دہشت گردوں نے ضلع قلات کے علاقے شاہ مردان میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کی کوشش کی، 6 دہشت گرد ہلاک اور 7 جوان شہید ہوگئے۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز قوم کے ساتھ مل کر بلوچستان کے امن، استحکام اور ترقی کو سبوتاژ کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
وطن عزیز دنیا بھر میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے، پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں، البتہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب سے زیادہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ دشمن ریاستوں کی سرپرستی میں سیاسی علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں گزشتہ دو دہائیوں میں دس ہزار سیکیورٹی اہلکاروں اور افسران سمیت 80 ہزار سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضایع ہوچکی ہیں، جب کہ پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 150 بلین ڈالرز سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے ہمارا ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت ملوث ہیں۔
صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اندرون ملک چھپے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اور وہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ جب جی چاہتا ہے بھاری جانی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ اس وقت دہشت گردوں کو سب سے زیادہ طاقت اندرونی سہولت کاروں سے حاصل ہے۔ اسی طرح ہر بڑے واقعے کے پیچھے دہشت گردی کی کامیابی میں ان سہولت کاروں کا بہت بڑا کردار ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے بارے میں پاکستان ڈوزیئر جاری کرچکا ہے جس میں انتہائی ٹھوس معلومات جیسے بینک اکاؤنٹس اور ان بھارتی شہریوں کے شواہد بھی موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شر پسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور ان کے مقامات بھی شامل ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد مسلسل یہ کہا جاتا رہا کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی لیکن گزشتہ تین برس کے دوران یہاں دہشت گردی اور تخریب کاری کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ان میں زیادہ تر افغان باشندے ہی ملوث پائے گئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغانوں کے پاک سر زمین پر مستقبل کو دہشت گردوں کی حوالگی اور سخت اقدامات سے مشروط کرتے ہوئے غیر قانونی افغانوں کی واپسی کے عمل کو مزید تیز کیا جائے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والوں کی یکسوئی بہت ضروری ہے۔ کیا مسلح گروپوں میں اچھے برے کا امتیاز رکھا جائے گا، بڑا مشکل فیصلہ ہے، بہت حساس معاملہ ہے۔ مسلح گروہ قومی مفاد کی پالیسی پر عمل کرتے بڑے بلند مرتبہ نظر آتے ہیں، لیکن جب ان کی ضرورت نہیں رہتی تو یہی اثاثہ سب سے بڑا ناسور بن جاتا ہے۔
ملک میں دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے بلکہ دہشت گردوں نے اب افواجِ پاکستان اور پولیس جیسے سیکیورٹی اداروں کو اپنی کارروائیوں کا ہدف بنا لیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی کارروائیاں اب محض ٹارگٹ کلنگ، سڑک کنارے نصب دیسی ساختہ بموں کو ریموٹ کنٹرول سے اُڑا کر فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنانے یا خود کش حملوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ اب پولیس تھانوں اور فوجی چیک پوسٹوں پر بڑے منظم انداز میں حملے ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے چھوڑے ہوئے اسلحے سے لیس اور کئی سال تک افغان طالبان کے شانہ بشانہ افغانستان میں غیرملکی افواج کے خلاف لڑائی کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد دہشت گردوں کے حملے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں ان دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ اب صوبے کے عوام حکام سے ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کارروائیوں سے ان کے کاروبار اور روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے، گو کہ افواجِ پاکستان ان شدت پسندوں سے تندہی سے لڑ رہی ہیں لیکن پولیس کو بھی اس حوالے سے متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب پولیس کو تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور اسے جدید اسلحے سے لیس کیا جائے گا۔ خیبرپختونخوا پولیس خود بھی ان دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ لاقانونیت، ڈر اور خوف کی یہ صورتحال صرف خیبرپختونخوا کے مخصوص اضلاع تک ہی محدود نہیں بلکہ بلوچستان کے بعض علاقے بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔
یہ سوال ضرور موجود ہے کہ اتنے عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے اور قربانیاں دینے کے باوجود نہ صرف دہشت گردی جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ کہیں دہشت گردی کے خلاف ہماری حکمت عملی میں کوئی فالٹ لائن تو نہیں جس کی وجہ سے ہماری کوششیں تاحال ثمر بار ثابت نہیں ہو سکیں۔
اس فالٹ لائن کو تلاش کرنا اور اسے فوری طور پر دور کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب اس کی وجہ سے ہمارے دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات متاثر ہو رہے ہیں اور قومی معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ بار آور ثابت نہیں ہو پا رہیں کیونکہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری، جس کے بغیر معیشت کا پہیہ حرکت نہیں کر سکتا، امن و امان کی خراب صورتحال، عدم تحفظ، غیر یقینی اور دہشت گردی کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ ایک طرف عوام دہشت گردوں کے خلاف سخت، فوری اور موثر کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور دوسری طرف جب دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی بات ہوتی ہے تو بعض حلقوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی جانے لگتی ہے۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گرد اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں، شروع شروع میں انھوں نے مدارس کے غریب طلباء کو اپنا ہدف بنایا، خاص طور پران مدارس میں طلباء پر توجہ دی گئی جو غریب علاقوں میں واقع ہیں اور بہت سے والدین اپنے بچوں کو اِن مدارس میں اِس لیے داخل کرا دیتے ہیں کہ انھیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ روٹی اور کپڑے کی سہولت بھی مفت حاصل ہو جائے گی، ایسے غریب طلباء کو معمولی رقم کا لالچ دے کر گمراہ کیا جا سکتا ہے، اِس لیے ان پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔
دہشت گردوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے حلیے کی وجہ سے جلد ہی نگاہوں میں آجاتے ہیں تو انھوں نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی اور کلین شیو دہشت گرد بھی سامنے آنے لگے۔ اب آگے بڑھ کر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورک میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
جب تک ملک میں دہشت گردی کو نظریاتی توانائی فراہم کرنے والے موجود ہیں، ان کی نگہداشت کرنے والی نرسریاں موجود ہیں جو انسانوں میں بارود بھرتی ہیں، یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے ان فکری کمانڈروں، سہولت کاروں اور نرسریوں کا بندوبست بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے، جس مذہبی جوش و خروش سے یہ جنگجو اورکلچر بنایا گیا تھا، اسی جذبہ سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے، ہزاروں معصوم لوگوں کو قتل کرنے والوں اور امن و مان کو برباد کرنے والوں نے کس کا ایجنڈا آگے بڑھایا۔ جہاد کے نام پر فساد کر نے والوں نے اسلام کی خدمت کی ہے یا اس کے اجلے اور حیات بخش تصور کو آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
دنیا کی واحد ریاست جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی، ان جنگجوؤں کے ہاتھوں دنیا میں تماشہ بن گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی حکمت عملی اختیار کی جائے‘ اس میں طاقت کے استعمال کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے سیاسی، معاشی اور سماجی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ضروری ہے کہ اس میں سیاسی پہلوؤں اور عوام کی رائے کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ایک پلیٹ فارم پر آنے ہی سے قائم ہو سکتا ہے۔