اسموگ کی زہریلی اور مسموم فضا نے پنجاب کے بیشتر شہریوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں ۔ ہلکی سی بارش نے اسموگ کے زہر بھرے موسم کو ذرا سا مدہم تو کیا ہے لیکن ریلیف پھر بھی عنقا ہے ۔لاہور ، ملتان ، فیصل آباد اور سیالکوٹ کے باسی مسلسل ایک عذاب میں مبتلا ہیں ۔کوئی راہِ فرار نہیں۔ پنجاب حکومت اسموگ کے پھیلتے دائرے کو مزید پھیلنے اور مزید زہر پھیلانے سے روکنے کے لیے ممکنہ کوششیں تو کررہی ہے لیکن مکمل کامیابی شاید ابھی قریب نہیں ہے ۔
وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز نے مصمم لہجے میں درست کہا ہے کہ اگلے دو تین برسوں تک ہم پنجاب میں مکمل طور پر اسموگ پر قابو پالیں گے ۔ اگر چین اور برطانیہ اسموگ کی قیامتوں پر قابو پا سکتے ہیں تو یہ ہمارے لیے بھی عین ممکن ہے۔ویسے اسموگ کی لعنت ہم سب نے اپنے ہاتھوں سے خریدی ہے : اے ہنجو میرے آپ خریدے! ہم مصفا فضا کے ساتھ ساتھ صاف اور آبِ شیریں سے بھی محروم ہو گئے ہیں ۔ یوں مہلک امراض تیزی سے ہمیں اپنے حصار میں لے رہے ہیں۔ اور قیامت کیا ہوگی؟
چند روز قبل راقم پنجاب کے ایک معروف صنعتی شہر میں رہائش پذیر اپنی ہمشیرہ محترمہ کے گھر گیا۔ وضو کے دوران کُلی کرنے کے لیے پانی منہ میں ڈالا تو زبان کھارے پانی سے بد مزہ ہو کررہ گئی۔ اس بد مزگی کا تاثر شاید پورے چہرے پر بھی پھیل گیا تھا۔ دیوار کے ساتھ بچھی چارپائی پر براجمان ہمشیرہ صاحبہ نے بھی شاید یہ منظر دیکھ لیا تھا۔ وہ مگر کچھ بولی نہیں ۔ نماز کا وقت تنگ ہورہا تھا، اس لیے جلدی سے مَیں مصلّے پر جا کھڑا ہُوا ۔ فارغ ہُوا تو نہانے کے لیے غسل خانے میں گھس گیا ۔
نہاتے ہُوئے لطف بالکل نہ آیا۔ صابن جسم پر ملتا تھا لیکن جھاگ بنتی ہی نہ تھی ۔ اِسی بیزاری میں غسل کیا ۔ تولیے سے بدن پونچھتا باہر نکلا تو میری بڑی ہمشیرہ نے مسکراتے ہُوئے کہا:’’اِس شہر کا پانی میٹھا نہیں ہے ، اس لیے تمہیں وضو کرنے کا مزہ آیا نہ غسل کا‘‘۔ پھر وہ ایک آہ بھرتے ہُوئے بولیں:’’ ہائے، ہمارے گاؤں کے کنوؤں کے میٹھے پانی کی یادیں رہ رہ کر یاد آتی ہیں۔ جب سے بیاہ کر اس شہر میں آئی ہُوں ، میٹھے پانی اور اس کی خوشبو خواب سی بن کر رہ گئی ہے ۔ نہر کا میٹھا پانی اب ہم خرید کر پیتے ہیں ۔ کپڑے دھونے بھی عذاب بن کر رہ گئے ہیں۔‘‘خاموش اور بیزار مَیں اُن کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ پھر ہم دونوں بہن بھائی اپنے گاؤں کے اُن کنوؤں کو یاد کرنے لگے جو ہمارے بچپن میں سارے گاؤں کے لیے حیات بخش تھے اور جو سب میں شیریں پانیوں کی سوغات یکساں بانٹتے تھے ۔
تیزی سے بدلتے وقت اور بے تحاشہ بڑھتی ، پھیلتی آبادی نے اب تو میرے گاؤں کے پانیوں کی مٹھاس میں بھی آلودگی کی تلخیاں گھول دی ہیں ۔ اپنے آبائی گاؤں میں بسنے والے بڑے بھائی صاحب نے مجھے یہ بتا کر حیران پریشان کر دیا :’’ یار، پانی خاصا نیچے بھی چلا گیا ہے اور اس کی مٹھاس بھی کم ہو گئی ہے ، اس لیے شیریں پانی کی تلاش و جستجو میں دو بار نئی جگہ پر گھر میں بور کروایا ہے ۔‘‘ زیر زمین تیزی کے ساتھ معدوم ہوتے آبِ شیریں کے خیال و احساس سے افسردگی سی طاری ہونے لگتی ہے ۔
ایسے میں مجھے اپنے گاؤں کے سبھی کنوؤں کی یاد آنے لگتی ہے ۔ ایک کنواں تو ہمارے گھر کی بیرونی مشرقی دیوار سے متصل تھا۔ ساتھ ہی نہائت خوبصورت چھوٹی سی مسجد بھی تھی ۔ کوئی ایک صدی قبل ہمارے آباؤ اجداد نے مسجد اور نمازیوں کی خدمت کے لیے یہ کنواں بنوایا تھا ۔ گرمیوں ، سردیوں میں یہ خوب آباد رہتا تھا۔ اِسی کی پختہ منڈیر کے سامنے خواتین کپڑے بھی دھوتی رہتی تھیں۔ اس کنوئیں کے سامنے ، سردیوں کی ٹھٹھڑتی دوپہروں میں، خواتین عارضی چولہوں پر پانی گرم کرتیں اور اس سے بچوں کو نہلاتی تھیں ۔ اس کنوئیں کا پانی صاف اور میٹھا ہوتا تھا۔ سخت گرمیوں میں چونکہ پانی زیادہ استعمال ہوتا تھا، اس لیے کئی مرتبہ موسمِ گرما میں اس کا پانی خشک بھی ہوجاتا تھا۔ تب ہم سبھی بچے منڈیر پر بیٹھ کرکنوئیں کی تہ کو حیرت و استعجاب اور خوف کے جذبات سے تکتے ۔
اس کنوئیں کی یاد اس لیے بھی ذہن سے کبھی نہیں اُترے گی کہ ایک بار اسلام آباد سے آیا میرا ایک ننھا سا پھوپھی زاد کزن اس میںگر گیا تھا۔ وہ معصومیت سے کنوئیں کی دیو ہیکل منڈیر پر کھیل رہا تھا اور اس کی والدہ صاحبہ سامنے کپڑے دھو رہی تھیں۔ وہ دھڑام سے کنوئیں میں جا گرا تو گاؤں میں شور مچ گیا ۔ گھر میں میرے جوان چچا موجود تھے ۔ وہ بھاگ کر آئے ، فوری طور پر لَج پکڑ کر کنوئیں میں بے خطر اُتر گئے ، ڈبکیاں کھاتے ننھے لڑکے کو باہر نکالا اور پیڑھی پر بٹھا کر اوپر کھینچ لیا گیا ۔ وہ اللہ کے فضل سے ٹھیک ٹھاک تھا۔ یہی کزن اب میرا ہم زلف ہے ۔
گھر سے متصل آبِ شیریں کا یہ کنواں اب صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے ۔ اس کی جگہ اب برقی موٹر لگا دی گئی ہے جو مسجد میں وضو اور غسل کے لیے پانی تو فراہم کرتی ہے لیکن اس کا پانی کوئی نوشِ جاں نہیں کرتا ۔ پانی میں تلخی اورآلودگی گھل چکی ہے ۔ یوں اس آبِ شیریں کے گم ہونے سے وہ محبتیں اور اُلفتیں بھی گم ہو گئی ہیں جو اس کنوئیں کے مشترکہ پانی کی تقسیم سے گاؤں بھر میں ایک فطری نظام کے تحت بانٹی جاتی رہتی تھیں۔ اب گاؤں کے ہر گھر میں اپنی برقی موٹر ہے، اپنا نلکا اور چھت پر نصب اپنی اپنی پانی کی ٹینکی ہے ۔ یوں تعلقات میں بُعد بھی آچکا ہے ۔ یہ بُعد اوردلوں کے فاصلے جدید زمانے کی سوغاتیں ہیں ۔
اپنے حجم کے اعتبار سے ہمارے گاؤں کے عین مغرب میں واقع کنواں سب سے بڑا خیال کیا جاتا تھا۔ اس کا مہیب دہانہ اور نگل جانے والی اس کی گہرائی سے خوف آتا تھا۔ مَیں نے مگر اس کا پانی کبھی پیا نہ دیگر لوگوں کو پیتے دیکھا ۔ البتہ اس کا پانی ڈھور ڈنگروں کے پینے اور موسمِ برسات میں چاول کی پنیری کاشت کرنے کے لیے استعمال ہوتے ضرور دیکھا ہے ۔ مجھے گاؤں کے میرے کئی بزرگوں نے بتایا کہ یہ شاندار اور پُر شکوہ کنواں پاکستان بننے سے پہلے گاؤں میں آباد مہاشوں کی ہندو کمیونٹی کے لیے مخصوص تھا۔ اس کا آبِ شیریں اُس وقت صرف ہندوؤں کے لیے مختص تھا۔ گویا ذات پات کی تقسیم کی لعنت ہمارے گاؤں میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی ۔گاؤں سے اب مہاشے بھی جا چکے ہیں اور اُن کا کنواں بھی غیر آباد ہو کر مٹ چکا ہے ۔مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے !
گاؤں کے جنوب مغرب میں بھی تین ، چار کنوئیں تھے ۔ ایک تو پٹواریوں کی حویلی اور امرودوں کے خوبصورت باغ کے ساتھ ہی بہتا تھا۔ اس کا میٹھا اور ٹھنڈا پانی لاتعداد بار میرے حلق سے اُتر چکا ہے ۔ اب باغ رہا ہے نہ اس کے شیریں پانی کا کنواں ۔ ایک کنواں چاچا شاہ دین کا تھا ۔اس کے ساتھ ایک داستانوی رہٹ بھی ہوتا تھا ۔ چاچا شاہ دین قبروں میں جا سویا ہے اور اس کا کنواں زمین میں دفن ہو چکا ہے ۔ اور اُس کے وہ باغات جہاں جاں افزا سبزیاں اُگتی تھیں، وہاں اب اُس کی اولاد کے مکان بن چکے ہیں ۔ عین جنوب اور گاؤں کے قبرستان کے کنارے واقع میٹھے پانی کے دونوں کنوئیں بھی مر مٹ چکے ہیں ۔ اور گاؤں کے عین مشرق میں واقع چاچا غلام کا کنواں بھی معدوم ہو چکا ہے ۔ان سب کی یادیں مگر اب بھی آبشار بن کر دل کی گہرائیوں اور کھائیوں میں آبِ شیریں کی دھاریں بہا رہی ہیں ۔