ایک امریکی شہری تنظیم ہے اے ڈی ایل یعنی اینٹی ڈیفیمیشن لیگ (انجمنِ انسدادِ کردار کشی)۔ نام سے دھوکا نہ کھائیے۔ایک سو چودہ برس پرانی (انیس سو دس) یہ تنظیم قائم تو اس لیے ہوئی تھی کہ امریکا میں آباد یہودیوں کو انتہاپسند گورے نسل پرستوں کے تشدد اور تعصب سے بچائے مگر رفتہ رفتہ اس نے روشن خیال نظریات کی حامل تنظیموں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ ہر وہ تنظیم جو ذرہ برابر بھی صیہونیت مخالف ہو اس پر یہود دشمنی کا لیبل چپکا دیا جاتا ہے اور پھر دائیں بازو کے صیہونیت نواز سرکاری اہلکاروں کو ان ’’ یہود دشمنوں ‘‘ کے تعاقب میں لگانے کی کوشش ہوتی ہے۔
اگر آپ اے ڈی ایل کی ویب سائٹ پر جائیں تو آپ کو یہود دشمن تنظیموں میں فلسطین یوتھ موومنٹ ، جیوش وائس فار پیس ( جے وی پی ) ، اف ناٹ ناؤ سے لے کر پارٹی فار سوشلزم اینڈ لبریشن سمیت شہری حقوق سے جڑے بیسیوں گروہوں کے نام ملیں گے جو نسل کش اسرائیلی پالیسیوں کی ناقد ہونے کے سبب یہود دشمن خانے میں ڈال دیے گئے ہیں ۔
تاہم جب سے ان تنظیموں نے اے ڈی ایل کی مخبرانہ سرگرمیوں اور مبالغہ آمیز اعداد و شمار کا بھانڈا پھوڑنا شروع کیا ہے اے ڈی ایل کا اثر و نفوذ بھی بے خبر امریکی سماج پر کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔مگر اب بھی بہت اثر ہے۔
اگر ہم صیہونیت مخالف امریکی یہودیوں کی بات کریں تو جیوش وائس فار پیس ( جے وی پی ) کا نام سب سے اوپر ہے۔جے وی پی کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ ہم یہودیت سے محبت اور صیہونیت سے نفرت کرتے ہیں۔ہم فلسطینیوں سمیت تمام مظلوم اقوام کے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ہم یہودی قوم کے لیے صیہونیت سے پاک مستقبل دیکھنا چاہتے ہیں۔
جے وی پی امریکا کے تمام سرکاری اداروں، یونیورسٹیوں، عبادت گاہوں، پنشن فنڈز اور یہودی سرمایہ کاروں پر زور دیتی ہے کہ وہ اسرائیلی بانڈز میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ان کا بائیکاٹ کریں۔کیونکہ آپ کا پیسہ ان بانڈز کی شکل میں اسرائیلی حکومت اور فوج فلسطینیوں کو کچلنے میں استعمال کرتی ہے۔
جے وی پی کے مطابق امریکی یہودی کمیونٹی کو ’’ ٹکون اولم ‘‘ یعنی دنیا کو سنوارو کی الوہی ہدائیت نہیں بھولنی چاہیے اور اسرائیل پر واضح کر دینا چاہیے کہ وہ یہودیوں کے عالمی تحفظ کے نام پر اپنی خون آشام پالیسیاں جاری نہیں رکھ سکتا۔ جے وی پی مقبوضہ علاقوں کی یہودی آبادکار بستیوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کے بائیکاٹ پر زور دیتی ہے اور اسرائیل میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی اور اقتصادی پابندیاں لگانے کی حامی تحریک بی ڈی ایس کے منشور کی ہم نوا ہے۔جے وی پی کا موقف ہے کہ اگر صیہونیت مخالف یہودی اسرائیل کا عملی معاشی بائیکاٹ کریں تو اسرائیل کی اپارتھائیڈ پر مبنی نو آبادیاتی پالیسی بتدریج کمزور ہو سکتی ہے اور یوں اسرائیل فلسطینی مسئلے کے ایک منصفانہ حل کے لیے لچکدار رویہ اپنانے پر مجبور ہو جائے گا۔
جے وی پی اسرائیلی فوج کو جنگی استعمال کے بلڈوزر فراہم کرنے والی امریکی کمپنی کیٹر پلر کے خلاف دو ہزار چار سے مہم چلا رہی ہے اور اس نے کئی شئیر ہولڈرز کو کیٹر پلر سے علیحدگی پر قائل بھی کیا ہے۔
جے وی پی کی بنیاد انیس سو چھیانوے میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا کی تین طالبات جولی اینی ، ریچل آئزنر اور جولیا کپلان نے رکھی۔آج جے وی پی کے تئیس ہزار رجسٹرڈ ممبر اور لاکھوں حامی ہیں۔ اس کی مالی اعانت کرنے والوں میں ارب پتی کاروباری جارج سواریز، ایمیزون کے ایک بانی رکن شیل کپہان کی فاؤنڈیشن اور راک فیلر فنڈ نمایاں ہیں۔جے وی پی کو ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی روشن خیال ارکان کی حمائیت بھی حاصل ہے۔
جے وی پی کی بنیادی طاقت وہ جوان نسل ہے جسے امریکا کے یہودی اسکولوں میں فلسطین کی گمراہ کن تاریخ پڑھائی گئی۔مگر جب انھیں اسرائیل کا مطالعاتی دورہ کروایا گیا تو انھیں محسوس ہوا کہ جو پڑھایا گیا حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ فلسطین کوئی خالی زمین نہیں تھی جس میں یہودی آ کر بس گئے بلکہ ہم جیسے ہی تہذیب یافتہ انسانوں کو اجاڑ کے اور محکوم بنا کے جدید اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی۔
ویسے تو روشن خیال امریکی یہودیوں کی ایک بڑی تنظیم جے اسٹریٹ بھی ہے جو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ دو ریاستی حل کی حامی ہے مگر جیوش وائس فار پیس کی طرح کھلم کھلا صیہونیت مخالف نہیں ۔
جے وی پی کا موقف ہے کہ نسل پرست صیہونی نظریہ یورپ کے اشکنازی یہودیوں کی ایجاد ہے اور اشکنازی عرب دنیا اور شمالی افریقہ میں صدیوں سے آباد سفاری یہودیوں کو اپنے برابر نہیں سمجھتے اور مشرقی یہودی برادریوں کی ثقافتی روایات کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور انھیں بھی اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔
اس کا واضح ثبوت اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ پر ہمیشہ سے اشکنازی یہودیوں کا تسلط ہے جو خود کو پوری دنیا کے یہودیوں کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں حالانکہ یہودیوں کی ایک کثیر تعداد اسرائیل کو نوآبادیاتی خمیر سے اٹھنے والی ریاست سمجھتے ہیں جس کا رنگ و نسل و عقیدے کی بنیاد پر انسانی مساوات کے نظریے سے کوئی لینا دینا نہیں۔
( یعنی جس طرح ہندوتوا کے پرچارک تمام ہندوؤں پر اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتے ہیں اسی طرح صیہونی تمام یہودیوں کو اپنے نظریاتی دائرے میں لانا چاہتے ہیں )۔
جے وی پی فلسطینیوں کی آبائی گھروں کو واپسی کا حق تسلیم کرتی ہے۔جے وی پی کی اس سوچ کے سبب اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ برملا تو نہیں کہتی مگر عملاً اسے یہود دشمن تنظیم سمجھتی ہے۔
سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بارے میں جے وی پی کا موقف ہے کہ اس کا سبب بھی برسوں سے جاری جابرانہ اسرائیلی پالیسیاں ہیں۔انتہا پسندی کا نتیجہ مزید انتہاپسندی کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔دھشت گردی قابلِ مذمت ہے مگر ریاستی دھشت گردی کو بھی ہرگز جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جے وی پی پہلی یہودی تنظیم ہے جس نے سولہ اکتوبر دو ہزار تئیس کو غزہ میں فوری جنگ بندی کے حق میں واشنگٹن میں ریلی نکالی اور بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر معطل کی جائے۔ستائیس اکتوبر کو جے وی پی کے سیکڑوں حامیوں نے نیویارک کے گرینڈ سینٹرل ٹرمنل کا کئی گھنٹے تک محاصرہ کیے رکھا۔گزشتہ برس چھ نومبر کو جے وی پی نے جنگ بندی کے حق میں مجسمہِ آزادی کے سامنے دھرنا دیا۔اس کے ردِعمل میں کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ نے کیمپس کے اندر جے وی پی کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔جب کہ گزشتہ جون میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی انتظامیہ نے بھی یہی کیا۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد جے وی پی نے ان کے حق میں پوسٹ شایع کی تو انسٹا گرام نے اس کا اکاؤنٹ عارضی طور پر معطل کر دیا۔
جیوش وائس فار پیس کے حامی یورپ میں بھی سرگرم ہیں مگر متعدد یورپی حکومتیں جے وی پی کو ایک گمراہ یہودی گروہ سمجھتی ہیں۔ البتہ فلسطینی ایڈوکیسی گروپس کے برعکس جے وی پی کو یورپ میں سخت پابندیوں کا سامنا نہیں۔کیونکہ جے وی پی والے بھلے صیہونیت اور اسرائیل کے مخالف سہی مگر ہیں تو یہودی۔لہٰذا ریاستیں ان پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے سوچتی ہیں کہ کہیں ان پر بھولے سے بھی یہود دشمنی کا ٹھپہ نہ لگ جائے۔البتہ اسرائیل کا بس چلے تو وہ ایسی تنظیموں کو جو گھر کی بھیدی ہیں کچا چبا جائے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)