یاران نکتہ داں کے لیے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی معلم آسان اردو زبان میں درس دے رہا ہے

محمد اشفاق بدایوانی اردو ادب کی معروف شخصیت ہیں جو کہ طویل عرصے سے سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔ سینئر صحافی و شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف محمود شام کے دست مبارک سے محمد اشفاق بدایوانی کی کتاب’’ یاران نکتہ داں‘‘ مطالعے کے لیے ملی۔

پہلی فرصت میں اس کا مطالعہ کیا جسے پر مغز پایا۔ اس کتاب کا سرورق سادہ مگر پروقار ہے۔ کتاب چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنف نے کتاب کا انتساب شریک حیات ڈاکٹر غزالہ کے نام کیا ہے۔ مصنف محمد اشفاق بدایوانی میری بات میں لکھتے ہیں کہ ’’ بات کہنے کے لیے نطق درکار ہوتا ہے اور بات کرنے کے لیے سلیقہ۔‘‘ کتاب کی فہرست 37 عنوانات پر مشتمل ہے، ہر عنوان کی تحریر اپنے اندر معلم کی حیثیت رکھتا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی معلم آسان اردو زبان میں درس دے رہا ہے اور ہر لفظ قارئین کے اذہان میں نقش ہو رہا ہے۔ کتاب کی یہی خوبی اسے دیگر کتابوں سے منفرد کرتی ہے۔ مصنف کے بارے میں معروف شعراء حضرات نے اپنے منظوم خیالات کا اظہار کیا ہے، جن کے نام یہ ہیں۔ محمود شام، حیدر حسنین جلیسی، محمد مختار علی، افروز رضوی، آفتاب ترابی، قمر حیدر قمر اور نسیم سحر۔

محمود شام لکھتے ہیں کہ ’’یاران نکتہ داں‘‘ کے لیے کا مسودہ دیکھنے میں آ رہا ہے تو بہت برسوں بعد یہ اطمینان ہو رہا ہے کہ نئی نسل کو اردو کے خزانوں سے، اردو زبان کی وسعتوں سے، اردوگرامر کی نزاکتوں سے، اردو نثر کی مختلف جہات، اردو شاعری کی متنوع اصناف سے آگاہی کے لیے ایک مسودہ کوشش منظر عام پر آنے والی ہے۔

(جواب منظر عام پر آچکی ہے)۔ محمد اشفاق بدایوانی جہاں بھی ہوں۔ اپنی گفتگو سے محفل کو کشت زعفران بھی بنادیتے ہیں اور آپ کو اردو ادب کے مختلف ادوار میں بھی ساتھ لے چلتے ہیں۔

پورا خاندان ہی کراچی کے مطلع پر کبھی تاباں تھا۔ ریڈیو، اخبارات، ادبی جرائد، مباحثوں، ادبی محفلوں میں ان کے لازوال جملے اور قہقہے گونجتے تھے۔ پھر یہ سب کچھ اپنے ساتھ جدہ لے گئے۔ وہاں صرف پیسے اور ثواب کمانے پر توجہ مرکوز نہیں کی۔ اردو ادب اور اکیس ویں صدی کی ملینیم جنریشن (سن دو ہزار کے بعد پیدائش) کو میر، غالب اور اقبال کی اردو کی رعنائیوں سے آگاہی کے لیے ایک کتاب کا منصوبہ سوچا، جو آپ کے سامنے ہے۔

کتاب کی اشاعت، خوب صورت جلد، سرورق کے بعد کتاب کا حسین سراپا آپ کو انگلیوں کے لمس اور نگاہ و ورق کے وصل پر آمادہ کرتا ہے۔ مصنف محمد اشفاق بدایونی۔ وجہ تصنیف میں لکھتے ہیں کہ ’’ اشفاق تم لکھو، کچھ بھی لکھو، مگر لکھو، تم بولتے ایسا ہو کہ جب تم بولتے ہو تو کم ازکم میں تو کچھ اور کر ہی نہیں سکتا، سوا تمہیں سننے کے تم بولنے کے جادو گر ہو، مگر کب تک بولو گے، ایک دن مرجاؤ گے۔

ایک قلیل عرصے کے بعد لوگ تمہیں بھلا دیں گے اور پھر تمہارا نام بھی۔ میری بات مان لو۔ اگر ایک صفحہ بھی لکھ کر چھوڑ جاؤ گے تو چاہنے کے باجود بھی لوگ تمہیں بھول نہیں پائیں گے اور تم زندہ رہو گے۔احمد ہمیش بھی ایک دن مرجائے گا، مگر احمد ہمیش زندہ رہے گا۔ احمد ہمیش کے یہ وہ جملے ہیں جو میرے لاشعور میں محفوظ ہوگئے تھے۔ ‘‘

مصنف حرف۔لفظ جملہ اور تحریر کے بابت لکھتے ہیں کہ بنیادی طور پر حرف کو ایک صوتی علامت تصور کیا جاسکتا ہے، جب کہ لفظ دو یا دو سے زیادہ حروف کے اجتماع سے بننے والا با معنی مرکب ہے اور پھر انھی اور ایسے ہی الفاظ کو استعمال کرکے کسی مقصد کو بیان کرنے کے لیے ساخت کیا جانے والا لفظی تسلسل جملہ کہلاتا ہے اور نوک قلم سے جملوں کی ثبت کا خیال رکھتے ہوئے ان کو یکجا کر کے ایک بیان تخلیق کرنے کو تحریر کہتے ہیں۔

مصنف نے اردو کے حروف ابجد کی تعداد اٹھائیس۔ اردو کے مفرد حروف تہجی کی تعداد 37۔ اردو کے حروف تہجی کی کل تعداد 54بیان کی ہے۔مصنف نے لفظ کے بابت لکھا ہے کہ جب بات لفظ پر آجائے تو حرف کو سنبھال کر استعمال کرنا چاہیے تاکہ لفظ کی معنویت اور تلفظ بگڑنے نہ پائے، توگویا لفظ بھی اپنا مزاج رکھتے ہیں۔

اس لیے خیال رکھنا چاہیے، کہ کہیں ان کی تضحیک نہ ہوجائے، ورنہ نوک قلم احساس ندامت میں وہیں ڈھیر ہوجائے گی۔مصنف جملہ کے بابت لکھتے ہیں کہ ’’ الفاظ کے ایک ایسے تسلسل کو جن کو حرف کے تعاون سے جوڑ کر انتہاء بامعنی۔ واضح اور اتنا واضح کر سننے اور پڑھنے والے کو اس کا مقصد اور ہیت قطعی طور پر سمجھ آجائے، اسے جملہ کہتے ہیں۔

جملہ چاہ تقریر کا ہو یا تحریر کا مختصر ہو یا طویل زمانے کو ملحوظ رکھ کر بولا یا لکھا جانا چاہیے۔ تحریر کے بابت مصنف لکھتے ہیں کہ اپنے ذہن میں موجود خیالات کو مختلف صوتی علامتوں اور رموز کے ذریعے نوک قلم سے الفاظ کی صورت میں نکال کر قرطاس ابیض پر نقش کرنے کو تحریر کہتے ہیں۔

تحریر عربی زبان کے لفظ حر کا مشتق ہے جس کے معنی ہیں آزاد۔ آزاد ہونے کا مطلب بے لگام ہونا نہیں۔ آزاد بھی کچھ محدودات میں قید رہتا ہے۔ کچھ آزاد الفاظ خیال۔ فکر اور سوچ کو لکھنے کو تحریر کہتے ہیں، تحریر کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں، لکھنے والا ایسے الفاظ کا انتخاب کرے جو پڑھنے والے کے ذہن پر بوجھ نہ بنیں۔

لکھنے والا الفاظ کو جملوں میں یوں پرو کہ مقصدیت واضح ہونے کے ساتھ ساتھ تحریر میں ایک دل لبھانے والا حسن پیدا کرے جسے حسن تحریر کیا جاتا ہے۔ مصنف محمد اشفاق بدایونی اس کتاب کی تحریر بعنوان بیان اور زبان میں لکھتے ہیں کہ’’ ماہرین اور محققین اس بات کی نفی کرتے نظر نہیں آتے کہ پہلے پہلے جو بولی، بولی جاتی تھی وہ گونگے، بہروں کی علامتی اور تشبیاتی طرز پر ہوگی۔

لیکن بحیثیت مسلمان ہماری یہ بحث خود بہ خود ختم ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم میں سورۂ رحمن میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ’’ علمہ البیان‘‘ کہ ہم انسانوں کو بولنا سکھایا اور پھر وقت کی ضرورتوں کے تحت زبان وجود میں آئی۔

یعنی بیان یا بولی عطائے ربی ہے اور زبان ارتقا آدمیت ہے۔ آدم کو جب جنت سے زمین پر بھیجا گیا اس وقت وہ سریانی بولی بولا کرتے تھے اور جب اپنی خطا کے اعتراف اور معافی کے لیے خالق کل نے دعا نازل کی جو عربی میں تھی، اس کے بعد آدم عربی بولنے لگے بہ ایں اعتبار عربی کو زمین پر بولی جانے والی بولی مانا گیا ہے۔

جس طرح جادو دیکھنے والے کو اپنے سحر میں لے لیتا ہے اسی طرح بیان کی جادوگری بھی کم نہیں۔ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے کا مفہوم ہے کہ بعض بیان ( تقریر ) ایسی ہوتی ہیں کہ سننے والوں پر جادو جیسا اثر کرتی ہیں۔ تو یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ بیان میں شعوری مشاقیت ہوتی ہے جو بولنے والے کو معتبر ٹھہراتی ہے۔

اکابرین نے بیان کی دو قسمیں بتائی ہیں نمبر ایک نثر۔ نمبر دو نظم۔ بیان چاہے نثر میں ہو یا نظم میں بیان کی اپنی ایک تاثیر ہوتی ہے۔ بیان، اگر تلخ ہے تو زہر قاتل۔ اگر بیان شیریں ہے تو حلاوت جاں۔ اگر مہذب ہوتو اعزاز اگر کم پاؤ کا ہو تو تذلیل۔

اگر مرسل ہو تو قانون اور اگر غیر مدلل ہو تو کہانی غرض یہ کہ بیان کے پیچھے بیان دینے والے کی شخصیت کی جھلک موجود ہوتی ہے۔ بیان اگر نثر ہے تو قلمکار کا عہد اور ذات دونوں اس کے بیان میں جھلکتے نظر آئیں گے اور اگر بیان نظم ہے تو اس کے ہر شعر سے شاعر کی شعری اپچ کا پتہ چلتا ہے۔

الغرض کتاب ’’ یاران نکتہ داں کے لیے‘‘ ایک ادبی نصاب کی حیثیت رکھتی ہے، جسے کالج اور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کرنے کی تجویز دیتا ہوں اور نسل نو کو اس کے مطالعے کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ مصنف محمد اشفاق بدایونی لائق تحسین ہیں کہ انھوں نے ادبی کتاب ایسی لکھی کہ یہ ایک ہی کتاب کی ادبی کتابوں پر بھاری نظر آتی ہے۔

Load Next Story