جمہوری نظام کی خامیوں اورکمزوریوں کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اس نظام کی خوبی ہے، حالانکہ اِن خامیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے حکمراں جماعت کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے اتحادیوں کی بلیک میلنگ کا بھی شکار ہونا پڑتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار کے فوراً بعد 2008 میں جو الیکشن ہوئے اس میں پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے کے لیے MQM کو بھی شامل کرنا پڑا تھا، اُسے اپنے ساتھ ملانے کی غرض سے پیپلز پارٹی کے بہت سے نامور سیاستدانوں کو متحدہ قومی موومنٹ کے دفتر کے چکر بھی لگانے پڑے اور انھیں وزارتوں کی آفر بھی کرنا پڑی۔
اس کے باوجود MQM اکثر اُن سے ناراض ہو کر ساتھ نبھانے سے انکار بھی کرتی رہی اور اقتدار سے علیحدہ بھی ہوتی رہی۔ وہ بعد ازاں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر واپس شامل اقتدار بھی ہوتی رہی اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ آصف علی زرداری کو متحدہ کی روز روز کی ناراضگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی غرض سے مسلم لیگ ق کو اپنے ساتھ ملانا پڑا۔ اور پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم کے عہدے سے بھی سرفراز کرنا پڑا۔ مفاہمت اور دوستی کی اس سیاست میں بہرحال کسی نہ کسی طرح اپنے پانچ سال پورے کر لیے گئے اور تاریخ میں پہلی بارکسی جمہوری حکومت کے مقررہ پانچ سال پورے کرنے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا گیا۔
آصف علی زرداری کے جذبہ مفاہمت کا ہی ثمر ہے کہ مسلم لیگ نون آج پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ نہ صرف ایک پیج پر ہے بلکہ ان کی حمایت اور مدد کی وجہ سے ایوان اقتدار میں موجود ہے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر اس بار پیپلزپارٹی نے کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا لیکن اس نے تمام آئینی اور دستوری عہدے ضرور حاصل کر لیے۔ اِن تمام آئینی عہدوں کی خوبی یہ ہے کہ حکومت رہے یا نہ رہے لیکن اِن آئینی عہدوں پر موجود افراد کو کوئی بھی فارغ نہیں کرسکتا۔ اسے ہم آصف علی زرداری کی ذہانت کہیں یا دور اندیشی کہ پیپلزپارٹی حکومت کی اتحادی بھی ہے اور حکومتی امور سے علیحدہ بھی۔ وہ اس کی کامیابیوں کا کریڈٹ تو ضرور لیگی مگر ناکامیوں کا ملبہ مسلم لیگ نون کے سر باندھے گی۔ اسے ہم مسلم لیگ نون کی کمزوری سمجھیں یا عادت اور خصلت کہ وہ انتہائی نامناسب حالات میں بھی اقتدار لینے پر راضی اور رضا مند ہو جایا کرتی ہے۔
فروری 2024 کے انتخابات کے بعد اسپلٹ مینڈیٹ کی وجہ سے کوئی جماعت بھی اقتدار لینے کے موڈ میں نہ تھی، جس پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھی وہ بھی دھاندلی کا بہانہ کرتے ہوئے اس ذمے داری سے پیچھے ہٹ گئی۔ اُسے شاید یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ سادہ اکثریت کے لیے جس مطلوبہ تعداد میں ممبران اسمبلی کی ضرورت ہے وہ اس بار شاید پورے نہیں کر پائے گی۔ اس بار اس کی لیڈر شپ بھی جیل میں قید ہے اور اسے نادیدہ قوتوں کی وہ حمایت بھی حاصل نہیں ہے جو 2018 میں میسر تھی۔ فیصلہ کیا گیا کہ حالات کے موافق اور سازگار نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال اپوزیشن میں بیٹھا جائے۔
اس وقت ملک کے معاشی حالات بھی اس قدر اچھے اور سازگار نہیں تھے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس مصیبت کو گلے لگا سکے۔ یہ سوچ کر پیپلز پارٹی نے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی، حالانکہ بلاول بھٹوکی پوری کوشش تھی کہ وہ اس بار وزیراعظم بن جائیں۔ وزیراعظم بن جانے کی اُن کی یہ خواہش تو پوری نہ ہوسکی لیکن اُن کے والد محترم کی منصب صدارت پر دوسری بار فائز ہونے کی خواہش ضرور پوری ہوگئی۔
اسے ہم کرشمہ کہیں یا محترم زرداری صاحب کی ذہانت کہ ایک بار نہیں دو بار وہ اس اہم عہدے پر براجمان ہو پائے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آصف علی زرداری اس ملک کے دوبار صدر مملکت بن سکتے ہیں۔ یہ اُن ہی کی دانشمندی اور دور اندیشی ہے کہ دو صوبوں میں آج ان کی حکومت بھی ہے اور دو باقی صوبوں میں گورنر شپ۔ سینیٹ کی چیئرمین شپ اور ملک کی صدارت بھی اُن کے پاس ہے، وہ حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی اقتدار کے سب سے اہم عہدوں کے مالک ہیں۔
بلاول بھٹو نے حال ہی میں حکومت سے جو گلے شکوے کیے ہیں وہ اُن کی آیندہ کی سیاست کے خدوخال واضح کرتے ہیں، وہ ہرگز حکومت بنانے میں مسلم لیگ نون کا ساتھ نہ دیتے مگر وہ اپنے والد محترم کے حکم اور مرضی کے آگے خاموش ہوگئے تھے۔ جب تک زرداری صاحب بقید حیات ہیں شہباز شریف کا ساتھ نبھانے کی ان کی یہ مجبوری ساتھ ساتھ چلتی رہے گی، البتہ اکثر اوقات عوام کو مطمئن کرنے اور اپنی سیاست باقی رکھنے کی خاطر وہ حکومت وقت کو آنکھیں دکھاتے رہیں گے۔ حکومت سے اپنے گلے شکوے پر مشتمل جو بیان انھوں نے گزشتہ دنوں میڈیا کو دیا ہے وہ اگر چاہتے تو شہباز شریف سے ون آن ون ملاقات میں بھی گوش گزار کرسکتے تھے، لیکن اس طرح عوام کو کیسے پتا چلتا کہ وہ حکومت سے ناراض بھی ہیں۔
اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی اس حکومت کو ہر وقت خطرہ تو ضرور لاحق رہے گا لیکن اس حکومت کو چلانے والے جب تک چاہیں گے یہ حکومت چلتی رہے گی۔ بلاول بھٹو بھی اسی طرح کبھی خوش کبھی ناراض فریق کا رول بطریق احسن نبھاتے رہیں گے۔ ابھی حال میں انھوں نے آئین کی سب سے متنازع ترمیم میں بھی حکومت کا خوب ساتھ نبھایا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ نون سے زیادہ اس ترمیم کو پاس کروانے میں کردار بھی ادا کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو راضی کرنے میں جس قدر بلاول صاحب کی کوششیں تھیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہیں۔ بلاول بھٹو اگر یہ کوشش نہ کرتے تو مسلم لیگ نون قطعاً مولانا کو رضا مند نہ کرسکتی تھی۔
جتنی جانفشانی اس ترمیم کو پاس کروانے میں بلاول بھٹو نے دکھائی تھی ویسی کسی اور نے نہیں دکھائی ۔ پھر یہ ایک ماہ میں ایسا کیا ہوگیا کہ بلاول بھٹو حکومت سے اس قدر خفا اور ناراض ہوگئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ہرکام میں انھیں اعتماد میں لے مگر وہ کابینہ کا حصہ بننے کو بھی تیار نہیں، جب کہ وہ اگر کابینہ میں شامل رہتے تو اس گلے شکوہ کی پھر کوئی حاجت بھی باقی نہ رہتی۔ وہ دراصل اگلے الیکشن کی تیاری کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہرکام میں حکومت کا ساتھ دینا اُن کے آیندہ کے ارادوں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ اگلے الیکشن میں اُن کا اصل مقابلہ تحریک انصاف سے ہوگا جس کے لیے انھیں بھرپور تیاری بھی کرنی ہے۔
مسلم لیگ نون تو اپنا یہ دورگزار رہی ہے اور شاید گزار بھی لے گی، لیکن بلاول بھٹو کے لیے اس ملک کا وزیراعظم بن جانے کا خواب نجانے کب پورا ہوگا۔ وہ سولہ برسوں سے جو سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں اس کے ثمرات سے کب فیضیاب ہونگے۔ بانی پی ٹی آئی کی موجودگی میں تو یہ فیضیابی مشکل ہے۔ موجودہ حکومت کا ساتھ نبھانے کی وجہ سے یہ ٹارگٹ بھی کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے، لٰہذا ان کی یہ ناراضی اور شکایت لازمی اور ضروری بنتی ہے۔ اُن کی جگہ کوئی اور سیاستداں ہوتا تو وہ بھی یہی طرز عمل اختیار کرتا۔ ابھی تو شروعات ہے جیسے جیسے نئے انتخابات کا وقت قریب ہوتا جائے گا، یہ اظہار ناراضی بھی مزید بڑھتی جائے گی۔ اسے جمہوریت کا حسن کہیں یا خرابی یہ ہر جمہوریت کا لازمی جز اور حصہ ہے۔