مجروح سلطان پوری (پہلا حصہ)

جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے


رئیس فاطمہ November 15, 2024
[email protected]

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل

لوگ ساتھ آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا

یہ شعر ہم مدتوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں، لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ یہ شعر کس کا ہے۔ تو جناب اب جان لیجیے کہ یہ شعر مشہور شاعر اور گیت نگار مجروح سلطان پوری کا ہے۔

جنھوں نے ایک طویل عرصے تک انڈین فلم انڈسٹری کو بہترین گیت دیے۔ انھوں نے صرف فلمی گیت ہی نہیں لکھے بلکہ انھوں نے اپنی ادبی شان اور شناخت بھی برقرار رکھی۔ ان کا پورا نام اسرار احمد خاں تھا اور وہ یکم اکتوبر 1919 میں سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔

مجروح کی پیدائش کے وقت خلافت تحریک زوروں پہ تھی، چنانچہ مجروح کے والد نے انھیں انگریزی تعلیم نہیں دلائی، بلکہ ایک مدرسے میں داخل کر دیا۔ مدرسے سے فارغ ہو کر انھوں نے لکھنو کے طبیہ کالج سے حکمت کی سند لی اور ضلع ٹانڈا میں حکمت شروع کی، لیکن ان کا مطب نہ چلا کیونکہ انھیں وہاں ایک تحصیل دار کی لڑکی سے محبت ہوگئی تھی، لیکن بات جب لوگوں تک پہنچی تو انھیں رسوائی کے ڈر سے مطب بند کرنا پڑا اور وہ واپس سلطان پور آگئے۔

انھیں بچپن ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا، تب انھوں نے ایک موسیقی کے کالج میں داخلہ لے لیا۔ ان کے والد کو پتا چلا تو وہ سخت ناراض ہوئے اور یوں انھیں درمیان میں ہی موسیقی کو خیرباد کہنا پڑا اور یہ شوق بھی ادھورا رہ گیا۔ مجروح کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، ساتھ ہی انھیں شکارکھیلنے، کرکٹ کھیلنے اور ہاکی میچ دیکھنے کا بھی شوق تھا۔ ساتھ ساتھ انھیں شعرکہنے کا بھی بہت شوق تھا، وہ غزلیں کہتے اور اپنے ترنم کی وجہ سے وہ مشاعروں کے کامیاب شاعر تھے، وہ اپنی کھنکتی آواز سے مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔

انھوں نے بڑی کامیاب غزلیں کہیں، ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’ غزل‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ وہ اردو، عربی اور فارسی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا 1935 سے کی اور اپنی پہلی غزل سلطان پور کے ایک مشاعرے میں پڑھی جس سے انھیں راتوں رات بڑی شہرت نصیب ہوئی۔ وہ جگرمرادآبادی کے شاگرد تھے اور اپنے کلام پہ اصلاح صرف جگر صاحب ہی سے لیتے تھے۔ مجروح صاحب کی ذہنی تربیت میں جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کا بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے مجروح کو فارسی شاعر بیدل اور فردوسی کو پڑھنے کا مشورہ دیا۔ کسی وجہ سے مجروح علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ نہ لے سکے تو پروفیسر رشید احمد صدیقی نے انھیں تین سال تک اپنے گھر پر رکھا اور انھیں پڑھنے کے لیے بہت ساری کتابیں مہیا کیں، جنھوں نے مجروح کے ذہن کے دریچے کھول دیے۔

1945 میں بمبئی ( اب ممبئی ) میں ایک بڑا مشاعرہ ہوا، صدارت جگر صاحب کر رہے تھے، اس مشاعرے میں مجروح بھی مدعو تھے۔ ان کے علاوہ وہاں مایہ ناز ہدایت کار اے۔آر۔کاردار بھی تھے، جو مجروح کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے مجروح کو اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کے لیے گیت لکھنے کی فرمائش کی مگر اس زمانے میں فلمی شاعری کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے مجروح نے انکار کردیا، لیکن کاردار نے ہار نہ مانی، انھوں نے جگرمراد آبادی سے کہا کہ وہ مجروح سے بات کریں اور انھیں فلم کے گیت لکھنے پر راضی کریں۔

چنانچہ مجروح نے اپنے استاد کی بات مان کر فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کے گیت لکھنے کی حامی بھر لی۔ اس فلم میں مرکزی کردار کے۔ایل سہگل کر رہے تھے۔ قسمت کی یاوری تھی کہ فلم شاہ جہاں کے سبھی گیت امر ہوگئے اور آج تک مقبول ہیں۔ جب مجروح صاحب نے گانے لکھنے کی حامی بھر لی تو کاردار صاحب انھیں مشہور موسیقار نوشاد کے پاس لے گئے۔ نوشاد  نے مجروح کو ایک دھن سنائی جس پر مجروح صاحب کو بول لکھنے تھے۔ مجروح نے جو بول لکھے وہ اس طرح تھے:

جب اس نے گیسو بکھرائے

بادل آئے جھوم جھوم کے

یہ گیت زنانہ آواز میں تھا اور نوشاد صاحب کو یہ گیت بہت پسند آیا، اس گیت میں بہت ساری لڑکیوں کے درمیان جس اداکارہ و رقاصہ نے رقص کیا ہے وہ میڈم آزوری نے کیا ہے جو بعد میں پاکستان آگئی تھیں۔ یہاں کراچی میں نرسری پہ واقع قائدین اسکول میں بچوں کو ٹیبلو سکھاتی تھیں۔ پھر ایک آرمی آفیسر سے شادی کے بعد ماری پور میں رہتی تھیں، غالباً ان کے شوہر ایئرفورس میں تھے۔ میری اور میرے والد کی ان سے ملاقاتیں رہی ہیں، وہ ایک بے حد نفیس خاتون تھیں۔ قرۃ العین حیدر نے اپنی تصنیف ’’ کار جہاں دراز ہے‘‘ کی تیسری جلد میں میڈم آزوری کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔

اس کے بعد مجروح اور نوشاد کی جوڑی ہٹ ہوگئی، فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کے سبھی گانے سپرہٹ ہوئے۔ سہگل پہ فلمائے جانے والے تمام گیت آج بھی روز اول کی طرح مقبول ہیں۔ خاص طور پر سہگل پہ فلمایا ہوا یہ گیت شایقین کبھی نہیں بھول سکتے۔ یہ گیت مجروح نے لکھا بھی بڑے دل سے ہے۔ یہ کیا ’’شاہ جہاں‘‘ کے سبھی گیت ہٹ ہوئے۔ مجروح صاحب کو اپنی پہلی ہی فلم سے ایسی شہرت ملی جو مرتے دم تک قائم رہی اور آج بھی ان کے گیت شوق سے سنے جاتے ہیں۔

جب دل ہی ٹوٹ گیا

ہم جی کے کیا کریں گے

٭……٭

چاہ برباد کرے گی

ہمیں معلوم نہ تھا

٭……٭

غم دیے مستقل کتنا نازک ہے دل

یہ نہ جانا، ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ

مجروح کے پانچ بچے ہیں، تین بیٹیاں اور دو بیٹے۔ بیٹوں کے نام ارم اور عندلیب جب کہ بیٹیوں کے نام گل، نوبہار اور صبا ہیں۔ لیکن انھیں اپنی زندگی میں ایک بڑا صدمہ اپنے بیٹے کی موت کا برداشت کرنا پڑا۔ 36 سال کی عمر میں ان کے بیٹے ارم کا انتقال ہوگیا، جو ان کے خاندان کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔

مجروح نے بہت سے ملکوں کے دورے کیے، انھیں ایوارڈز سے نوازا گیا۔ انھوں نے گیت نگاری کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ مجروح صاحب کی ایک اور ہٹ فلم تھی ’’آرزو‘‘، جس میں کامنی کوشل اور دلیپ کمار نے کام کیا تھا جس کا ایک گیت بہت مشہور ہوا تھا جسے طلعت محمود نے گایا تھا۔

اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں