دریائے سندھ کی کہانی‘ اسی کی زبانی !

پاکستان دریائے سندھ کا بچہ ہے اسی طرح جیسے مصر دریائے نیل کا۔


راؤ منظر حیات November 18, 2024
[email protected]

شہزاد احمد حمید کمال انسان ہیں ۔ ان کی لکھی ہوئی کتاب ’’سندھو سلطنت‘‘ بذات خود ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ دراصل یہ دریائے سندھ کی کہانی ہے جو خود اس نے شہزاد احمد کے قلم سے درج کرائی ہے۔یہ کتاب کافی عرصے سے میری لابیریری میں موجود تھی ۔ مگر اس پر لکھ نا پایا۔ اتنی شاندار کتاب پر جلد نا لکھنے کا بہر حال افسوس ضرور رہے گا ۔ کتاب میں سے چند اقتباسات پیش کرتاہوں۔

ہاں تو یہ میں ہوں دریاؤں کا باپ ’’اباسین‘‘۔ میری اپنی راجدھانی کشمیر کے بلند وبالا پہاڑی سلسلے سے ہوتی ہمالیہ‘ ہندوکش‘ قراقرم کی وادیوں سے گزرتی بحیرہ عرب کے ساحلو ںتک پھیلی ہے۔

ہزاروں میل لمبی اس سلطنت کا میں ایسا حکمران ہو جو باپ کی طرح شفیق ہے تو استاد کی طرح سخت بھی۔ میں زرخیز مٹی سے ہریالی کی لالی بھی بانٹتا ہوں اور تند و تیز لہروں سے بے سمت آبادیوں کو تہہ خاک بھی کرتا ہوں۔ میرے کنارے بے شمار قبائل‘ قومیں اور تہذیبیں بھی آباد رہیں ۔ قومیں اور قبائل آتے رہے جاتے رہے مگر میں ہوں کہ بہے چلا جا رہا ہوں۔ اپنی روانی اپنی موج میں ۔ میں اپنی سلطنت میں کسی کی مداخلت کو ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ جو مجھ پرانحصار اور اعتبار کرتے ہیں میںان سے پیار کرتا ہوں۔

’’میں دریائے سندھ کیوںکہلایا؟ اس حوالے سے بہت سی روایات ہیں۔ ایرانی حکومت کا دائرہ گندھارا تک تھا تو وہ مجھے ’’ہندو‘‘ پکارتے تھے۔ میں ہوں رگ وید کا’’سپت سندھو‘‘ فارس کا ’’بتیا سندھو‘‘ سنسکرت کا ’’سندھو‘‘ سندھی کا ’’مہران‘‘ اردو کا ’’سندھ‘‘ پشتو کا ’’اباسین‘‘ (دریاؤں کا باپ) ‘ یونانیوں کا ’’انڈس‘‘ ترکی کا ’’نانیلاب‘‘اور خود اپنی دھرتی ماں کی زبان میں مجھے ’’سنگ کھابب‘‘ یعنی ’’شیر کا منہ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’اٹک گزئیٹیر‘‘ میں لکھاہے‘ اس ضلع میں دریائے سندھ کو دو ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ہزارہ سے اٹک تک یہ ’’دریائے اٹک‘‘ کہلاتا ہے جب کہ اس کے نیلگوں پانی کی وجہ سے اسے ’’نانیلاب‘‘ بھی کہتے ہیں۔

ترکی زبان کے لفظ نانیلاب کا مطلب ہے ’’نیلا پانی‘‘ ’’تاریخ فرشتہ‘‘ کے مصنف ’’محمد قاسم فرشتہ‘‘ نے بھی میرا نام نانیلاب ہی لکھا ہے۔ فرشتہ مزید لکھتے ہیں ’’ہندودھرم کے مطابق اسے پار کرنا منع ہے۔ یہ پابندی اس لیے تھی کہ اس کے کنارے آباد مسلمان اسے پار کرتے تھے اور ہندو مسلمان کو ناپاک سمجھتے تھے۔

لہٰذا اگر کوئی ہندو اسے پار کر لیتا تو وہ ہندو دھرم سے باہر سمجھا جاتا اور اسے واپس اپنے دھرم میں آنے اور ہندو بنانے کے لیے مذہبی رسوم ادا کی جاتی تھیں‘‘۔ اس عقیدے کی تصدیق دو انگریز سیاح ’’ہیوگل اور برنس‘‘ بھی کرتے ہیں۔ اور بیان کیے گئے سبھی میرے ہی نام ہیں۔ یونانی مجھے انڈس کہتے اور لفظ ’’انڈیا‘‘ کا ماخذ بھی یونانیوں کا دیا ہوا یہی انڈس ہی ہے۔ میرا منبع ’’سنگ کھابب‘‘ تازہ پانی کا سدا بہار چشمہ ہے۔

’’پروفیسر حسن دانی‘‘ لکھتے ہیں:

’’پاکستان دریائے سندھ کا بچہ ہے اسی طرح جیسے مصر دریائے نیل کا۔ سندھو نے اتحاد‘ زرخیزی‘ مواصلات ‘ سمتوں کے تعین اور اس ملک کا تمام نقشہ ترتیب دیا ہے۔ یونانی اس خطے کو جوآج کا پاکستان ہے کئی سو سال سے جانتے تھے۔ انڈیا کالفظ تو سکندر اعظم کی موت کے چھ سو (600) سال کے بعد وجود پذیر ہوا‘‘۔

’’میں تقریباً دو سو (200) میل یا تین سو بیس (320) کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے تبت کی شمال مشرقی سرحد عبور کرکے چھیالیس (46) سو میٹر کی بلندی سے مقبوضہ کشمیر کی وادی لداخ میں داخل ہوتا ہوں۔ لہہ سے تیس (30) کلو میٹر دور میری پہلی ڈسٹری بیوٹری دریائے ’’زنگ سار‘‘مجھ میں گرتا ہے ۔مزید ایک سو پچاس میل کا سفر اسی سمت طے کر کے ’’ہنورمن‘‘ (بھارت) کے مقام سے بہتا پاکستان میں داخل ہوتا ‘ دریائے لداخ کو مرول ٹاپ اور ‘ دریائے شیوک کو ’’چھومندو‘‘ کے مقام پر اپنا ہمسفر بناتا ہوں۔

کبھی ہنور من گاؤں پاکستان کا حصہ تھا مگر71کی جنگ میں بھارت نے اس پر قبضہ کر لیا اور دکھوں اور تقسیم کی ایک اور کہانی نے جنم لیا۔ چھو مندو سے پچیس (25) کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم دریائے شگر اور میرا سنگم اسکردو کے قریب ہے تو مزید ڈاؤن اسٹریم ہندوکش کے سائے سے بہنے والا ’’دریائے گلگت جگلوٹ‘‘ کے قریب اور مزید گیارہ (11) کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم نانگا پربت کی برف سے پھوٹنے والا ’’دریائے استور‘‘ ’’بنجی‘‘ کے مقام پر مجھ میںگرتے ہیں ۔اگر آپ کا منہ مغرب کی سمت ہے تو شیوک دائیں ہاتھ اور سندھو بائیں ہاتھ سے بہتے آتے ہیں۔

شیوک پاکستان میں جنم لے کر سیاچین سے ہوتا بھارت کی جانب بہتا ہے اور پھر دوبارہ پاکستان میںداخل ہو کر چھومندو کے مقام پر سندھو میں مل جاتا ہے۔ پانی کے بہاؤ کے اعتبار سے شیوک بڑا دریا ہے۔ شیوک کے سندھو میں گرنے کے بعد سندھو میںپانی کی مقدار اور بہاؤ دونوں میں نمایاں اضافہ ہوتاہے۔ یوں سمجھو سندھو جوان ہو گیا ہے۔ پاکستان میں داخل ہونے کے بعد یہاں تک کے سفر میں یہ سندھو کا سب سے بڑا معاون دریا ہے۔

’’ملنا‘ بچھڑنا‘ خوشی اور غمی کا اٹوٹ انگ ہیں‘‘ ۔(بابا گرو نانک)

’’بابا گرو ناک کا قول حقیقت ہے اور یہ ہے بھی حقیقت میں پہاڑوں کی سرزمین سے باہر نکل آیا ہوں۔ پیر سر‘ دربند اور تربیلا پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ پٹھانوں کی قدیم ثقافت‘ خوشحال خاں خٹک کا دیس اور جدید زمانے کی کلاشنکوف ‘ ہیروئن‘ اسمگلرز‘ پردہ پوش خواتین اور سنگلاخ چٹانوں کا خطہ ہے۔

یہ پنجاب ہے۔ پانچ دریاؤں ‘ سسی پنوں‘ ہیر رانجھا‘ گبھرو جوانوں ‘ الہڑ مٹیاروں مہمان نوازوں‘ سونا اگلتے کھیتوں‘ راہٹوں کی گھوں گھوں‘ میٹھے سروں‘ سرسبز میدانوں‘ بابا بلھے شاہؒ ‘ سلطان باہوؒ‘ میاں محمد بخشؒ ‘ داتا گنج بخشؒ‘ میاں میرؒ جیسے صوفی شعراء اللہ کے دوستوں اور سب سے بڑھ کر میری (سندھو) منہ زور جوانی کی دھرتی ہے‘‘۔ اونچے پہاڑوں سے نکل کر جیسے ہی میں نشیبی علاقوں میںپہنچتا ہوں تو تربیلا کے مقام پر ایک بڑی بدنما دیوار بنا کر مجھے ڈیم میں بدل دیا گیا ہے۔ میرے مشرقی کنارے ’’حضرہ‘‘ کی قدیم اور تاریخی بستی ہے۔ تھوڑا آگے جرنیلی سڑک کے پاس اٹک ہے اور یہیں دریائے کابل مجھ میں گرتا ہے۔ جنڈ کے قریب مرا اور ’’سواں ریور‘‘ کا سنگم ہے۔

’’کالا باغ کے قریب میں (سندھو) سطح سمندر سے قریباً سات سو فٹ بلند ہو اور یہاں سے سمندرتک کا سفر لگ بھگ نو(9) سو میل ہے۔ تم اس فاصلے اور اونچائی سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہو کہ فی میل ڈھلوان کیا رہی ہو گی۔ قدرت کا کمال ہے کہ میں ہزاروں فٹ کی بلندی سے بہنا شروع کرتا ہوں اور سمندر میں گرنے تک کس طرح میل در میل اپنی بلندی کم کرتا ہوں۔ سبحان اللہ۔ گرمی کے موسم میں سندھو اور پنجند کے باقی دریا اس قدر زور و شور سے بہتے ہیں کااپنے کناروں سے باہر نکل جاتے ہیں۔ بعض دفع یہ میدانوں میں اپنے لیے نئے راستے تلاش کر لیتے ہیں۔ سارے دریا ایسا ہی کرتے رہتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے میدان انھی دریاؤں کی نقل و حرکت اور لائی مٹی سے تشکیل پاتے ہیں جو بہت عمدہ اور باریک ہے‘‘۔

میرے دوسست۔ سندھو نے شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کاایک سندھی کا شعر سنا ڈالا ہے‘ جس کا مطلب کچھ یوں ہے:

پہلے چو بھے خنجر پھر کر باتیں پریت کی

ساز کی صورت درد سجن کا باجے دل کے اندر

انگاروں پہ پک کر پھر لے نام عشق کا

’’تمہیں یہ بتانا تو بھول ہی گیا ہوں میں‘‘۔ داستان گو سندھو بولتا جا رہا ہے: ’’1880 تک مجھ میں اور پنجند کے باقی دریاؤں میں محدود پیمانے پر جہاز رانی ہوتی رہی ہے۔ ریل کے آنے اور نہری نظام میں بڑے پیمانے پر تو سیع نے جہاز رانی کو تقریباً ختم ہی کر دیا ہے۔آج بھی تھوڑی تعداد میں چھوٹے جہاز اور کشتیاں میرے پانیوں پر تیرتی نظر آتی ہیں لیکن یہ کوئی لمبا سفر نہیں کرتے ہیں۔ البتہ میرے پانیوں پر آج بھی جنگلات کی قیمتی لکڑی خاص طور پر سکردو اور گلگت کے علاقے سے بہا کر میرے کنارے قائم مختلف لکڑ منڈیوں میں لائی جاتی ہے۔ پہاڑی سفر میں گزر گاہ کے ساتھ ساتھ لکڑی کی بڑی منڈیاں بھی ہیں‘‘۔

یہ ہے وہ منظر نامہ جو اس دھرتی کا خاصہ ہے جہاں جہاں سے سندھو بہتا ہے ۔ شاید یہ وہ آئینہ ہے جو بغیر کسی تعصب‘ طرفداری اور کھسوٹ کے خوب کو خوب اور رشت کو زشت اس کے اصلی آب و رنگ کے ساتھ دکھاتا ہے۔ نہ کسی کادوست نہ کسی کا مخالف ‘ نہ وفادار‘ نہ بے وفا‘ نہ حریف پنجہ فگن‘ نہ شاعر شریں سخن۔ اس کااثر خواہ کسی پر اچھا پڑے یا برا‘ کوئی خواہش ہو یا خوشی‘ کسی کی تائید کا پہلو نکلتا ہو یامخالفت کا‘ کسی کا مفاد مجرو ح ہوتا ہو یا کسی کو فائدہ پہنچتا ہو۔ وہ صرف وہی دیکھتا ہے جو سچ ہے۔ حقیقت اور صداقت کا ترجمان۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں