ٹرمپ سے کس کی اُمیدیں پوری ہوں گی
ڈونلڈ ٹرمپ دوسری صدارتی مدت کے لیے کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ حالانکہ انتخابی جائزوں اور تجزیوں میں یہ تاثر بنایا جا رہا تھا جیسے انتہائی سخت مقابلہ ہونے جا رہا ہے اور جیتنے والے کو معمولی سی اکثریت حاصل ہو گی۔ امریکا کے اندر یہ تاثر بھی عام ہے کہ سخت مقابلے کا ماحول اس لیے پیدا کیا جا رہا تھا تاکہ لوگوں کو کنفیوز کر دیا جائے۔
یہ حربہ کامیاب نہیں ہوا اور ٹرمپ کو فیصلہ کُن کامیابی ملی۔ جب 2016 میں ٹرپ کامیاب ہوکر وائٹ ہاؤس پہنچے تھے تو یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ یہ شخص جس کے بارے میں یہ ہی پتہ نہ ہو کہ وہ کس وقت کیا بات کہہ دے، ملک کو کس طرح چلائے گا۔ لیکن ماضی کے مقابلے میں آج یہ معاملہ اس لیے مختلف ہے کہ دنیا چار سال ٹرمپ کے طرز صدارت کا مشاہدہ کرچکی ہے۔ دنیا کی ہر طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی انقلابی تبدیلیوں کے علمبرداروں کو پسند نہیں کرتی، لیکن اب کہ یہ ہوا ہے کہ تبدیلی کے حامی تعداد اور اثر و رسوخ میں تگڑے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی ’جسے تبدیلی کے حامی ٹرمپ کے ساتھی‘ ’ڈیپ اسٹیٹ‘ قرار دیتے ہیں وہ تبدیلی کے حق میں پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر خواہ انتخابی مہم میں عوام اور دنیا سے کتنے ہی خوشنما وعدے کیوں نہ کر لے، اس کے وائٹ ہاوس پہنچتے ہی اعلٰی سول اور ملٹری بیورو کریسی ملکی پالیسیوں کو اپنے سوچے سمجھے راستے پر برقرار رکھنے کے لیے مزاحمت شروع کر دیتی ہے۔
ماضی میں ٹرمپ انتظامیہ کے اندر موجود لوگ آج بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ قومی سلامتی کے حوالے سے نو منتخب صدر کی بڑی تبدیلیوں کی کوششیں اگر کمزوری کا تاثر دے رہی ہوں گی تو ان کو درست سمت میں موڑا جائے گا۔ اس دعوٰے کی دلیل ایچ آر میک ماسٹر اور جان بولٹن کی یادداشتوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان دونوں نے بالترتیب ٹرمپ کے دوسرے اور تیسرے مشیر برائے قومی سلامتی کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔
میک ماسٹر کہتے ہیں ملک کی قومی سلامتی کے لیے میرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ میں نے 2017میں ٹرمپ کو افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے پر آمادہ کر لیا تھا جب کہ بولٹن نے لکھا ہے کہ اُن کی قومی سلامتی کے لیے بڑی خدمت 2018 میں ٹرمپ کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ختم کرنے پر آمادہ کرنا تھا۔ اب اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ دنیا کے بارے میں ٹرمپ کے دعوؤں پر من و عن عملدرآمد کوئی آسان بات نہیں۔اگر بطور خاص پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکا کو دینے والوں کی سیاسی عتاب سے نکلنے کی اُمیدیں بھی امریکا میں حکومت کی تبدیلی سے وابستہ ہیں۔
یہ ایک عمومی ذہنی انحطاط کی کیفیت ہے جو مکمل معاشرتی انحطاط کو جنم دیتی ہے۔ کیا حکومت ، کیا اپوزیشن ، سبھی اگلا قدم اُٹھانے کے لیے امریکا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے ٹویٹر اکاونٹ سے ٹرمپ کو مبارک باد کا مختصر سا پیغام جاری ہوا ہے جس میں اُمید ظاہر کی گئی ہے کہ ٹرمپ کی جیت باہمی احترام کی بنیاد پر پاک امریکا تعلقات کے لیے مفید ثابت ہو گی اور یہ کہ ٹرمپ سے اُمید ہے کہ وہ عالمی سطح پر امن، انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے موثر کردار ادا کریں گے۔ سابق صدر عارف علوی کا پیغام زیادہ دلچسپ ہے۔ اپنے ایکس اکاونٹ پر جو تہنیتی پیغام انھوں نے لکھا اُس کا مفہوم کچھ یوں ہے ، امریکا کے اندر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد ہی نے امریکی عوام کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ہے۔ یقیناً آپ کی جیت سے دنیا کے آمر اور آمرانہ عزائم رکھنے والے کانپ کر رہ گئے ہوں گے۔
دوسری جانب حکومتی محاذ سے جو پیغامات گئے ہیں اُن میں ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا اُصول یاد دلایا گیا ہے، یعنی مداخلت کی اُمید اور خوف دونوں باتوں کا اظہار ہمارے ہی ملک سے کیا جا رہا ہے۔
اب کچھ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکا کے اندر اہم حیثیت رکھنے والی شخصیات اس بارے میں کیا کہہ رہی ہیں۔ جوشوا وائٹ بارک اوباما کے دور میں جنوبی ایشاء کے امور کے ماہر کے طور پر وائٹ ہاؤس میں تعینات تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی ترجیحات میں بہت نچلے درجے پر ہے۔ وائٹ جو آج کل بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ ماضی میں دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت ضرور تھی لیکن اُس وقت بھی بارڈر سیکیورٹی یا معاشی ساجھے داری کی کوئی خواہش امریکا میں موجود نہیں تھی۔
ایک بین الاقوامی اشاعتی ادارے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے ٹرمپ کے ساتھیوں میں سے کوئی انھیں پی ٹی آئی کی مدد کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے لیکن میرا نہیں خیال کہ ٹرمپ پی ٹی آئی کی اعلٰی قیادت کی مدد کرنے کے لیے ریاستی دباؤ استعمال کریں گے۔ عالمی سطح پر سامنے آنے والے تجزیوں میں ایک بات یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ امریکا کے نزدیک پاکستان کی اہمیت موجودہ حالات میں صرف اسی صورت میں بڑھ سکتی ہے اگر مشرق وسطٰی کا بحران ایران تک پھیل جائے۔ عالمی سیاست کے تناظر میں پاکستان امریکا تعلقات میں ایک اور مشکل چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہیں۔