مئی کا مہینہ ہے اور سورج اپنی پوری آب و تاب سے آگ برسا رہا ہے، حبس اور لُو نے ہر کسی کو بے حال کیا ہوا ہے، انسان تو انسان چرند و پرند بھی گرمی سے نڈھال ہیں، درختوں کی کٹائی اور ہر طرف کنکریٹ کے جنگل کی صورت میں پھیلی ہوئی عمارتوں نے کراچی کو آگ کا گولا بنا دیا ہے۔
اونچی عمارتوں اور تنگ سڑکوں کے باعث گرم ہوائیں شہر کے اندر ہی گھوم رہی ہیں، جس کی وجہ سے 40 ڈگری کا درجہ حرارت 45 ڈگری کا محسوس ہوتا ہے۔ گرمی سے بچاؤ کے لیے پنکھوں، ایئرکنڈیشنز اور روم کولرز کے مسلسل استعمال نے بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا ہے، جن کو اس مشکل معاشی دور میں ادا کرنا آسان نہیں۔
پاکستان دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جس کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں اور یہاں کا درجہ حرارت دنیا کے دیگر ممالک سے 10 سال پہلے ہی بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ پاکستان کا جنوبی خطہ موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہے جس میں کراچی بھی شامل ہے۔
کراچی جو کبھی اپنے معتدل موسم کے لیے مشہور تھا، بدترین موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور رواں سال زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، جس کی شدت حبس اور لُو کے باعث 47 سے 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک محسوس کی گئی۔ درجہ حرارت میں اضافے نے کراچی کی مرطوب آب و ہوا کے ساتھ مل کر وہ ستم ڈھایا جس کو بہت سے لوگ برداشت ہی نہ کرسکے ۔
کراچی کا موسم ہمیشہ سے گرم نہیں ہے، بلکہ ایک زمانہ میں تو پورے پاکستان میں کراچی کے موسم کی مثال دی جاتی تھی۔ ابھی تیز دھوپ ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے کالے بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ لیا اور پھر ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی۔
خصوصاً جون، جولائی اور اگست میں تو کراچی کے موسم ملکہ کوہسار مری کے موسموں کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ اندرون سندھ اور ملک کے دیگر حصوں سے لوگ کراچی میں اپنے رشتے داروںکے ہاں چھٹیاں منانے آتے تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ ٹھنڈی اور فرحت بخش ہواؤں کا شہر آگ کا گولہ بن گیا، جب کہ گرمی تو پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی پڑتی ہے؟
اس کی وجہ کراچی کا گنجان آباد اور ساحلی شہر ہونا ہے، جس میں سال کے 12 ماہ میں سے 6 ماہ گرمی جب کہ 3 ماہ شدید اور جھلسا دینے والی گرمی پڑتی ہے، بقیہ 3 ماہ متعدل اور ٹھنڈے قرار دیے جاسکتے ہیں۔
درجہ حرارت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ شہر کا تیزی سے بے ہنگم پھیلاؤ اور عمارتوں میں کنکریٹ اور سیمنٹ کا استعمال ہے۔ درخت اور سبز مقامات ختم ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ ٹھوس ڈھانچے، عمارتیں اور سڑکیں لے رہی ہیں۔ بلند و بالا عمارتوں نے ایک طرف سمندری ہواؤں کا راستہ روک دیا ہے تو دوسری جانب قریب قریب بنائی گئی عمارتوں سے گرم ہواؤں کا اخراج نہیں ہوپاتا۔
سیمنٹ اور کنکریٹ کے یہ ڈھانچے سارا دن حرارت اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور جب سورج ڈھل جاتا ہے تو پھر حرارت باہر خارج کرنا شروع کردیتے ہیں، جس سے دن تو دن رات میں بھی موسم گرم رہتا ہے۔ قریب قریب بنائی گئی عمارتوں میں کھڑکیاں ہوتی ہیں نہ ہی روشندان، جس کی وجہ سے گھروں میں ہوا اور روشنی آنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
تبدیل ہوتے ہوئے موسم کے سبب دنیا میں تعمیرات پر خاص توجہ دی جارہی ہے، اس کے باوجود تعمیراتی صنعت دنیا میں 40 فیصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی ذمے دار ہے اور اس میں سیمنٹ کا حصہ 8 فیصد ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو اس مسئلے کا ادراک ہے، اس لیے اب وہاں گرین بلڈنگ اسٹینڈرڈز کے مطابق عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔
جس میں گھرکو اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ ہوا اور روشنی گھرکے اندر آئے اور بجلی کا استعمال کم سے کم ہو۔ اے سی، پنکھے، لائٹس کم جلیں اور پانی بھی کم استعمال ہو، کیوں کہ متوازن درجہ حرارت برقرار نہ رکھنا بھی توانائی کا ضیاع ہے۔
ماہرین کے مطابق توانائی کا زیادہ استعمال اور اس کی کھپت کا دارومدار گھروں میں برقی آلات اور اُن کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ عموماً ایک ڈگری سینٹی گریڈ بڑھنے سے توانائی کی کھپت میں 10 فیصد تک اضافہ ہوجاتا ہے۔
تاہم گھروں کے دروازے بند رکھنے سے بجلی کے بل میں کمی لائی جاسکتی ہے، اگر کمرے کا دروازہ بند کردیا جائے تو باہر کا موسم گھر کے اندر کم اثر انداز ہوتا ہے۔ سردیوں میں کمروں کے بند دروازے اور کھڑکیاں گرمائش پیدا کرتے ہیں تو گرمیوں میں گرم ہوا کا گزر نہ ہونے اور پردے لگا کر دھوپ روکنے سے گھر کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
مشہورکہاوت ہے کہ ’’آم کھاؤ پیڑ نہ گنو‘‘ لیکن ہم آم کھاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ آم کے درخت لگانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا آم کھانا۔ گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے ہم اے سی اور روم کولر وغیرہ استعمال کرتے ہیں، جس کی قیمت ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔
شاپنگ مال میں لگا سینٹرل ایئرکنڈیشننگ سسٹم مال کو تو ٹھنڈا رکھتا ہے لیکن وہی مصنوعی ٹھنڈک درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
دنیا تو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کررہی ہے، لیکن ہم ابھی تک ماحولیات کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نہ درخت لگاتے ہیں اور نہ ہی گرین بلڈنگ اسٹینڈرڈز کے مطابق عمارتیں بناتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ ہمارے شہروں اورگھروں میں جس طرح کا ڈھانچہ اور بناوٹ ہے وہ بدلتے موسم کے لیے موافق نہیں ہے۔
ضروری ہے کہ اربن پلاننگ اور عمارتوں کی تعمیر میں ماحول دوست طریقے رائج کیے جائیں۔ اس کے علاوہ گھرکے اندر اور باہر درخت لگانے سے گرمی کی شدت کو خاصا کم کیا جاسکتا ہے۔ عمارتوں میں ماحول دوست اور انرجی ایفیشینٹ کنسٹرکشن میٹریل کا استعمال اور روشنی و تازہ ہوا کی آمدورفت کو یقینی بنایا جائے۔
چھتوں پر سفید رنگ کا پینٹ کروانے سے بھی گرمی کی شدت میں کمی آتی ہے، اگر چھت ٹھنڈا رکھنے والا سفید پینٹ دنیا بھر کی ہر چھت پر استعمال کیا جائے تو عالمی سطح پرکاربن کے اخراج میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف ماحولیات کے لیے سود مند ہیں بلکہ توانائی کے استعمال میں کمی کا سبب بھی بنتے ہیں، جس سے معیشت پر دباؤ میں کمی آتی ہے اور ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔