پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسموگ کی شدت کے باعث پنجاب و خیبر پختون خوا کے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کراچی آ کر آباد ہو جائیں۔ حیرت تو یہ ہے کہ سندھ کے قوم پرستوں کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا جو دوسرے صوبوں سے سندھ میں آنے والوں کے خلاف ہیں اور بیماری نہ کھپن ان کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ قوم پرستوں کے مطابق صوبہ سندھ بین الاقوامی یتیم خانہ نہیں ہے کہ باہر والے سندھ میں آ کر آباد ہو جائیں۔
بلاول زرداری کے بیان پر ایک سینئر اینکر پرسن سمیت عوامی اور سیاسی حلقوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلاول بھٹو کی حکومت سندھ کراچی کو پینے کا صاف پانی بھی فراہم نہیں کر سکی ہے اورکراچی سمندر کے قریب ہونے کے باوجود پینے کے پانی سمیت تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہے اور بلاول بھٹو ملک کے لوگوں کو اسموگ کے باعث کراچی آنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور جو لوگ کراچی میں رہ رہے ہیں ان سے ہی بلاول پوچھ لیں کہ وہ کراچی میں کیسے زندگی گزار رہے ہیں جو سالوں سے ڈاکوؤں کے ہاتھوں مسلسل لٹ رہے ہیں۔
رواں سال ایک سو سے زائد افراد ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں اور اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔ امن و امان سے مسلسل محروم کراچی میں گرمیوں میں گیس نہیں ملتی اور گھنٹوں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے جس کے باعث کراچی میں سیکڑوں صنعتیں بند یا منتقل ہو چکیں جس سے کراچی میں بے روزگاری عام اور غربت عروج پر ہے اور بے حس حکمران ایسے برے حالات میں ملک کے لوگوں کو کراچی آنے کی دعوت دے رہے ہیں تاکہ کراچی میں مسائل مزید بڑھ سکیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اب یہ وہ کراچی نہیں رہا جہاں آنے والوں کو روزگار مل جاتا تھا۔ اب کراچی والے بد امنی، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے کراچی چھوڑ کر پنجاب جا کر آباد ہو رہے ہیں جہاں انھیں پینے کے پانی سمیت روزگار میسر آ ہی جاتا ہے۔
کراچی ملک کا واحد شہر ہے جہاں مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے اور حکومت سندھ مہنگائی روکنے میں مکمل ناکام ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ، وزیروں اور میئرکراچی کو بلاول بھٹو کی تعریفیں کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ کراچی کے مسائل پر توجہ دے سکیں البتہ بلند و بانگ دعوے کرنے میں وہ سب سے آگے ہیں اور ان کے نزدیک کراچی مسائل سے پاک ترقی کرتا شہر ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی اب فرسودہ گاؤں ہے جہاں صفائی ہے نہ روشنی اور اندرون شہر کی تباہ حال سڑکوں، سیوریج کی ناقص صورتحال سے پنجاب کے گاؤں کی حالت پھر بھی بہتر ہی ہوگی۔ وفاقی حکومت جو خود بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات اور ٹیکسوں کے ذریعے ملک میں مہنگائی کی ذمے دار ہے اور وزیر اعظم سمیت تمام وزیر مہنگائی میں کمی کے بے بنیاد دعوے کر رہے ہیں مگر ان کے بے بنیاد دعوؤں کے مطابق کوئی مہنگائی کم نہیں ہوئی بلکہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
مہنگائی پرکنٹرول اب وفاق کا درد سر نہیں بلکہ مہنگائی مزید بڑھانا، وفاق کا کام رہ گیا اور قیمتوں کا تعین اور مہنگائی پر کنٹرول صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے جنھیں کوئی فکر نہیں بلکہ صوبائی حکومتیں مہنگائی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں جن کے زیر کنٹرول ضلع انتظامیہ ان سے بھی بڑھ کر نااہل ثابت ہوئی ہے جو سال میں صرف ایک بار رمضان المبارک میں ایک بار وہ بھی پہلے عشرے میں جاگتی ہیں اور پھر جرمانوں کے ذریعے حکومتوں کی کروڑوں روپے کمائی بڑھا کر عید کی تیاریوں میں لگ جاتی ہے جس کے بعد ناجائز منافع خور مہنگائی مزید بڑھا کر اپنا دیا ہوا جرمانہ عوام سے ڈبل وصول کر لیتے ہیں۔
سندھ میں تین دہائیاں پہلے بیورو آف سپلائی اینڈ پرائس ہوتا تھا جو مارکیٹ کمیٹیوں کے ذریعے مہنگائی کنٹرول کرتا تھا جس کا سربراہ ایک بریگیڈیئر ہوتا تھا۔ بیورو آف سپلائی کو کبھی محکمہ زراعت میں شامل کیا تھا جو بعد میں کسی اور محکمہ میں جانے کے بعد غائب ہوگیا اور ناجائز منافع خور بے لگام ہوگئے اور مارکیٹ کمیٹیوں کے عملے کو ہوش ہی نہیں کہ پھل اور سبزیاں کس دام فروخت ہو رہی ہیں وہ ہول سیل مارکیٹوں میں پتھارے بڑھا کر اپنی ذاتی آمدنی بڑھانے میں دن رات مصروف ہیں۔
اندرون شہر پھل و سبزیاں فروخت کرنے والوں سے مہنگائی کی وجہ پوچھیں تو وہ ذمے دار ہول سیل مارکیٹ والوں کو قرار دے کر بری ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انتظامیہ ہم پر تو جرمانے کرتی ہے مگر ہول سیلرزکو نہیں پوچھتی جو مہنگا مال فروخت کر رہے ہیں۔ پنجاب میں ریڑھی پتھاروں پر سبزی و پھل کے نرخ نمایاں آویزاں ہوتے ہیں اور کوالٹی کنٹرول والے متحرک ہیں مگر سندھ تو کیا کراچی میں ایسا نہیں اور ملاوٹی اشیا کی فروخت عروج پر ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں اور ہر کوئی عوام کو لوٹ رہا ہے۔
عوام کا سب سے اہم مسئلہ مہنگائی و بدامنی سندھ میں زیادہ ہے مگر وفاق اور صوبائی حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں۔ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آگئی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور بے بسوں پر حکمرانی کرنے والے بے حس حکمرانوں کو عوام کی کوئی فکر ہے ہی نہیں۔