ستم
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں، کیا کیا سناؤں
دور حاضر کی حالت زار کچھ ایسی ہی ہوگئی ہے کہ غریب مڈل کلاس خاندانوں کا ابھی سویرا بھی نہیں ہوتا ان کے سامنے دن بھر بلکہ مہینے بھر بلکہ شاید سال بھر بلکہ اگر یہ کہیں تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ زندگی بھر کے چیلنجز ان کی آنکھوں میں جھلملا رہے ہوتے ہیں کیونکہ وقت ہی اتنا مشکل آن پڑا ہے۔
وقت حاضر کا سب سے بڑا جن ’’مہنگائی کا جن‘‘ ہے جسے بوتل میں بند کرنا وطن عزیز کے اس مڈل کلاس غریب طبقے کے لیے تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ یہاں راقم نے تفریق سے کام لیتے ہوئے صرف غریب مڈل کلاس کا ہی ذکر کرنا چاہا چونکہ امراء، حکمران، اشرافیہ نے اتنی ذخیرہ اندوزی کر رکھی ہے کہ ان کی تو نسلیں پرتعیش زندگی بسر کر سکتی ہیں اور اب بھی وہ عیاشی ہی کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ وطن عزیز کی غریب مظلوم مڈل کلاس عوام جنھیں اگر اردو بولنے والے یا سابقہ روشنیوں کے شہر کے حقیقی باشندے یا وارث کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا جب کہ کراچی شہر تو وہ مظلوم ’ماں‘ ہے جو پورے ملک کو سیراب کرتی ہے۔
دیگر علاقوں سے آنے والوں کو نہ صرف گلے لگاتی ہے بلکہ سر آنکھوں پر بھی بٹھاتی ہے مگر جب بات ہو اس کے حقوق کی تو وہی حال جو ایک ماں کا ہوتا ہے کہ سب ہی بچے اس سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں اور یہ لاچار ماں بے بسی کی تصویر بنے اپنے جگر گوشوں کی بے حسی ویران آنکھوں سے تکتی رہتی ہے اس امید کے ساتھ کہ شاید ایک دن آئے گا کبھی آئے گا کبھی تو آئے گا جب اس دھرتی ماں کو اس کا جائز حق ملے گا پر اب تو اس کی آنکھوں میں بھی مایوسی نا امیدی صاف جھلکنے لگی ہے۔
اب وہ یہ سوچتی ہے کہ شاید اس کی پرورش میں ہی کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہوگی اور ہاں بالکل صحیح کمی تو واقعی رہ گئی ہے۔ اس دھرتی کو جس دین اور کلمے کے نام پر حاصل کیا گیا تھا وہ اسی آفاقی عظیم الشان دین کی تعلیمات سے دور ہوگئی جس میں ہر طرح کی فلاح ہے دونوں جہانوں کی۔ ہم تفرقوں میں بٹ گئے ہیں جب کہ ہمیں تو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا تھا اور تفرقہ نہیں کرنا تھا۔
آج ہمارے امراء حکمران اشرافیہ اتنے بلند مرتبے پر اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ وہ مڈل کلاس غریب عوام کے ساتھ چل نہیں سکتے بیٹھ نہیں سکتے ان کے ساتھ قدم سے قدم نہیں ملا سکتے تو وہ ان کے لیے کیا کرسکتے ہیں جب کہ وہ مثال خلفاء راشدین خصوصاً حضرت عمرؓ کی طرز حکمرانی کی دیتے ہیں تو کیا وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر ایک بھی علاقے کا چکر لگا کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون کون اس وقت بھوکا سو رہا ہے وہ تو صرف یہ نہیں جان سکتے تو وہ اپنی رعایا کی فکرات تکلیفوں پریشانیوں کو کیا خاک جانیں گئے۔
وہ کیا سمجھ بیٹھے ہیںکہ اس عارضی دنیا کا کوئی اختتام نہیں، عذاب و ثواب کا کوئی سلسلہ نہیں، سوال و جواب کا کوئی دن منعقد نہیں ہونے والا۔ غریب مظلوم عوام پریشانیوں میں مبتلا ہو ہو کر روز دم توڑ رہے ہیں۔ ان امراء کی دنیاوی رسی خدا نے فی الحال دراز کی ہوئی ہے تو یہ اپنی دنیا میں گم ہیں اور رہیں گئے شاید اس وقت تک جب وہ خدا کی بنائی ہوئی رسی کھینچ نہ لی جائے۔ آج یہ نت نئے طریقوں سے روز کوئی نہ کوئی پیش بندی کر رہے ہوتے ہیںکہ کس طرح اس طبقے کو ڈسنا ہے۔ صفورا چورنگی سے جیل چورنگی تک یونیورسٹی روڈ کی خوبصورت ترین شاہراہ کی جو درگتی اس طبقے نے سالوں سے بنائی ہوئی ہے، دھول مٹی پانی کا ضیاع اس سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے غریب عوام کو یہ سمجھنا کوئی ایسی پہیلی نہیں جسے بوجھا نہ جا سکے۔
اشرافیہ کے پاس انگنت جائیدادیں ہیں پر یہ غریب مڈل کلاس خاندانوں کی اکثریت ایک بھی سر چھپانے کی جگہ نہ لے سکے اس کے حربے نکالے جاتے ہیں تاکہ وہ بے گھر سڑک پر ہی دم توڑ دے جب کہ اشرافیہ کے محلات، بنگلے جائیدادوں کی کوئی جانچ نہیں کیونکہ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیسے ظہور پذیر ہوئیں تو ان کے ہوتے سوتے جو بیرون ملک رہائش پذیر ہیں اپنے ذرایع آمدن پیش کردیتے ہیں۔
ان کے پاس اتنی دولت جائیدادیں ہیں کہ اگر یہ اس کا پانچ فیصد بھی اس ملک کو دے دیں اس کی مشکل گھڑی میں جسے انھوں نے لوٹا اور خوب لوٹا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی خواہشات کی تکمیل کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لے لے کروہ سب ادا ہوجائیں گے پر یہ گرتی ہوئی دیوار پر کیوں داؤ کھیلنا چاہیں گے ابھی قرضے کی کوئی قسط آتی نہیں اس طبقے کی مراعات کی فہرست پہلے سے تیار ہوتی ہے کہ انھیں گاڑی دینی ہے تنخواہ دینی ہے ان کے گھر حتی کے ان کے چولہے جلانا ہے جیسے وہ سب کے سب مستحق ہوں۔
ان کی روز بڑی بڑی دعوتیں ہوتی ہیں پر پھر بھی ان کے کچن درجنوں نت نئی اقسام کے کھانوں کی تیاری کے لیے دہکتے ہیں جس کا اختتام رزق کی ناقدری پر ہی ہوتا ہے اور یہ سب عوام کے ٹیکسوں سے ہی ہوتا ہے پر اس مظلوم طبقے کو یہ پوچھنے کا حق نہیں کہ ان کا پیسہ کہاں استعمال ہورہا ہے جب کہ ان کی محنت کی پینشن تک دینے میں جو ان کا جائز حق ہے اس میں بھی اس ٹولے کو شدید تکلیف ہوتی ہے اس کی کوشش رہتی ہے کہ آیندہ سے اس وظیفے کو بند کردیا جائے اور جو دی جا رہی ہیں اس کے لیے مدت تراشی جا رہی ہے۔
اس روح فرسا خبر کو اتنا چلایا جاتا ہے تا کہ ایک نہ ایک دن اس کو عملی جامہ پہنا سکیں اور وہ عوام جو اس قلیل سے وظیفے سے ایک عزت کی زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے محتاج اور لاچار ہو جائیں اور اپنی موت کی فریاد کریں اور اس طرح ایک اور ان کی راہ کا کانٹا ہٹ جائے نجانے اس عظیم مملکت کو یہ طبقہ کس طرف لے کر جائے گا جس سے نہ جانے کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا صرف و صرف اس حقیقی دین کی خاطر جس کی تعلیمات میں فلاح ہی فلاح ہے پر اس کی آفاقی تعلیمات سے الحمداللہ دنیا منور ہورہی ہے۔
پر اس دھرتی کی بدقسمتی کہ اس کے کرتا دھرتا اس سے اندھیروں کی طرف دھکیل رہے ہیں صرف اپنے مطلب کے لیے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جن ممالک نے بہ حالت ضرورت اگر کبھی ایک آدھ مرتبہ قرضہ لیا بھی ہے تو انھوں نے اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنانے کی کوشش کی کہ انھیں دوبارہ مستقبل میں کبھی قرضہ نہ لینا پڑے، پر افسوس صد افسوس ہمارے حکمرانوں کو تو اس کا ایک چسکا لگ گیا ہے کہ لینا ہی لینا ہے اور اپنے اخراجات پورے کرنے ہیں نہ کہ ملک و قوم کے، جس کے زیر اثر ادارے املاک اور دیگر اثاثہ وطن نجی تحویل میں خوشی سے دیے جا رہے ہیں بغیر عوام الناس کی رائے شماری کے۔
غریب تو بدنصیب ہر جگہ ہر شکل میں اپنے فرائض پورے کررہا ہے اور اس کو ایک پیسے کی سہولت نہیں وہ مرے جیئے اس سے کسی کو سروکار نہیں حالانکہ ایک صحت مند معاشرے میں جہاں فرائض ہیں وہاں حقوق بھی ہوتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں۔ آج ذرا کسی پر وقت پڑ جائے تو حکومتی سطح پر کافی دھکے کھانے کے بعد بھیک دی جائے گی ضرورت مند کو پیروں پر کھڑا کرنے کے بجائے روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے بجائے اور بھیک تو بھیک ہے جس میں ذلت ہے رسوائی ہے پر عزت نہیں جس کی حتمی شکل والدین کی بچوں سے دوری یا محرومی بھی ہے جس کے حاصلات انتہائی دردناک نکل رہے ہیں۔