پی ٹی آئی کی مزاحمتی سیاست
پی ٹی آئی کے بانی نے اس ماہ 24نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال دے دی ہے ۔ان کے بقول اسلام آباد میں ہونے والی یہ جنگ فیصلہ کن ہوگی اور جو پارٹی لیڈر اس احتجاج میں ریاستی جبر کے سامنے مزاحمت نہیں کرے گا تو اس کے لیے مستقبل میں پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہوگی ۔
بانی پی ٹی آئی نے چار مطالبات بھی رکھے ہیں، اول ، 26ویں ترمیم کا خاتمہ ، دوئم، جمہوریت، آئین و قانون کی بحالی ،سوئم، انتخابات میں دھاندلی اورمینڈیٹ کی مکمل واپسی ، چہارم، بے گناہ پارٹی کارکنوں کی رہائی اور مقدمات کا خاتمہ شامل ہیں۔یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب عملاً بانی پی ٹی آئی کو مختلف مقدمات کا سامنا ہے، وہ خود اور کئی پارٹی لیڈر جیلوں میں ہیں جب کہ پارٹی کی سیاسی عوامی سرگرمیاں بھی معطل ہیں۔ پی ٹی آئی کو اس وقت اپنی سیاسی تاریخ میں بدترین حالات کا سامنا ہے ۔
9مئی کے بعد پی ٹی آئی کو بد ترین حالات کا سامنا ہے ۔ اگرچہ پی ٹی آئی بدستور سیاسی اور انتخابی حیثیت میں اپنی طاقت کے طور پر قائم ہے اور اس کا اعتراف ان کے کئی سیاسی مخالفین میں بھی کرتے ہیں ۔ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت جب کہ قومی اسمبلی ، پنجاب اسمبلی اور سینیٹ میں وہ اپوزیشن پارٹی ہے ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت ایک سیاسی حقیقت ہے۔ سیاسی جماعت کے ساتھ ووٹرز ہوتے ہیں اور قیادت کی مقبولیت بھی موجود ہو تو پھر سیاست میں اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بانی پی ٹی آئی سمیت پارٹی کے دیگر اہم راہنما شاہ محمود قریشی ،ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری ، عمر سرفراز چیمہ بدستور جیلوں میں ہیں اور مقدمات بھگت رہے ہیں۔متعدد کارکن اور پی ٹی آئی ایکٹوسٹ نو مئی کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے الزامات میں گرفتار ہیں۔
ان حالات میں پارٹی کی مزاحمتی سیاست نے اسے زندہ رکھا ہے ۔یہ جو سمجھا جارہا تھا کہ پی ٹی آئی کچھ نہیں کرسکے گی، یہ خیال غلط ثابت ہوا اور پی ٹی آئی بدستور قومی سیاسی منظرنامہ پر موجود ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی سیاست کو بھی داد دینی ہوگی کہ انھوں نے جیل میں رہ کر اپنے پتے اس طرح کھیلے ہیں کہ پی ٹی ٹی ہمدرد انھیں قومی سیاست میں مزاحمت کا استعارہ سمجھے ہوئے ہیں اور ان کی اس سیاست نے دیگر پارٹی لیڈروں کو بھی مزاحمتی سیاست میں لا کر کھڑا کردیا ہے ۔
اس سب کے باوجود پی ٹی آئی کو بحران کا سامنا ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کو گلہ ہے کہ ان کی اپنی پارٹی ان کی گرفتاری پر یا اس کے بعد سے لے کر اب تک پارٹی کی باہر بیٹھی قیادت ، کارکن اور ارکان اسمبلی، سینیٹ ممبران اگرچہ بدستور پارٹی کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں مگر عوامی طاقت کو جوڑ کر ایک بڑے دباؤ کی سیاست حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف پیدا نہیں کرسکے ۔ایسے لگتا ہے کہ اسی بنیاد پر بانی پی ٹی آئی نے 24نومبر کو اسلا م آباد میں ایک بڑے احتجاج کی کال دے کر ایک بار پھر اپنی جماعت کی وہ قیادت جو باہر ہے اور وہ قیادت جو خیبرپختونخوا حکومت کے مزے لے رہی، پارلیمانی کمیٹیوں میں شامل ہے ، انھیں امتحان میں ڈال دیا ہے۔
احتجاج کی کال دے کر انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو حیران کیا ہے کیونکہ خیال یہ کیا جارہا تھا کہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کسی بڑے احتجاج یا حتمی طور پر بڑے دھرنے کی طرف نہیں جائے گی ۔کیونکہ اس سے قبل ہونے والے تمام احتجاج پی ٹی آئی کے تناظر میںحکومت یا اسٹیبلیشمنٹ پر کوئی بڑا دباؤ پیدا نہیں کرسکی اور یہ تاثر پیدا ہوا کہ موجودہ حالات یا حکومتی یا ریاستی جبر کے سامنے پی ٹی آئی کسی بڑی مزاحمت میں کامیاب نہیں ہوسکے گی ۔
پی ٹی آئی کی باہر بیٹھی قیادت جن میںسے بیشترافراد اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کی بنیاد پر چلنا چاہتے ہیں مگر وہ بھی مفاہمتی سیاست میں بانی پی ٹی آئی کے لیے کوئی بڑا ریلیف پیدا نہیں کرسکے ۔حالانکہ پارٹی کے اندر بہت سے لوگوں کو اس سنگین الزام کا بھی سامنا ہے کہ پارٹی کے باہر بیٹھے اہم افراد بانی پی ٹی آئی کے مقابلے میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ زیادہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس طبقہ کا خیال تھا کہ ہم اپنی مفاہمتی سیاست کی بنیاد پر بانی کے حق میںعدالتوں سے ریلیف لے لیں گے مگر کچھ ریلیف تو ضرور ملا مگر عملی طور پر ان کی رہائی آج تک ممکن نہیں ہوسکی اور وہ بدستور اپنے دیگر ساتھیوں سمیت جیل ہی میں ہیں ۔
پی ٹی آئی کا داخلی بحران بہت بڑھ گیا ہے ۔اس کی ایک وجہ پارٹی کے معاملات میں موجود گروپ بندیاں ، وکلا کو ملنے والے عہدوں پر بھی خود وکلا کی اپنی سیاسی تقسیم اور پسند و ناپسند کا کھیل نمایاں ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ جماعتی فیصلوں پر خیبر پختونخواہ اور بالخصوص وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کا ہی سیاسی قبضہ ہے۔ پوری جماعت میں سے سندھ ،بلوچستان اور پنجاب کی قیادت کہیں غائب ہے یا ان کو نظر انداز کرکے جب سارے معاملہ کو علی امین گنڈا پور کی مدد سے چلایا جائے گا تو بحران کا پیدا ہونا فطری امر ہے ۔ علی امین گنڈا پور وزیر اعلی ہیں ان کو اگر پی ٹی آئی انتظامی عہدے تک محدود رکھتی تو بہتر ہوتا ۔
خود علی امین گنڈا پور کی قیادت پر خیبر پختونخواہ میں تقسیم ہے اور ان کی قبولیت پر بہت سے لوگوں کو شدید تحفظات ہیں ۔ اسی طرح وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کا لاہور اور اسلام آباد کے جلسے میں نہ آنے نے بھی ان کو سیاسی طور پر کمزور کیا ہے اوران کو اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے ۔ایک دفعہ پہلے بھی لکھا تھا کہ پارٹی کے تمام سیاسی معاملات سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کے سپرد کیے جائیں اور ان کی نگرانی میں ایک کور سیاسی کمیٹی بنائی جائے جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہو اور وہ مل کر پارٹی کے معاملات بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر چلائیں ۔پنجاب میں پارٹی بدستور سیاسی طور پر موجود نہیں اور جو لوگ موجود ہیں وہ سیاسی بونے ہیں اور دو اہم صوبائی عہدے دار حماد اظہر اور اسلم اقبال پنجاب سے باہر اور روپوش ہیں ۔
اہم بات یہ ہے کہ کیا 24نومبر کے احتجاج یا فیصلہ کن دھرنے کی کال کامیاب ہوسکے گی اور کیا لاکھوں لوگ پارٹی کے حالیہ داخلی بحران یا تناؤ کے کھیل میں باہر نکل سکیں گے ،اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر پی ٹی آئی کی مزاحمت کی سیاست کا مستقبل کیا ہوگا ۔کیونکہ اگر وہ اس بار بھی ایک بڑی مزاحمت ایک بڑی تعداد میں جمع نہیں کرسکے تو دوبارہ ایسی کال اپنی اہمیت کو کم کردے گی کیونکہ ایک بات طے ہے کہ حکومت یا ریاست کسی بھی صورت میں ایک بڑی تعداد میں ان کو اکٹھے نہیں ہونے دے گی اور اس اعلان کے بعد ایک نیا دور پارٹی کے لوگوں کی گرفتاریوں پر مبنی ہوگا اور مزاحمت کو طاقت سے کچلا جائے گا۔بالخصوص پنجاب میں حکومت کی پالیسی سخت ہوگی۔ ایسے لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی سیاست میں مزاحمت کا پہلو غالب ہے۔
حالیہ احتجاج کی کال پی ٹی آئی کے لیے اپنی سیاسی بقا کی بھی جنگ ہے۔ کیونکہ محض جذباتیت اور جوش کی بنیاد پر فیصلے ہوںگے یا مزاحمت ہوگی تو اس کے نتائج بھی منفی ہوسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو ایک سیاسی راستے کی تلاش ہے اور وہ راستہ ٹکراؤ کی عملی سیاست سے ممکن نہیں ۔یہ ہی بات حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی سوچنی ہوگی ۔