حکومت پاکستان کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام پر مذاکرات کے دوران بورڈ آف ریونیوکا ٹیکس شارٹ فال اور ڈھائی ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ آئی ایم ایف کا اہم موضوع رہی۔
ا س کے علاوہ حکومت پنجاب نیا زرعی انکم ٹیکس کا قانون بھی قومی مالیاتی پیکٹ سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتا۔تاہم پنجاب کی وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری اس کی تردیدکرتی ہیں۔ان کا کہناہے کہ پنجاب کا نیاترمیم شدہ قانون پوری طرح قومی مالیاتی پیکٹ سے مطابقت رکھتا ہے۔
چلو سندھ کے برعکس پنجاب حکومت نے اس ضمن میں قانون سازی تو کی ہے۔ جہاں تک بیرونی فنانسنگ کے گیپ کا تعلق ہے تو اس ضمن میں حکومت پاکستان نے ایک بارپھر چین اور سعودی عرب سے رابطہ کیا ہے۔پاکستان سعودی عرب سے ادھاریا مؤخر ادائیگیوں پر تیل خریدنے کا خواہاں ہے۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بات چیت مکمل ہونے کے بعد ابھی تک آئی ایم ایف نے ٹیکس کے شارٹ فال اور بیرونی فنانسنگ کے حوالے سے اپنی طرف سے کوئی حتمی فیصلہ جاری نہیں کیا۔عالمی ادارے کا وفد واشنگٹن جاکر اپنے ہیڈکوارٹرز سے مشاورت کے بعد کوئی سوالنامہ بھیجے گا۔
عالمی ادارے کو پاورڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی نجکاری میں تاخیر پر بھی تشویش ہے،وہ دسمبرتک پاکستان ساورن فنڈ ایکٹ میں بھی ترمیم کا مطالبہ کررہا ہے۔وہ گیس سیکٹر کے سرکلرڈیٹ کی تعریف بھی بدلنا چاہتا ہے۔
وہ بجلی اور گیس کے سرکلر ڈیٹ کی ماہانہ رپورٹنگ کا تقاضا کررہا ہے ،پاور اور پٹرولیم ڈویژنز ابھی تک اس کی باقاعدگی سے مانیٹرنگ نہیں کر رہیں۔آئی ایم ایف نے قومی مالیاتی پیکٹ پر عملدرآمد کے معاملے بعض خامیوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔اس پیکٹ پر پانچوں وزرائے خزانہ نے دستخط کر رکھے ہیں،اس کا مقصد انکم ٹیکس ریٹس کو یکساں بنانا اور بعض اخراجات کا بوجھ صوبوں کو منتقل کرنا ہے۔