ماحولیاتی آلودگی

پنجاب کی موجودہ حکومت نے موسم مناسب نہ ہونے کے سبب اس پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا ہے


ایڈیٹوریل November 16, 2024
پنجاب کی موجودہ حکومت نے موسم مناسب نہ ہونے کے سبب اس پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا ہے ۔ فوٹو : فائل

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی کے تمام کیسز کو یکجا کرتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے اقدامات پر وفاق اور صوبوں سے تین ہفتوں میں رپورٹس طلب کرلیں۔

 چھ رکنی آئینی بینچ کے ایک فاضل جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی ایجنسی کے افسران دفاتر سے نکلتے نہیں، ایجنسی اور قانون کی موجودگی کے باوجود ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار ہے، خیبرپختونخوا میں اسکول کی عمارت کے ساتھ ماربل فیکٹریاں ہیں جب کہ ایک فاضل جج کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی اتھارٹی کا چیئرمین کیوں تعینات نہیں ہوسکا؟ چیئرمین تعینات ہوگا تو ہی اتھارٹی فعال ہوگی۔دوسری جانب پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافے اور خاص کر لاہور کی اسموگ سے بدتر حالت کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے بارش کے لیے نماز استسقاء ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔

 بلاشبہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے معزز جج صاحبان کے ریمارکس ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے حقیقت پر مبنی ہیں کیونکہ ماحولیاتی وفضائی آلودگی کا مسئلہ انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے، اس وقت ہر پاکستانی کی صحت وسلامتی اسی مسئلے سے جڑی ہے،جب اسموگ کو موسم سرما کا وقتی مسئلہ سمجھا جائے گا اور اس مسئلے کے حل کے ساتھ ’’رات گئی، بات گئی‘‘ کے محاورے سا سلوک برتا جائے گا، تب تک اسموگ ہر سال لوٹ کر آئے گی بلکہ شدت اختیار کرتی جائے گی۔

بین الاقوامی ایئر کوالٹی انڈیکس اسکیل کے مطابق 300 یا اس سے زیادہ کا انڈیکس انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے اور پاکستان میں یہ سطح اکثر ایک ہزار سے تجاوز کر رہی ہے۔ لاہور سے تقریباً 350 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر ملتان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کی سطح گزشتہ ہفتے دو ہزار سے تجاوز کر گئی۔

اسموگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بعد گزشتہ سال نگراں حکومت کی جانب سے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن پنجاب کی موجودہ حکومت نے موسم مناسب نہ ہونے کے سبب اس پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا ہے، البتہ وزیراعظم شہبازشریف نماز استسقاء ادا کرنے کی اپیل کررہے ہیں، مودبانہ گزارش ہے کہ وفاقی حکومت عملی طوراقدامات اٹھائے جن محکموں کی ذمے داری ہے ان کے افسران کا احتساب کیا جائے ، حکومت سسٹم کو فعال کرنے پراپنی توجہ مرکوز کرے، صرف دعاؤں سے تو سنگین نوعیت کے مسائل حل نہیں ہونگے ، اسی طرح پاکستان کے تمام صوبوں میں بھی ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے مختلف محکمے موجود ہیں، لیکن افسران وملازمین کی بہتات اور مراعات کے باوجود ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، عدالتی احکامات آجائیں تو ان محکموں کے اہلکارکچھ پھرتی دکھاتے ہیں، ورنہ پورا سال آرام سے تنخواہوں اور مراعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ ان کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

 حکومت کی جانب سے کاشت کار سے صرف اسموگ کے دنوں میں رابطہ کیا جاتا ہے، انھیں فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے سے روکا جاتا ہے لیکن کاشت کار اس باقیات کا کیا کرے اور اگلی فصل لگانے کے لیے کھیتوں کو صاف کیسے کرے، یہ نہیں بتایا جاتا۔حالانکہ اسموگ سیزن آنے سے پہلے دھواں پھیلانے والی فیکٹریوں کی بندش، زگ زیگ ٹیکنالوجی نہ اپنانے والے اینٹوں کے بھٹوں پر پابندی اور کھیتوں میں فصلوں کی باقیات جلانے پر دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ جیسے اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔

اسموگ کی وجہ بننے والے دوسرے عوامل کی جانب بھی دیکھنا ہو گا، ٹریفک کا دھواں پہلے ہی ماحول کے لیے خطرناک ہے، ایسے میں حکومت پیسے بچانے کے لیے سستا فیول درآمد کرنے پر غور کر رہی ہے جو مزید بگاڑ پیدا کرسکتا ہے۔

 پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لیے 10 بلین ٹری منصوبے سمیت کئی اقدامات اٹھانے کے اعلانات منظر عام پر آئے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے کئی شہر خاص طور پر لاہور اور کراچی دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔ آلودگی کی تمام اقسام میں سب سے خطرناک فضائی آلودگی ہے،جس نے ہر جان دار کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا میں روزانہ لاکھوں افراد فضائی آلودگی سے متاثر ہوکر مختلف عوارض کا شکار ہو رہے ہیں۔

 ان عوارض میں سانس کی نالیوں کی سوزش، دمہ، سینے کا انفیکشن، دل کے امراض،بلند فشارخون، ہارٹ اٹیک، انجائنا اور فالج کا حملہ وغیرہ شامل ہیں۔ فضائی آلودگی کے کئی اسباب ہیں۔ مثلاً کوئلہ، لکڑی، تیل یا قدرتی گیس جلانے سے نکلنے والا دھواں، جنگلات میں آگ لگنا، صنعتی شعبہ جات میں استعمال ہونے والے مختلف فوسل فیولز(Fossil fuels)، اینٹوں کے بھٹّے، چمنیوں اور راکھ پیدا کرنے والی فیکٹریوں سے اُٹھتا دھواں، ردّی، ناکارہ اشیاء جلانے، پُرانی عمارتیں گرانے اور نئی تعمیرات کا عمل وغیرہ۔ ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرایع، اِن ڈور آلودگی مثلاً قالین، مچھر مار اسپرے، تمباکو نوشی اور وینٹی لیشن کا مناسب انتظام نہ ہونے جیسے عوامل بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

 بظاہرلگتا ہے کہ درج بالا اسباب صحت کے لیے نقصان دہ نہیں، مگر مضر صحت مادے جیسے کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، ایندھن سے خارج ہونے والے بخارات، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربن وغیرہ فضا میں شامل ہو کر انسانی صحت پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ فضائی دھوئیں میں ایک وقت میں 8سے 10 سگریٹس کے دھوئیں کے برابر مضر ِ صحت مادے پائے جاتے ہیں، جن کے باعث فضا میں پائی جانے والی حفاظتی تہہ، اوزون میں شگاف بڑھ جاتا ہے اور جو اسموگ کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔

 

مثال کے طور پر فیصل آباد ایک صنعتی شہر ہونے کے باعث پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی کی زد میں ہے اور اوپر سے شہر میں گاڑیوں، بسوں، ویگنوں، رکشوں اور دیگر وہیکلز کی آمدورفت میں ہارن بجنے کا سلسلہ اس حد تک جاری رہتا ہے کہ ہارن کی آوازوں کو سن سن کر انسان چڑچڑاہٹ سی محسوس کرنے لگتا ہے۔ شہر کے مختلف روٹس پر چلنے والی وہیکلز میں سے ایک تہائی یقیناً ایسی ہوتی ہیں کہ مرمت طلب ہونے کے باوجود سڑکوں پر بھاگتی نظر آتی ہیں۔ یہ گاڑیاں جدھر سے گزرتی ہیں فضا میں زہریلا دھواں چھوڑتی ہوئی گزرتی ہیں اور یہ زہریلا دھواں ہوا میں شامل ہو کر شہر کی فضا کو بہت زیادہ مسموم بنا دیتا ہے۔

فیصل آباد میں صنعتی شہر ہونے کے ناتے صرف بڑے کارخانوں کی مشینوں کے چلنے سے ہی شور کی سی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، شہر میں پچاس ہزار سے بھی زائد پاور لومز کا پہیہ چلتا ہے۔ دھوئیں کی آلودگی سے انسان سانس کے ذریعے فضا میں سے بہت سے زہریلے مادے اپنے جسم میں کھینچ لیتا ہے ۔

 اسی طرح کراچی کی کسی بھی ساحلی پٹی پر چلے جائیں، مقامی آبادی کی شکایات ایک جیسی ہیں۔ کہیں سمندری آلودگی ہے، کہیں سمندر بڑھنے اور کہیں زمین کے کٹاؤ کا رونا ہے کیونکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی کی ساحلی پٹی آلودگی کی زد میں ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کا کہنا ہے کہ ’روزانہ ملیر اور لیاری ندی میں 6 ہزار سے زائد فیکٹریوں کا آلودہ پانی سمندر میں ڈالا جا رہا ہے۔ کراچی کے ساحل پر بڑے بڑے فشنگ ٹرالرز کی تعداد بہت زیادہ ہے جو بڑے پیمانے پر سمندری حیات کا شکار کررہی ہیں اور غیر قانونی جالوں کا استعمال کر رہی ہے۔

 ساتھ ہی bycatch یا غیر مطلوب آبی حیات کا شکار بھی بڑھتا جا رہا ہے جو ہماری آبی فوڈ چین اور ایکو سسٹم کو نقصان پہنچا رہا ہے،ایک طرف گندے نالوں کا کوڑا سمندر میں شامل ہو رہا ہے تو دوسری طرف کراچی کے ساحل پر تیل اور اس کے بائی پراڈکٹس بھی سمندر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابراہیم حیدری ہو یا مبارک ولیج پانی اپنی شفافیت کھوتا جا رہا ہے۔

رہی سہی کسر پلاسٹک نے پوری کردی ہے۔ ان سب عوامل کی وجہ سے کچھوے کی نیسٹنگ متاثر ہو رہی ہے اورکیکڑے، جھینگے، مونگے اور اوسٹر جیسے دیگر آبی جاندار بھی متاثر ہورہے ہیں۔ بڑا خطرہ سمندر کو کاٹ کر بنائی جانے والی ہاؤسنگ اسکیمیں ہیں کیونکہ ان تعمیرات کے لیے سمندر کو پیچھے دھکیلا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کے مراکز اور تفریحی مقامات بھی بنا دیے گئے ہیں جس کا براہِ راست اثر مقامی ساحلی آبادی پر پڑتا ہے۔

 ہمیں معلوم ہے کہ ہم اپنی آب و ہوا کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، روز بروز آلودگی کا نیا بوجھ ڈال رہے ہیں اور پھر امید کرتے ہیں کہ سب خود بخود ٹھیک ہو جائے حالانکہ اب ہمیں اس جانب اپنے رویے میں سنجیدگی لانی ہو گی۔ حرف آخر ،ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں سرکاری اداروں سمیت پاکستان کے ہرباشندے کو بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ہمیں سنجیدگی کے ساتھ ماحول دوست رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں