حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓبنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے۔ سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسندِ خلافت پر فائز ہوئے۔ منصب سنبھالنے سے پہلے حد درجے امیرانہ زندگی گزار رہے تھے۔ان کی اہلیہ جنابِ فاطمہ بنت عبدالمالک ابن مروان‘ خلیفہ کی صاحبزادی تھیں۔ ان کا خاندانی پس منظر شاہی خاندان سے منسلک تھا۔ حسب نسب میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ بھی بہت بڑے خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ بنو امیہ کے دور میں مسلمانوں کی حکومت تین براعظموں پر محیط تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ‘ تقریباً آدھی دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔
خلیفہ بننے سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی نفاست کا یہ عالم تھاکہ ان کا ذاتی سامان ساٹھ اونٹوں پر روانہ ہوتا تھا۔ قیمتی ترین کپڑے پہنتے تھے اور جس جگہ سے گزر جاتے تھے وہاں ان کی لگائی ہوئی خوشبو کے آثار گھنٹوں برقرار رہتے۔حد درجے پر تعیش ماحول میں زندگی گزارنے والا یہ شہزادہ جب خلیفہ بنا تو اس کی پوری زندگی ایک سو اسی کے زاویہ سے بدل گئی ۔ سب سے پہلے تو انھوں نے بنو امیہ کے سرکردہ لوگوں کو ملی ہوئی جاگیریں ختم کر دیں جس میں ان کی اپنی جاگیر بھی شامل تھی ۔اپنے گھر کا پورا قیمتی سامان اور بیوی کے زیورات تک بیت المال میں جمع کروا دیے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ انھوںنے سادگی سے نہیں بلکہ غربت میں رہنا شروع کر دیا۔ عید کی آمد آمد تھی ۔
بیوی جو بذات خود بادشاہ کی بیٹی تھی‘ نے فرمائش کی کہ چلو میرا اور آپ کا گزارہ تو پرانے کپڑوں میں ہو جائے گا لیکن بچے اور بچیوں کو نئے کپڑے دلوا دیجیے ۔ خلیفہ بیت المال سے حد درجہ قلیل وظیفہ وصول کرتے تھے جو ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اکثر ناکافی ہوتا تھا۔ تین براعظموں کے خلیفہ نے بیت المال کے امین کو بلایا اور کہا کہ عید آنے والی ہے لہٰذا انھیں ایک مہینے کی تنخواہ ایڈوانس میں دے دی جائے۔ کردار کی عظمت کا اندازہ لگایئے کہ بیت المال کے عمال نے کہا کہ محترم خلیفہ میں آپ کو ایک ماہ کا وظیفہ قبل از وقت دیے دیتا ہوں ۔ مگر آپ کاغذ پر لکھ دیجیے کہ آپ پورا ایک مہینہ زندہ رہیں گے ۔ خلیفہ وقت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انھوں نے کچھ بھی لکھنے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عید پر بچے اور بچیوں کے نئے کپڑے نہ بن سکے ۔
بیت المال کے اندراتنی خطیر رقم جمع تھی کہ کوئی ضرورت مند اور حاجت مند باقی نہ رہا تھا جو سرفراز نہ ہو پائے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب حکومت وقت کے پاس کثیر دولت موجود تھی اور زکوٰۃ لینے والا دور دور تک نظر نہ آتا تھا۔ خیر عید کا دن آیا ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نماز پڑھنے کے بعد گھر گئے تو بیٹیوں نے منہ پر دوپٹہ باندھ رکھا تھا۔ اہلیہ سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے۔ انھوں نے ہچکچاتے ہوئے بتایا کہ عید کے دن گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا لہٰذا بچیوں نے پیاز کے ساتھ روٹی کھائی ہے۔ انھیں اندیشہ ہے کہ پیاز کی بدبو کہیں والد کے لیے آزار کا باعث نہ بنے ۔اس لیے منہ پر دوپٹے باندھ رکھے ہیں۔
خلیفہ وقت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے فرمایا کہ بچو میں چاہوں تو دنیا جہان کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر کر سکتا ہوں مگر سوچو مرنے کے بعد خدا کے حضور پیش ہو کر کیا جواب دوں گا۔ بچوں نے بے ساختہ کہا کہ ابا حضور ہمارے لیے آپ کے یہ جملے ہی کافی ہیں ۔ ہمیں کچھ بھی نہیں چاہیے ۔یہ وہ دور تھا جس میں مسلمان آدھی دنیا پر حکومت کر رہے تھے اور ان کے پاس محیر العقول سطح کے وسائل جمع ہو چکے تھے ۔
خود احتسابی کی یہ کیفیت ‘ مسلمانوں کے عظیم دور کی درخشاں مثال ہے۔ ایک بات اور عرض کرتا چلوں ۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کو خلیفہ بننے کے لیے کہا گیا تو انھوںنے یہ بار گرا اٹھانے سے صاف ا نکار کردیا ۔ فرمانے لگے کہ وہ اس قابل نہیں کہ سلطنت کا بوجھ اٹھا پائیں ۔مگر لوگوں کے اصرار اور وصیت کے مطابق انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ مسند خلافت پر براجمان ہوں۔
خود احتسابی کا عمل دراصل حکمران کے لیے سب سے بڑا اور کڑا امتحان ہوتا ہے ۔ جو قومیں سادہ حکمران پاتی ہیں ‘ تو وہ اسی دنیا میں ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیتی ہیں کہ پوری زمین ان کی ٹھوکر پر ہوتی ہے ۔ حکمرانوں کو دولت سے دوری اختیار کرنی چاہیے۔ جب تک یہ معمول اسلامی دنیا میں رہا ‘ تو پوری دنیا مسلمانوں کی عظمت سے لرزاں تھی ۔ یاد رکھیئے کہ اس زمانے میں یہ سب کچھ خلیفہ ِوقت اپنے اوپرذاتی احتساب کی بدولت کرتے تھے ۔ آج دنیا میں پچاس سے زیادہ مسلمان ملک ہیں اور مسلمانوں کی تعداد تقریباً دو ارب نفوس پر مشتمل ہے ۔
یہ پوری دنیا کی آبادی کا چوبیس فیصد حصہ بنتا ہے۔ ان تمام ملکوں میں آپ حکمران طبقے کی طرف نظر ڈالیے تو دل لرز جاتا ہے۔ مسلمان ملکوں کے حکمران ذاتی دولت جمع کرنے کے خبط میں ہلکان ہو رہے ہیں ۔ ان کی خواہش صرف یہ ہے کہ مرنے کے بعد ان کی اولاد تخت پر فائز ہو ۔ مسئلہ صرف بادشاہت اور انتقال اقتدار کا ہے۔اور اس کے لیے ہر ناجائز عمل ‘ ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاتا ہے ۔ سعودی عرب جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا تھا۔ وہاں کا شاہی خاندان ڈیڑھ ٹریلین ڈالرز کا مالک ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد نے 2017میں چار سو پچاس ملین ڈالر کی ایک پینٹنگ خریدی جسے Leonardo da vinci نے بنایا تھا اور اس کا نام Salvator mundiہے ۔ولی عہد نے چارسو چالیس فٹ لمبی پر تعیش کشتی بھی خریدی جس کی قیمت نصف بلین ڈالر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دنیا کا سب سے مہنگا ترین گھر بھی انھیں کا ہے جو فرانس میں موجود ہے اور اس کی قیمت تین سو ملین ڈالر ہے ۔کسی کی برائی یا اچھائی کی بات نہیں کر رہا ۔ عرض کرنے کا مقصد صرف ایک ہے کہ آج ان وجوہات کی بنا پر مسلمان مکمل طور پر راندہ درگاہ ہو چکے ہیں ۔ امریکا اور اسرائیل ان کی شاہ رگ اپنے قبضے میں کر چکے ہیں ۔ کسی بھی مسلمان ملک کے حکمران کے پاس اتنی اخلاقی طاقت نہیں ہے کہ وہ برابری کی بنیاد پر دنیا کی سپر پاور کے ساتھ بات کر سکے ۔ آج بھی امریکی صدر ‘ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کا فون اپنی مرضی پر سنتا ہے ۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ امریکی صدر نے مسلمان بادشاہوں کے متعلق تحقیر آمیز جملے بھی کہے ہیں۔ مگر کردار کا ادنیٰ پن دیکھیے کہ ان میں سے کوئی بھی چوں تک نہیں کر سکا۔
کسی ملک سے لینا دینا نہیں ۔ اپنی سوچ کا محور صرف پاکستان رکھتا ہوں۔ خدا نے اتنے وسائل عطا فرمائے ہیں کہ کسی بھی مغربی ملک کی شہریت ایک گھنٹے میں حاصل کر سکتا ہوں۔ مگر آج تک پاکستان چھوڑنے کے متعلق ذہن میں کبھی کسی خیال کو پنپنے نہیں دیا۔ اپنی مٹی سے عشق ہے۔ مگر جب میں پاکستان کے حکمرانوں کی طرف بغیر تعصب کے دیکھتا ہوں تو عقل جواب دے جاتی ہے ۔
پینتیس سال اقتدار کی غلام گردشوں میں رہنے کے باوجود ‘ میں نے ایک حکمران نہیں دیکھا جو قومی خزانے کی حفاظت کرنا چاہتا ہواور اسے شیر مادر نا گردانتا ہو ۔ کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ قومی وسائل کو بے دریغ برباد کرنے میں سب برابر ہیں۔ محمد خان جونیجو صوفی منش اور سادہ طبیعت انسان تھے مگر انھیں اپنی ایمانداری کا صلہ اس منفی طریقے سے ملا کہ سیاست میں ان کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا ۔ حکمران اگر قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیں تو پاکستان کی بربادی کی جامع وجوہات سامنے آ جاتی ہیں ۔ عجیب سچ یہ ہے کہ ہمارے غیر سویلین حکمران جو اقتدار پر قابض رہے ‘ وہ سویلین حکمرانوں سے ذاتی زندگی میں قدرے اجلے تھے ۔
یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ کوئی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ مگر بہر حال انھوںنے اپنی اولاد اور خاندان کو حکومتی وسائل سے اتنا مستفید نہیں ہونے دیا جتنا کہ سویلین حکمرانوں نے بربادی فرمائی۔ لکھتے ہوئے حجاب آ رہا ہے کہ موجودہ حکمران جب نیویارک ایک سرکاری میٹنگ میں تشریف لے گئے تو سینٹرل پارک کے سامنے دنیا کے سب سے مہنگے ہوٹل کے سب سے بیش قیمت کمرے میں قیام پذیر ہوئے ۔
یہی حال ان کے ساتھ ان کے وفد کے اراکین کا تھا۔ سرکاری جہاز کو ہمارے بیشتر حکمران سائیکل کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔ اور ناصرف وہ بلکہ ان کے اہل خانہ اور رشتے دار بھی سرکاری جیٹ پر سفر کرنا بالکل برا نہیں سمجھتے۔ پنجاب حکومت کا بھی سرکاری وسائل کے استعمال کا وطیرہ جو ان سے پہلے لوگوں کا تھا، وہ اب تک قائم ہے ۔ یقین ہے کہ عالم اسلام میں نا کوئی عمر بن عبدالعزیز جیسا عظیم کردار نمودار ہو گا اور نہ ہی کوئی ایماندار حکمران۔اب تو لکھتے ہوئے بھی دم گھٹنے لگا ہے ۔دراصل حکمران کی اصل عظمت ‘ کڑی خود احتسابی میں پنہاں ہے!