پرانا زمانہ تھا جس میں محبت،الفت عشق اور دیوانگی وغیرہ کے سکے چلتے تھے اس لیے فریدہ خانم نے کہا تھا کہ
سب کچھ ہے کچھ نہیں ہے یہ حالت بھی خوب ہے
’’دیوانگی‘‘کا نام محبت بھی خوب ہے
لیکن یہ نیا زمانہ ہے جسے بعض عمرانی کپتانی اور تبدیلی کا دور بھی کہتے ہیں اس لیے ’’سکے‘‘بدل گئے ہیں اب اگر کوئی محترمہ گائے گی تو تبدیلی کے مطابق اس میں تبدیلی کرکے یوں گائے گی
سب کچھ ہے کچھ نہیں ہے ’’حکومت‘‘بھی خوب ہے
بدمعاشیوں کا نام’’سیاست‘‘بھی خوب ہے
کیونکہ سیاست کا پرانا سکہ بھی تبدیلی کا شکار ہو کر ’’کھوٹا‘‘ ہوچکا ہے اور نیا سکہ بدمعاشیوں کا ہے جو بازار میں خوب چل رہا ہے۔انگلستان میں چرچل اور لارڈ اٹیلی کا مقابلہ تھا چرچل جنگ کے زمانے میں وزیراعظم رہاتھا اور’’ہیرو‘‘ کا درجہ رکھتا تھا۔لیکن چرچل کی بیوی نے لارڈ اٹیلی کو ووٹ دیا۔اور شوہر سے صاف کہا کہ تم’’جنگ‘‘ کے زمانے کے لیے موزوں وزیر اعظم تھے لیکن اب امن کے زمانے میں موزوں وزیراعظم لارڈ اٹیلی ہے۔لیکن جدید زمانے میں اگر کوئی کرکٹ،اداکاری گلوکاری بلکہ غنڈہ گردی یا کامیڈی میں نام پیدا کرے تو اسے’’ سب کچھ‘‘سمجھ کر صدر اور وزیراعظم بنادیاجاتا ہے۔
ایک اور واقعہ قائداعظم سے متعلق بھی، انگریزی دور میں آزادی کے لیے چند پارٹیوں نے اتحادکرلیا جن میں کچھ دینی پارٹٰیاں بھی تھیں اس اتحاد کا ایک وفد کہیں جارہا تھا ائیرپورٹ پر اس وفد میں شامل ایک بہت بڑے عالم دین سے کہا کہ آپ اتنے بڑے عالم ہیں اور آپ لوگوں نے جناح جیسے ’’بے ریش‘‘کو اپنا قائد منتخب کرلیا ہے؟۔
اس عالم دین نے کہا۔ابھی ہم جس جہاز میں سفر کرنے والے ہیں تو کیا میں عالم ہوں تو اس پائلٹ کی سیٹ پر جاکر بیٹھوں؟۔پوچھنے والے نے کہا میں سمجھا نہیں تو اس عالم نے کہا۔جس کام کے لیے ہم نے اتحاد کیا ہے اور جو کام ہمیں درپیش ہے اس کے لیے بھی جناح صاحب موزوں ہیں،میں نہیں۔لیکن اس کا کیا کیجیے کہ ’’سکے‘‘ بدل چکے ہیں اب تعویز گنڈوں،منترجنتر اور جادو اور نجوم والے بھی’’پائلٹ‘‘ بن سکتے ہیں۔
ایوب خان دور میں اس کے بڑے بھائی سردار بہادرخان نے اسمبلی میں کہا تھا کہ
ہرشاخ پہ اُلوبیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا؟
اور وہ انجام ہمارے سامنے ہے اس لیے ’’سب کچھ ہے،کچھ نہیں ہے‘‘وزیروں مشیروں معاونوں کمیٹی چیئرمینوں سرکاری افسروں اور دفتروں کے لیے ’’سب کچھ ہے‘‘لیکن بات جب ’’کالانعام‘‘ کی آتی ہے تو ’’ملک نازک وقت سے گزررہا ہے‘‘سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔اس پر ہمارے چشم گل چشم جو ہمارے گاؤں کی اکلوتی آنکھ والا اکلوتا دانشور ہے۔کہاہے کہ اگر یہ سخت فیصلے کرنے والے اور جن کے پاس ’’سب کچھ‘‘ صرف ایک’’سخت فیصلہ‘‘ اور کریں تو سب کچھ سنورسکتا ہے۔ ’’نازک دور‘‘کی بھی ایسی تیسی ہوسکتی ہے، مہنگائی بھی ملک بدر ہوسکتی ہے اور عوام کالانعام جن کے پاس کچھ نہیں ہے ’’کے پاس بھی’’کچھ‘‘ہوسکتا ہے۔اور وہ سخت فیصلہ یہ ہے کہ’’سارے سب کچھ والے‘‘اپنی دولت اس ملک کو دے دیں۔اور ’’ریاست مدینہ‘‘میں ایک مرتبہ ایسا ہوبھی چکا ہے جس میں ابوبکرصدیقؓ اپنے گھر کا آدھا نہیں بلکہ پورا اثاثہ لے کر آئے تھے اور فرمایا میرے لیے صرف اللہ اور اس کا رسول کافی ہے۔اور اس میں چونکنے یا تعجب کی کوئی بات بھی نہیں چونکہ ان میں ایسا کون ہے جو خود کو صادق اور امین نہ کہتا ہو۔ویسے بھی ’’آدھے آدھے‘‘کو عربی میں انصاف یعنی نصف نصف کرنا کہتے ہیں۔
اگر سارے صادق وامین ہیں اور ’’انصاف‘‘بھی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ’’بسم اللہ‘‘چشم گل عرف قہرخداوندی نے یہ کہہ کر ایک چھوٹا بریک لیا۔اور کہا کہ میں گارنٹی دیتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی’’مر‘‘نہیں جائے گا بلکہ ’’امر‘‘ ہوجائے گا۔پھر ہمیشہ کی طرح اپنی بات ایک غیرموزوں شعر پہ ختم کی جو عندلیب شادانی کا ہے
ابر،شفق دھنک بجلی تارے نغمے شبنم پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
لیکن ہم نے اس کی تجویز کو یکسر رد کرتے ہوئے پہلے ایک پرانا لطیفہ سنایا کہ ایک دانا دانشور کسی کا مہمان ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس گھر میں ایک بہت ہی شریر نٹ کھٹ دلیر چوہا کسی کی پروا کیے بغیر دندنا رہا ہے، کبھی یہاں کبھی وہاں۔یہاں ان کے سامنے دسترخوان پر بھی حملہ آور ہوا بلکہ آدمیوں کی پیٹھ پر کودتا پھرا۔دانشور مہمان نے میزبان سے بات کی تو اس نے بتایا کہ ہمارا تو اس چوہے نے ناک میں دم کر رکھا ہے، ہر تدبیر کی ’’بلیاں‘‘بھی رکھیں، پنجرے بھی لگائے لیکن یہ شریر نہ ہاتھ آتا ہے نہ باز آتا ہے۔
دانشور نے کہا اس کا حل ’’تلاش کرو‘‘’’بل کھودا تو اس میں خزانہ نکلا خزانہ نکال لیا گیا۔اب جب وہ دسترخوان پر بیٹھے تو چوہا دکھائی دیا لیکن ایسے کہ اس کا دم نکل گیا بالکل مرجھایا ہوا ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا۔پھر قہرخداوندی سمجھ گیا بولا ہاں یہ تو ہے اگر ان کی دولت ان سے جدا ہوجائے گی تو بیچارے اچھلنا کودنا اور سب کچھ چھوڑ دیں گے۔
پھر ہم نے اپنے گاؤں کے باغوں کے ٹھیکیدار کا حقیقہ سنایا ۔اس سے ایک مرتبہ ایک کسان نے کہا کہ تمہارے اس باغ میں چوریاں ہورہی ہیں جو میرے پڑوس میں ہے اس کے لیے رکھوالا رکھ لو بلکہ کیا رکھوگے مجھے سو روپے دو میں رکھوالی کروں گا۔ٹھیکیدار نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر دیا۔ کسان بولا اب بے غم ہوجاؤ، میں رکھوالی کروں گا۔ٹھیکیدار نے اس سے کہا یہ سو روپے میں رکھوالی کے لیے نہیں بلکہ تم خود اس باغ سے باز آجاؤ، یہی بہت ہے۔