’’گریٹ اسموگ آف لندن‘‘

دسمبر کے آخر تک لندن کے بارہ ہزار لوگ انتقال کر چکے تھے


سرور منیر راؤ November 17, 2024

لاہور اور پنجاب کے بہت سے شہر اس وقت جس خطرناک اسموگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے دنیا کے کئی ممالک اس کا سامنا کر چکے ہیں۔اسموگ کے اندھیرے اور زہریلی فضا میں سانس لینے سے ان ملکوں کے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

72 سال پہلے 5 دسمبر 1952کی صبح جب لندن کے شہری سو کر اٹھے تو پورا شہر گہرے سیاہ دھوئیں میں ڈوب چکا تھا‘ حد نظر صفر ہو چکی تھی‘ گاڑیاں نظر نہیں آ رہی تھیں‘ ٹرین ڈرائیور پٹڑی نہیں دیکھ پا رہے تھے‘ طیاروں کے پائلٹس کو رن وے نظر نہیں آ رہا تھا۔ پورا شہر سیاہی مائل گہری دھند میں گم تھا‘ شام کے وقت پتہ چلا یہ دھند نہیں یہ گاڑھا سیاہ دھواں ہے۔

لوگ کھانس کھانس کر دم توڑنے لگے‘ لندن کی سماجی زندگی رک گئی‘ ٹریفک بند ہو گئی‘ ٹرینیں معطل ہو گئیں‘ فلائیٹس منسوخ ہو گئیں‘ دفتروں اور اسکولوں میں چھٹی ہو گئی‘ شاپنگ سینٹرز بند ہو گئے اور لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا ترک کر دیا‘ شہر میں سناٹا تھا۔

اسپتالوں میں مردے اور بیمار دونوں ایک بیڈ پر پڑے تھے‘ یہ صورتحال پانچ دن جاری رہی۔ نو دسمبر کی رات بارش شروع ہوئی اور فضا آہستہ آہستہ دھل گئی لیکن اموات کا سلسلہ جاری رہا۔ دسمبر کے آخر تک لندن کے بارہ ہزار لوگ انتقال کر چکے تھے جب کہ ڈیڑھ لاکھ لوگ دمے‘ آشوب چشم‘ ٹی بی اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار تھے۔

‘ ماحولیات کے ماہرین نے تحقیقات شروع کر دیں‘ پتہ چلا 5 سے 9 دسمبر کے دوران لندن کی فضا میں روزانہ ہزار ٹن اسموگ پارٹیکلز پیدا ہوتے رہے‘ ان میں 140 ٹن ہائیڈرو کلورک ایسڈ‘ 14 ٹن فلورین کمپاونڈ اور 370 ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل ہوتی تھی‘ یہ تمام مادے صحت کے لیے انتہائی مضر تھے۔

ماہرین نے سوچنا شروع کیا کہ یہ تمام پارٹیکلز آئے کہاں سے تھے؟ پتہ چلا یہ سال ہا سال کی غلطیوں، نااہلیوں، نالائقیوں اور کم علمی کا دھواں تھا۔ یہ سلسلہ 1200ء میں شروع ہوا تھا۔

سات سو برسوں میں لندن شہرکی آبادی میں دس گناہ اضافہ ہو گیا ہے‘ شہر کے اردگرد گھنے جنگل کٹ گئے‘ ندیاں اور جھیلیں ختم ہوگئیں‘ لوگ گاؤں چھوڑ کر لندن شہر میں آ گئے‘ کھیت کھلیانوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئیں‘ صنعتی انقلاب آیا تو شہر اور گرد نواح میں ہزاروں فیکٹریاں لگ گئیں‘ کوئلے سے چلنے والی ہزاروں فیکٹریاں اور پاور پلانٹ شہر کی فضا میں دھواں گھول رہے تھے۔

ٹرین سروس شروع ہوئی‘ ٹرام آئی‘ موٹرگاڑیاں آئیں‘ سب کا دھواں شہر کی فضا میں شامل ہونے لگا۔ سردیوں میں گھروں کو گرم کرنے کے لیے پتھر کا کوئلہ جلایا جانے لگا، ہر گھر کی چمنیوں سے نکلنے والا یہ زہریلا دھواں بھی فضا میں شامل ہو گیا۔ تعمیرات تیزی سے شروع ہوئی عمارتوں کی تعمیر کے لیے اینٹوں کے بھٹوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔لندن کی فضا آلودہ ہوتی چلی گئی‘ درخت کم ہونے سے ہوا میں آکسیجن کم ہو گئی‘ یہ سلسلہ چلتے چلتے 1952 تک پہنچ گیا‘ سردی شروع ہوئی‘ لوگوں نے اپنی انگیٹھیوں میں کوئلہ جلایا ،لاکھوں ٹن دھواں پیدا ہوا‘ یہ دھواں فضا میں پہلے سے موجود آلودگیوں میں شامل ہو گیا۔

دسمبر کی سردی میں جب دھند آئی تو یہ آلودگی اس میں شامل ہو کر گہری‘ دبیز اور سیاہ گیس میں تبدیل ہو گئی اور اس کی تہہ پورے شہر اور گردنواح کی فضاء پر جم گئی۔ یہ گیس پانچ دن شہر کے اوپر چھائی رہی اور گلی محلوں، سڑکوں ، پارکوں میں گھومتی رہی۔ ماہرین نے اس دھند کواسموگ اور فاگ دو لفظ ملا کر ’’اسموگ‘‘ کا نام دے دیا اور لندن کے اس ’’سانحے کو گریٹ اسموگ آف لندن‘‘ قرار دے دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں