ہم سب عارضی ہیں
ایلڈوس ہکسلے کہتا ہے’’ ہم تجریدات، ابہام، استعاروں اور تشبیہات کے ایک وسیع نظام کے ذریعے اپنے ذہنوں کی حفاظت کرتے ہیں اس حقیقت سے جسے ہم زیادہ واضح طور پر جاننا نہیں چاہتے ہیں۔ ہم اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں، تاکہ ہمارے پاس اب بھی جہالت کا عذر، حماقت اور نا سمجھی کا عذر باقی رہ جائے، جس کے حامل ہو کر ہم اچھے ضمیر کے ساتھ انتہائی بھیانک جرائم کا ارتکاب اور برداشت کرسکیں۔‘‘
عظیم منصف یوول نوح ہراری اپنی کتاب 21 Lessons for the 21st Century میں لکھتا ہے۔ چند دہائیوں سے دنیا بھر کو یہ سبق پڑھایا جارہاہے کہ انسانیت عالمی مساوات کی طرف بڑھ رہی ہے، جدید ٹیکنالوجی اور عالمگیریت کی مدد سے یہ عمل جلد مکمل ہوجائے گا۔
جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ عدم مساوات پر مبنی معاشرے تشکیل دے رہی ہے اگر چہ عالمگیریت اور انٹرنیٹ نے ملکوں کے درمیان فاصلے گھٹا دیے ہیں مگر یہ ساتھ ساتھ معاشرتی طبقات کے درمیان دوریاں بھی بڑھا رہے ہیں اب جب کہ لگ رہا ہے کہ انسانیت عالمگیر اتحاد بننے جارہی ہے شاید انسانوں کے مختلف طبقات خود ہی حیاتیاتی درجہ بندی میں تقسیم ہوجائیں۔
معاشرتی عدم برابری نئی بات نہیں ، یہ پتھر کے دور سے چلی آرہی ہے ۔ تیس ہزار سال قبل شکاری انسانوں کے چند گروہوں نے اپنے ساتھیوں کی باقیات شاندار مقبروں میں محفوظ کی تھیں۔
ان میں جو اہرات اور شاہکارفنی نمونے وغیرہ بھی ملتے ہیں ، جب کہ دیگر بہت سے انسانوں کو انھوںنے محض زمین کھود کر دفنا دیا ۔ حالانکہ یہ شکاری بعد کے انسانوں کی نسبت معاشرتی برابری کے زیادہ قائل تھے کیونکہ ان کے ہاں جائیداد یا ملکیت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا ۔زرعی انقلاب کے بعد جائیداد ، ملکیت اور عدم مساوات کا فساد بڑھتا چلا گیا ۔ جیسے جیسے انسان زمینوں ، مو یشیوں ، باغات اور آلات کے مالک بنتے گئے ، ظالم اجارہ داری خاندانی سلسلوں پرمبنی معاشرے ابھرے ۔
چھوٹی سی اشرافیہ نسلوں تک دولت اور طاقت پر قابض تھی انسانوں نے یہ ظالمانہ نظام فطری اور الہیاتی سمجھ کر قبول کر لیا تھا یہ ظالمانہ طرز حکمرانی نہ صرف رائج تھا بلکہ مثالی بھی سمجھا جا تا تھا ۔ اشرافیہ اور عوام کی اس درجہ بندی کے بغیر نظم و ضبط کیسے قائم رہ سکتا تھا ۔
مذہبی رہنماؤں ، فلسفیوں اور شاعروں سب نے دنیا پر واضح کیا تھا کہ انسانی جسم کے اعضاکی مانند معاشرتی طبقات بھی برابر نہیں ہوتے ۔ پیروں کو لازماً سر کااحترام کرنا چاہیے ۔ انسانی معاشرے میں مساوات صرف انتشار کا ہی سبب ہوسکتی ہے۔
تاہم دور جدید کے آخرتک مساوات تقریباًتمام معاشروں میں مثالی حیثیت اختیار کرگئی ۔ اس معا شرتی برابری کے رواج میں کمیو نزم اور لبرل ازم کے نظریات کا جزوی کردار رہا ہے اس میں صنعتی انقلاب کا بھی بہت کر دار رہاہے جس نے عوام کو بہت اہمیت دی صنعتی معیشتوں نے عام مزدور ، عوام پر اور صنعتی افواج نے عام سپاہیوں پر کافی انحصار کیا جمہوری اور آمر دونوں حکومتوں نے صحت عامہ ، تعلیم اور عام فلاحی کاموں میں بھر پور اخراجات کیے کیونکہ انھیں کروڑوں صحت مند مزدوروں کی ضرورت رہی تاکہ پیداوار اچھی رہے اور کروڑوں صحت مند فوجی جنگیں لڑسکیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ بیسویں صدی میں طبقاتی فرق کم رہا پوری تاریخ میں امرا اور اشرافیہ نے یہ باور کیا کہ وہ سب سے افضل ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اقتدارو اختیار کے مالک ہیں۔ان ہی وجہ سے انسانی تاریخ میں المیوں نے باربار جنم لیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
چنگیز خان ، فرعون، شاہ ایران، قارون ،ہلاکو خان ، ہٹلر ، میسولینی ، اب سب کہانی ہیں اگر انھیں دنیا میں واپس آنے کی خصوصی اجازت مل جائے تو پھر ان سب کی کہانیاں، ان کہانیوں سے یکسر مختلف ہونگی جو وہ پہلے بنا چکے ہیں اور اپنی پرانی کہانی پر اتنی زور زور سے قہقہے لگا رہے ہونگے قریب کے بچے ڈر کے مارے ماؤں کی گودؤں میں دبک کے رہ جائیں گے اور ان کے دوسرے انسانوں کو دیے جانے والے لیکچرز تو سننے کے قابل ہونگے جن میں وہ ہاتھ جوڑ کر رو رو کر لوگوں سے التما س کررہے ہونگے کہ خدارا خود بھی چین و سکھ و امن سے رہو اوردوسروں کو بھی سکھ و چین و امن سے رہنے دو۔
خدا نے کسی بھی انسان کو بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا ہے ہمارا مقصد اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق باقی انسانوں کی خدمت کرنا ہے ڈیل کا رنیگی نے بتا یا تھا کہ ’’ 30سال قبل مجھ پر ایک ایسا راز افشا ہوا جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی آج میں آ پ کو بھی اپنا ہم راز بناتا ہوں یہ کوئی لمبی چوڑی بات نہیں بلکہ صرف چار الفاظ پر مشتمل ہے اوروہ الفاظ یہ ہیں ’’ آپ کی حدود مصنوعی ہیں۔‘‘
ہمارے ملک کی اشرافیہ کو یہ ہی چار الفاظ تمام ایوانوں میں ایسی ایسی جگہ کنندہ کر دینے چاہیں کہ ان کی نظریں ہر وقت ان چار الفاظ پر پڑتی رہیں تاکہ وہ خود بھی چین اور سکھ سے رہیں اور عوام کو بھی چین اور سکھ سے رہنے دیں۔
دینا میں ہر شخص مسرت کا متلاشی ہے پہلے روز سے لے کر آج تک کے سب انسانوں کی ساری زندگی اسی مسرت کی تلاش میں گزرتی آرہی ہے۔ چنگیز خان سے لے کر صدام حسین تک قارون سے لے کر شاہ ایران تک سکندر اعظم سے لے کر ہارون الرشید تک ان سب کے پاس دنیا کی کس چیز کی کمی تھی ان کے پاس دولت ، طاقت اختیار سے لے کر محلوں ، زمینوں ، جائیدد کے اتنے خزانے تھے کہ ان کی صحیح تعداد کے بارے میں انھیں خود بھی علم نہیں تھا کیا آپ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب اپنی اپنی زندگیوں سے خوش تھے ؟
یاد رکھیں آپ کی خوشی یا ناخوشی کاانحصار اس بات پر نہیں کہ آپ کے پاس کیا کچھ ہے ؟ یا آپ کون ہیں؟ یا آپ کہاں ہیں ؟ آپ کیا کررہے ہیں ؟ بلکہ اس بات پر ہے کہ آپ کیا سو چ رہے ہیں ؟ مثال کے طور پر اگر دو آدمی ایک مقام پر ہوں ۔
ان کا کام بھی ایک ہودونوں کے پاس برابر کا سرمایہ ہو محلات اور جواہر ات کے ڈھیر ہوں اور دونوں کی عزت اور وقار بھی برابر ہو پھر بھی ان میں سے ایک غمگین اور ایک شادمان ہوسکتا ہے کیوں ؟ صرف اپنے الگ الگ ذہنی رحجان کے سبب ۔ شیکسپیئر نے کہا تھا ’’ کوئی چیز بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی ،صرف ہماری سو چ اسے اچھا یا برا بنا دیتی ہے۔ ‘‘
یہ تمام شخصیات یقینا مختلف ذہنی رحجان رکھتی تھیں لیکن ان سب میں ایک بات یقینا مشترک تھی کہ یہ سب اس قدر خو د غرض تھے کہ انھیں اپنے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا ان سب کی روحیں چھوٹی اور تنگ تھیں ان کی زندگی خود سے شروع ہوتی تھی اور خود پر آکر ختم ہوجاتی تھی انھوں نے مصنوعی خو شیاں حاصل کرنے کے لیے ان گنت اپنے جیسے انسانوں کی خو شیاں ان سے لوٹ لیں لیکن پھر بھی انھیں وہ معمولی خو شیاں تک حاصل نہیں ہوسکیں جو عام انسانوں کو با آسانی حاصل ہوجاتی ہیں ۔
ان سب کے اعترافات تاریخ میں محفو ظ ہیں سب کے سب آخر میں بہت پچھتا ئے اور ان کے پاس صرف پچھتا نے کے علاوہ اور کچھ نہ بچا سکندر اعظم نے آخر وقت میں کہا تھا ’’ میں دنیا کو فتح کر نا چاہتا تھا مگر مو ت نے مجھ کو فتح کر لیا ،افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہوسکا جو ایک معمولی آدمی کو حاصل ہوتاہے۔
‘‘ نپو لین بونا پارٹ کے آخری احساسات یہ تھے ’’ مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں ‘‘ ہارون الرشید نے آخر عمر میں کہا ’’ میں نے بے حد غم اور فکرکی زندگی گذاری ہے ،زندگی میں کوئی دن ایسا نہیں جو میں نے بے فکری کے ساتھ گزارا ہو۔ ‘‘ خلیفہ منصور عباسی کی موت کا وقت آیا تو اس نے کہا ’’ اگر میں کچھ دن اور زندہ رہتا تو اس حکومت کو آگ لگا دیتا جس نے مجھے باربار سچائی سے ہٹا دیا ۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ کے آخری احساسات تاریخ میں کیا رقم ہوتے ہیں ۔