہوا بلکہ فلورملنگ انڈسٹری بھی سرکاری گندم کوٹہ پر اکتفا کرنے لگ گئی۔
سرکاری گندم خریداری کے حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ جب 50/60 سال تک حکومت پنجاب نے کسان کے کھلیان اور آڑھتی کی دکان میں گھس کر گندم اٹھائی، اسے اوپن مارکیٹ کی زیادہ قیمت سے محروم کیا تھا تو مناسب تھا کہ اس سال حکومت اعلان کرتی کہ چونکہ ہم نے سرکاری گندم کوٹہ نظام ختم کردیا ہے اور اب ہمیں مستقبل میں گندم خریدنے کی ضرورت باقی نہیں رہی اس لیے ہم کسانوں کی سہولت اور مہلت کے لیے اس بار20 لاکھ ٹن گندم خریدیں گے اور آیندہ برس سے خریداری مکمل ختم ہوجائے گی۔
گوکہ20 لاکھ ٹن خریداری سے شاید کسان مطمئن نہ ہوتے لیکن پھر بھی حکومت کڑی تنقید سے بچ جاتی، کسانوں کو بھی سنبھلنے کا موقع مل جاتا اور جہاں حکومت نے22 لاکھ ٹن کیری فارورڈ اسٹاک کی نکاسی کرنا تھی وہاں مزید20 لاکھ ٹن کی بھی ہوجاتی خواہ اس کے لیے چند ارب خسارہ ہی برداشت کرنا پڑتا۔ فوڈ اینڈ ایگرکلچرل سیکٹر کی28 سالہ رپورٹنگ کے تجربہ کی بنیاد پر میں سمجھتاہوں کہ معاشی، زرعی ماہرین کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ پنجاب حکومت کی گندم خریداری نہ کرنے سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا کہ حکومت نے نجی گندم کی قیمتوں کے تعین کا نوٹیفیکیشن جاری کر کے کیا ہے۔
ہزاروں صاحب حیثیت زمینداروں نے آج بھی لاکھوں ٹن گندم سنبھال رکھی ہے جسے وہ اس امید پر تھوڑا تھوڑا کر کے بیچتے ہیں کہ شاید مارکیٹ میں قیمت بہتر ہوجائے، جب نئی فصل آئی تھی اور حکومت نے خریداری نہ کرنے کا واضح اعلان نہیں کیا تھا بلکہ اس وقت تو کبھی پتا چلتا تھا کہ میاں نواز شریف نے رانا ثناء اللہ کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ وہ گندم خریداری پر اتفاق رائے پیدا کریں کبھی معلوم ہوتا کہ پی ایم نے سی ایم کو کہا ہے کہ کسانوں سے گندم خریدی جائے ،اسی بے یقینی کے ماحول میں فلورمل مالکان نے بھی ابتدائی ایام میں مہنگے داموں گندم خرید کر ذخیرہ کی تھی کیونکہ انھیں یقین تھا کہ اب حکومت کوٹہ سسٹم مکمل ختم کرچکی ہے اور انھیں اپنی گندم سے ہی کاروبار کرنا ہے۔ ہمارے بیوروکریسی کے نظام میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ایک افسر کا غلط مشورہ یا تجویز آنے والے دنوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے، ایک سابق بیوروکریٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے سامنے اپنے نمبر ٹانگنے کے لیے نجی گندم قیمتوں کے تعین کی بھرپور لابنگ کی تھی۔ اس وقت حکومت کا یہی نوٹیفیکیشن زمینداروں اور تاجروں کو ڈرائے ہوئے ہے۔
بہتر ہوگا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ اس نوٹیفیکیشن کو منسوخ کریں، اوپن مارکیٹ کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے، وزیر اعلی اگر 14 روپے کی سستی روٹی کے اپنے سیاسی اقدام کو قائم رکھنا چاہتی ہیں تو اس کے لیے کوئی متبادل طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جو کرپشن اور چوری کا ذریعہ نہ بنے، شنید ہے کہ حکومت تنوروں کو سرکاری گندم یا آٹا دینے کی تجویز پر غور کر رہی ہے ،ماضی میں جب بھی یہ اسکیم لائی گئی تو ماسوائے سرمائے کے ضیاع کے کچھ نہیں ہوا،اس لیے حکومت پرانے تجربات نہ ہی کرے تو بہتر ہے۔
ویسے تو اگر روٹی کی قیمت صرف ایک روپیہ بڑھا دی جائے یعنی15 روپے مقرر کردی جائے تو سارے مسائل بیک وقت حل ہوسکتے ہیں۔ صرف ایک روپیہ بڑھانے سے پنجاب حکومت کو کسی قسم کا سیاسی نقصان نہیں ہو سکتا لیکن اربوں روپے کا معاشی فائدہ ضرور مل جائے گا۔ کسان تنظیمیں بھی خبردار کر رہی ہیں کہ گندم پیداوار میں30 تا40 لاکھ ٹن کمی کا امکان ہے، اب یہاں ایک نیا چیلنج سامنے آرہا ہے کہ اللہ نہ کرے کہ گندم پیداوار میں اتنی بڑی کمی آئے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اس قلت کو پورا کرنے کے لیے گندم امپورٹ ناگزیر ہوجائے گی لیکن پچھلی مرتبہ نجی شعبے کی گندم امپورٹ پر جس طرح سے طوفان بپا کیا گیا، الزام تراشی کی گئی وہ شاید اس مرتبہ امپورٹرز کو آگے نہ آنے دے، دلچسپ بات یہ ہے کہ سب متفق ہیں کہ پچھلے سال ملک میں25/28 لاکھ ٹن گند م کا شارٹ فال تھا لیکن سب مکمل امپورٹ کو غلط ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں حالانکہ ایک سابق بیوروکریٹ اور اس کے چند مشیران ماتحتوں کی غلط حکمت عملی کے سبب 12سے15لاکھ ٹن اضافی امپورٹ کروائی گئی (حالانکہ ملک میں گندم کی موجودہ کم کاشت میں یہ اضافی امپورٹ ہی باعث اطمینان بنی ہے)،پنجاب حکومت نے بھی گندم خریداری نہ کرنے کے اپنے فیصلے کو جواز فراہم کرنے کے لیے امپورٹ پر ملبہ ڈال دیا تھا۔
امپورٹر اور فلورمل مالکان کو خوف ہے کہ اگر وہ اس مرتبہ امپورٹ کر بھی لیں تو اس بات کی ضمانت نہیں کہ پنجاب حکومت پھر سے نجی گندم کی قیمتوں میں کمی کے لیے نیا نوٹیفیکیشن نہ نکال دے، آیندہ برس کسانوں سے گندم خریداری میں بھی فلورمل مالکان اسی خوف سے شاید کم گندم خریدیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک اعلی تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور دور اندیشن خاتون سلمی بٹ کو غذائی امور میں اپنا معاون خصوصی بنایا ہے، امید ہے کہ سلمی بٹ اور سیکریٹری پرائس کنٹرول اجمل بھٹی وزیر اعلیٰ کو زمینی حقائق، مستقبل کے چیلنجز سے درست آگاہ کرتے ہوئے ایسی تجاویز دیں گے جو سب سٹیک ہولڈرز بالخصوص عوام کے لیے آسانی کا باعث بنیں گی بصورت دیگر خوشہ گندم تو ابد سے ابن آدم کے لیے پریشانی کا سبب ہے ۔