ستمبر کی راتوں میں نہ جانے کیا خمار تھا یا پھر مجھے خمار سا محسوس ہوتا تھا۔ بدن میں عجیب طرح کی سستی اور نقاہت تھی۔ ماجد سے سفر کے لیے میں بہت لمبے عرصے سے کہہ رہا تھا مگر وہ کسی وجہ سے ٹالتا جا رہا تھا۔
ایک دن جب کہ میرا خود بھی سفر کا کوئی خاص ارادہ نہ تھا، میں نے ماجد سے ہلکے پھلکے انداز میں سفر کے لیے کہا۔ ذرا زور نہ دیا مبادا وہ مان ہی نہ جائے۔ قسمت میں سفر لکھا تھا سو ماجد نے میرے ایک بار کہنے پر ہی ہاں کردی۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ماجد کو دیکھنے لگا اور اس لمحے کو کوسنے لگا کہ ستمبر کی ان خنک زدہ راتوں میں سفر کے لیے میں نے ماجد سے کہا تو کہا کیوں؟
تیر اب کمان سے نکل چکا تھا۔ میری بہت سی دعاؤں کی طرح یہ دعا بھی رائیگاں چلی گئی کہ ماجد جو اکثر ذرا سے موسم بدلنے پر بیمار ہوجاتا ہے، پھر سے بیمار ہوجائے یا اسے بہت ضروری کام پڑ جائے مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ نہ تو ماجد بیمار پڑا اور نہ اسے کسی گھریلو مصروفیت نے گھیرا اور عین وقتِ مقررہ پر رات ایک بجے ماجد اپنی بائیک کے ساتھ میرے دروازے پر تھا۔ میں نے مزید آدھا گھنٹہ انتظار کیا کہ شاید میری دعا قبول ہوجائے اور ماجد کو گھر سے کال آ جائے مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ میں نے بچوں کو سوتے سوتے ہی خدا کے آسرے چھوڑا اور وزیرآباد کی طرف منہ کردیا۔
حالاں کہ آدھی رات بیت چکی تھی مگر پھر سوہو والا کے ریلوے اسٹیشن سے گزرتے ہوئے میرا دل چاہا کہ میں یہیں رک جاؤں۔ ہر سفر کا ایک وقت مقرر ہے، موزوں اور سازگار۔ بعض سفر وہ ہوتے ہیں جن کا ابھی وقت مناسب نہیں ہوتا مگر ہمیں کرنے پڑتے ہیں۔ یہ وہ سفر ہوتے ہیں جو زبردستی ہم ہر تھوپ دیے جاتے ہیں۔ سفر کا وقت اگر مناسب ہو تو بسم اللّہ، نہ ہو تو سو جان سے بسم اللّہ۔ جب قسمت میں لکھ دیا گیا ہے تو پھر سفر تو کرنا ہی پڑے گا۔
اگر آپ سیال کوٹ سے وزیرآباد کی طرف جائیں تو پہلا ریلوے اسٹیشن اگوکی جب کہ دوسرا ریلوے اسٹیشن سوہووالا ہے۔ سوہووالا ریلوے اسٹیشن ایک ترک شدہ ریلوے اسٹیشن ہے یعنی اب یہاں ریل گاڑی نہیں رکتی مگر سیال کوٹ سے کراچی جانے والی علامہ اقبال ایکسپریس دن میں یہاں سے گزرتی ضرور ہے۔ علامہ اقبال ایکسپریس کی ایک بات بہت عجب اور نرالی ہے۔ سیال کوٹ سے علامہ اقبال ایکسپریس نارووال اور لاہور سے ہوتی ہوئی کراچی پہنچتی ہے۔ کراچی سے سیال کوٹ آنے والی علامہ اقبال ایکسپریس شام چھے بجے کے قریب سیال کوٹ ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جاتی ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ ریل یہی تک نہیں رکتی بلکہ کپڑے بدل کر نئے نام کے ساتھ وزیر آباد کے لئے روانہ ہو جاتی ہے۔ سیال کوٹ سے وزیرآباد یہ ریل گاڑی شاہین پیسنجر ٹرین کے نام سے چلتی ہے۔ وہی رات گزارتی ہے اور اگلے روز نہا دھوکر خوب پاک صاف ہوکر صبح ساڑھے چھے بجے کے قریب یہی شاہین پیسنجر ٹرین واپس وزیرآباد سے سیال کوٹ پہنچ جاتی ہے۔ یہاں یہ پھر علامہ اقبال ایکسپریس کا روپ دھار لیتی ہے اور نارووال سے ہوتی ہوئی کراچی کے لیے روانہ ہوجاتی ہے۔
اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ متروکہ ریلوے اسٹیشن سوہو والا سے صبح شام شاہین پیسنجر ٹرین گزرتی ہے مگر یہاں رکتی نہیں۔ یہ سوہووالا ریلوے اسٹیشن مجھے بہت پسند ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے ہمیشہ اٹک خورد ریلوے اسٹیشن یاد آتا ہے۔ یہ دونوں ریلوے اسٹیشن ہی پانیوں کے کنارے آباد ہیں۔ اٹک خورد ریلوے اسٹیشن سے جوں ہی ریل باہر نکلتی ہے تو دریائے سندھ کا پل آجاتا ہے۔ سوہو والا ریلوے اسٹیشن بھی دریائے چناب سے نکلنے والی ایک نہر کے کنارے بنایا گیا ہے۔ شاہین پیسنجر ٹرین جوں ہی سوہو والا ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلتی ہے تو دریائے چناب کے پانیوں پر بنے ریلوے پل پر سے گزرتی ہے اور ٹھنڈے ٹھنڈے پانیوں کا احساس بھلا کسے برا لگتا ہے۔
اگر جھلار ریلوے اسٹیشن کے بعد مجھے کوئی ریلوے اسٹیشن پسند آیا ہے تو وہ ڈومیلی ریلوے اسٹیشن ہے۔ کس قدر سکون تھا ڈومیلی ریلوے اسٹیشن پر۔ ہلکے پھلکے پہاڑوں میں گرا ہوا ڈومیلی ریلوے اسٹیشن سحر انگیز تو ہے ہی ہے مگر یہاں سکون کس قدر ہے، یہ جاننے کے لیے آپ کو ڈومیلی ریلوے اسٹیشن ہی جانا پڑے گا۔ پنڈی سے لاہور اور لاہور سے پنڈی جانے والی ہر ریل گاڑی ڈومیلی ریلوے اسٹیشن سے گزرتی ہے مگر رکتی نہیں ہے۔ تین سے چار رکنی ریلوے اسٹیشن کا عملہ آپ کو ایک خوش گوار مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہے گا کیوں کہ جیسے ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘ بالکل ایسے ہی اب ڈومیلی ریلوے اسٹیشن پر کوئی نہیں جاتا۔
اس جانب اب کوئی مسافر اپنا رخ نہیں کرتا مگر وہ جو صرف اور صرف محبت کرنا جانتا ہو۔ وہ جس کی آنکھوں میں صرف اور صرف محبت بھری ہو۔ صرف وہ شخص جسے نفرت کا مفہوم ہی نہ پتا ہو۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ جھلار ریلوے اسٹیشن کی طرح ڈومیلی ریلوے اسٹیشن پر بھی بار بار جاؤں کہ میں جانتا ہوں کہ یار دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے جھلار ریلوے اسٹیشن یا ڈومیلی ریلوے اسٹیشن سے خوب صورت جگہ اور کیا ہوسکتی ہے۔
آپ اگر گجرات سے پنڈی کی جانب جی ٹی روڈ پر سفر کر رہے ہوں تو سوہاوہ سے پہلے آپ کو سڑک پر ڈومیلی کا بڑا سا بورڈ ملے گا۔ ڈومیلی ریلوے اسٹیشن جانے کے لیے آپ کو یہاں نہیں مڑنا۔ یہ سڑک آپ کو چند دیہات سے گزرنے کے بعد ڈومیلی لے جائے گی مگر ڈومیلی ریلوے اسٹیشن نہیں۔ یہ بھی عجب بات کہ ڈومیلی ریلوے اسٹیشن ڈومیلی قصبہ سے بہت پہلے ہے۔ جی ٹی روڈ پر گجرات کی جانب سے پنڈی کی طرف سفر کرتے ہوئے، جہاں ڈومیلی کا بورڈ ہے، وہاں سے تقریباً ایک کلو میٹر پیچھے ایک سڑک بائیں جانب اوپر کو اٹھے گی۔ یہاں کوئی بورڈ نہیں لگا حالاں یہاں بورڈ ہونا چاہیے تھا۔ اسی جانب بائیں طرف مڑیں۔ یہ سڑک آپ کو سیدھا ڈومیلی ریلوے اسٹیشن کے جائے گی۔
اب ذرا میری کہانی بھی سن لیں کہ میں کب سے ڈومیلی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے تھا۔ بات کم از کم تین چار سال پرانی ہے۔ آپا عظمیٰ جبین نے میری ریل کے متعلق کسی پوسٹ پر کمنٹ کیا کہ میاں ڈومیلی ریلوے اسٹیشن بھی دیکھو۔ عظمیٰ آپا ایسے ہی کوئی شے تجویز نہیں کرسکتی تھیں۔ یقیناً اس ریلوے اسٹیشن میں ایسا کچھ تھا جو انھوں نے اسے میرے لیے تجویز کیا تھا۔ میں نے ان تین ساڑھے تین سالوں میں جی ٹی روڈ پر بائیک کے بہت سے اسفار کیے مگر ہر بار میں رات کے گھپ اندھیرے میں ہی ڈومیلی کے پاس سے گزرا۔ اس لئے ڈومیلی دیکھنے کا خواب، خواب ہی رہا۔
پھر قدرت کی جانب سے ایک عجب کھیل کھیلا گیا۔ جولائی کے حبس زدہ دنوں میں، میں نے گنگا چوٹی اور پیر چناسی کا پروگرام بنایا۔ دونوں مقامات دیکھ چکا تو واپسی ریل کے ذریعے کرنے کا سوچا ایسے میں راول ایکسپریس کا سنا کہ وہ رات ساڑھے بارہ بجے پنڈی سے چلے گی اور رکے بنا آپ کو صبح سویرے لاہور پہنچا دے گی۔ مجھے سفر ذرا لمبا پڑنا تھا کہ میں پہلے لاہور جاتا اور پھر سیال کوٹ آتا مگر راول ایکسپریس کے اس قدر شان دار پیکیج نے میری رالیں ٹپکا دیں اور میں نے رات ساڑھے بارہ بجے کی ٹکٹ کنفرم کروا دی۔ اب راول ایکسپریس جس نے راستے میں کہیں نہیں رکھا تھا وہ اچانک سے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد آہستہ ہونا شروع ہوئی اور پھر رک گئی۔
یہ ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن تھا جس کا نام نہ پڑھا جاتا تھا۔ پتا چلا کہ آگے سگنل ابھی لال ہے۔ میری کھڑکی کے بالکل سامنے ہی ریلوے اسٹیشن کی چھوٹی سی عمارت تھی مگر نام نہیں پڑھا جاتا تھا۔ جہاں نام لکھا تھا، وہاں ایک بڑا سا درخت تھا۔ مجھے تجسس ہوا کہ ذرا نام تو پڑھوں کہ راول ایکسپریس رکی کہاں ہے۔ ذرا رک کر دیکھا تو سامنے ڈومیلی لکھا تھا۔ میں مسکرایا کہ تین چار سال سے میں جس ریلوے اسٹیشن کے پیچھے تھا، وہ کس طرح میری قسمت میں لکھا گیا تھا۔ راول ایکسپریس پر شاید مجھ سے اسی لیے سفر کروا گیا تھا تاکہ میں ڈومیلی ریلوے اسٹیشن دیکھ سکوں۔
اور اب کی بار تو انتہائی عجب معاملہ ہوا۔ میں پھر اپنی ترتیب کے مطابق رات ڈیڑھ بجے گھر سے نکلا۔ ارادہ یہی تھا کہ صبح سویرے چکوال پہنچا جائے تاکہ چکوال دیکھنے کو پورا دن میسر آسکے۔ میں ہمیشہ ہی بائیک ٹور کے لیے بہت پُرجوش ہوتا ہوں، اب بھی تھا۔ ہم نے پہلا سٹاپ لالہ موسیٰ میں میاں جی ریسٹورنٹ پر کیا۔ نہ جانے موسم میں خمار تھا یا میاں جی کی دیسی گھر والی دال میں کچھ ایسا تھا کہ مجھے نیند آنے لگی۔ حالاں کہ میں دوپہر سویا بھی تھا مگر پھر بھی نیند آ رہی تھی۔ میں کچھ دیر کے لیے لیٹ گیا، پھر ہمت کی اور چل پڑا۔ فجر کا وقت ہوا چاہتا تھا اور ابھی اتک سوہاوہ بھی نہ آیا تھا۔ سوہاوہ سے پیچھے ہی ہم ایک پیٹرول پمپ پر رک گئے اور جماعت کا انتظار کرنے لگے۔
میرے حساب سے ہمیں دیری ہو رہی تھی، فجر کے بعد استراحت کا وقت نہیں تھا۔ یہی سوچا کہ نماز کے بعد فوراً نکل پڑیں گے مگر نہ جانے کیا ہوا اور میں سوگیا۔ آنکھ کھلی تو پیٹرول پمپ سے باہر مکمل روشنی تھی۔ سورج چڑھ چکا تھا۔ سمجھ میں نہ آیا کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ کیوں مجھے اتنی نیند آ رہی تھی۔ پیٹرول پمپ سے ہی چائے پی اور آگے نکل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد جی ٹی روڈ پر ڈومیلی کا بورڈ نظر آیا۔ پچھلے چار سال میں یہ پہلی بار تھا کہ میں دن کی روشنی میں ڈومیلی کے پاس سے گزر رہا تھا مگر میں نے ڈومیلی کو نظرانداز کیا اور آگے چل پڑا کہ پہلے ہی نیند کی وجہ سے دیری ہوچکی تھی۔
ابھی کچھ ہی آگے بڑھے تو میں نے ماجد سے کہا کہ مجھے ڈومیلی ریلوے اسٹیشن دیکھنا ہے مگر سمجھ نہیں آ رہا کہ ڈومیلی جاؤں یا نہ جاؤں۔ ماجد کو جب پوری بات بتائی تو کہنے لگا کہ یہ نیند مجھے بار بار اسی لیے آ رہی تھی کہ ہمیں دیر ہو اور ہم دن کی روشنی میں ڈومیلی کے پاس سے گزریں۔ کہنے لگا کہ اگر میں ابھی ڈومیلی نہ گیا تو پھر کبھی نہ جاسکوں گا۔ ماجد کی بات دل کو لگی اور ہم جرنیلی سڑک پر بائیک واپس موڑ کر ڈومیلی ریلوے اسٹیشن کی طرف مڑگئے۔
اب تو مجھے بھی یہی لگتا کہ ہے کہ اس دن قدرت کی طرف سے ہی مجھے نیند کے ذریعہ دیری کروائی گئی کہ ایک یہی طریقہ تھا کہ میں صبح سویرے ڈومیلی ریلوے اسٹیشن دیکھ سکوں ورنہ ٹور پر میں ایک ایک منٹ کا حساب رکھتا ہوں اور ہدف یہی ہوتا ہے فجر چکوال ہی پڑھنی ہے۔ اب کی بار ڈومیلی ریلوے اسٹیشن ہماری قسمت میں تھا اور قدرت نے ہم پر نیند کا غلبہ طاری کر کے، ہمیں ڈومیلی ریلوے اسٹیشن دکھا ہی دیا۔
ڈومیلی ریلوے اسٹیشن کا تو مجھے ایسے ہی بونس مل گیا تھا۔ اصل مقصد میرا چکوال کی طرف سفر کرنا تھا۔ چکوال میں ایک سیاح فرحان رہتا ہے۔ بالکل ویسا ہی سیاح ہے جیسا میں چاہتا ہوں کہ ہر سیاح ایسا ہی ہو۔ فرحان اپنی زمین سے جُڑا ہوا ہے۔ چکوال اور وادیِ سون کے چپے چپے سے آگاہ ہے اور اکثر اپنے خطے کے آف روڈ ٹریکس، جھیلیں، آب شاریں دکھا دکھا کر مجھے جلاتا رہتا ہے۔
میں پچھلے چار سالوں سے سیاحت کے حوالے سے فرحان سے رابطے میں ہوں۔ ہر سال مجھے چکوال جانا ہو یا وادیِ سون، یہی بندہ میری آنکھیں بنتا ہے اور ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی یہ مجھے ہر اعتبار سے گائیڈ کرتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کسی پلے گروپ کے بچے کو گائیڈ کیا جاتا ہے۔ میرے پاس چند ہی گنتی کے لوگ ہیں جن سے میں نے خود ملنے کی درخواست کی ہے جن میں سے فرحان بھی ایک ہے۔ اس بار چکوال ٹور کے دوران میں نے موصوف سے خاص درخواست کی کہ ایک پیالی چائے کے لیے وقت نکالیں۔
اگر پاکستان اور خاص کر پنجاب کے ہر شہر میں فرحان جیسا ایک بھی لڑکا ہو تو وہ شہر سیاحتی اعتبار سے نکھر جائے گا۔ فرحان ایسا پیارا انسان ہے کہ اس نے مجھے اگلے سال کے لیے بھی وادیِ سون کا پلان بنا کر دے دیا ہے۔ کہتا ہے حارث بھائی اب آپ کو وادیِ سون کے آف روڈ ٹریک کرنے چاہیں۔ ویسے وادیِ سون کا ایک آف روڈ ٹریک میں نے پچھلے سال کیا تھا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قدرت نے زبردستی مجھ سے کروا دیا تھا۔ میں بس راستہ بھٹک گیا تھا۔
میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ میرے پاس سفر کی جو بھی فہرست ہو، سب سے پہلے آخر والے مقام کو دیکھا جائے اور اب کی بار میرے پاس فرحان کی فراہم کردہ جو فہرست تھی اس میں سب سے آخر پر متروکہ بھون ریلوے اسٹیشن تھا اور یہی میری پہلی منزل تھی۔
بھون ریلوے اسٹیشن
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ تقسیم کے موضوع پر میرے جو بھی خیالات ہیں، سوچ ہے یا نظریات ہیں، وہ سب جھوٹ ہیں غلط ہیں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ تقسیم کے موضوع پر میرا مطالعہ بہت ہی کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس موضوع پر اب پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔
جوانی کے جذباتی دنوں میں جو پڑھ لیا سو پڑھ لیا مگر اب اس موضوع کو زیرِبحث نہیں لاتا کہ دکھی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک ایسا کام جس کے کرنے سے انسان کو تکلیف پہنچے اس کے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں جب بھی یہ بات کہتا ہوں کہ تقسیم کے وقت لاہور میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں کے مقابلے کم تھی تو میرے کچھ احباب مجھ پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بات میں تو نہیں کہتا بلکہ کچھ کتابیں کہتی ہیں کہ پہلے پہل جو برصغیر کی تقسیم کا نقشہ بنا، اس میں لاہور پاکستان میں شامل نہیں تھا۔
میں جب بھی بھارت سے پاکستان آنے والی لاشوں بھری ٹرینوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھارت جانے والی ٹرینوں کا احوال بیان کرتا ہوں کہ کامونکی ریلوے اسٹیشن پر کیسے لوٹ مار ہوتی تھی تو میرے بہت سے احباب مجھ سے ناراض ہو جاتے ہیں۔
میں جب یہ کہتا ہوں کہ۔۔۔۔نہیں نہیں میں نہیں کہتا بلکہ چند ملک دشمن لوگ اور ملک دشمن کتابیں یہ کہتی ہیں کہ تقسیم کے فسادات کا آغاز پنڈی سے ہوا تو میرے احباب مجھ سے باقاعدہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ آج کے لاہوری شاید لکشمی کی آگ کو بھول چکے ہوں مگر پرانے لاہوریوں کے سینوں میں تو آج بھی اسی آگ کی راکھ سلگ رہی ہے۔
مگر جب جب بھون جیسے اجڑ چکے شہر اور ان کے ریلوے اسٹیشن کو دیکھتا ہوں تو مجھے تب تب احساس ہوتا ہے کہ اس ملک کے بڑوں سے کہیں نہ کہیں کوئی بھول تو ہوئی ہے۔ قائد تو بے چارے بہت ہی معصوم تھے اور ان کی معصومیت کا فائدہ ہر ایک نے اٹھایا۔ میرے ملک کے متروکہ ریلوے اسٹیشن اب کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ماضی میں جب آبادی بھی بہت کم تھی، لوگ بھی زیادہ سفر نہیں کرتے تھے مگر پھر بھی پنڈی سے مسافروں سے بھری ہوئی ایک ریل چلتی مندرہ ریلوے اسٹیشن پر آتی۔
وہاں سے ذرا بھٹک کر دائیں طرف مڑتی۔ مندرہ سے یہ روٹ الگ ہوتا۔ آگے تارہ گڑھ ریلوے اسٹیشن تھا پھر جاتلی اور ڈھڈھیال تھا۔ ڈھڈھیال کے بعد چکوال اور پھر بھون آتا تھا۔ پنڈی سے چلنے والی ریل کا آخری اسٹاپ بھون ریلوے اسٹیشن ہوتا۔ یہیں سے ریل پھر واپس پنڈی کی جانب مڑ جاتی۔ بھون چوں کہ آخری ریلوے اسٹیشن تھا اس لیے یہاں ایک چھوٹی سی ورک شاپ بھی تھی جو انجن کی ہلکی پھلکی خرابی کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ایک بڑی سی پانی کی ٹنکی بھی تھی۔ جب ریلوے اسٹیشن تھا تو پھر ظاہر سی بات ہے یہاں مسافر خانہ بھی ہونا تھا اور بھی نہ جانے کیا تھا۔ میں پھر اقرار کروں گا کہ تاریخ اور تقسیم پر میرا علم بہت ہی محدود اور معلومات محدود تر ہیں مگر یہ ظالم میرا مشاہدہ مجھے کہیں کا رہنے نہیں دیتا۔ میں لاکھ اپنی آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر پھر کوئی نہ کوئی اجڑا اور ریلوے اسٹیشن زبردستی میری آنکھیں نہ صرف کھولتا ہے بلکہ میرے چودہ طبق بھی روشن کروا دیتا ہے۔
چلیں چھوڑیں کیا رونے رونا ان سب باتوں کا۔ بات اگر مشاہدے کی چلی ہے تو پھر اسے مشاہدے تک ہی رکھتے ہیں۔ بات اگر بھون ریلوے اسٹیشن کی ہے تو پھر اسے صرف بھون ریلوے اسٹیشن تک ہی رکھتے ہیں۔ ایسے ہی گھڑے مردے اکھاڑنے کا کیا فائدہ۔ بھون ریلوے اسٹیشن ایک ایسا بدقسمت ریلوے اسٹیشن ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔ کسی بھی ریلوے اسٹیشن کی پہلی شناخت، اس کی مانگ کا سیندور ریل کی پٹری ہوتی ہے۔ نہ صرف بھون ریلوے اسٹیشن سے ریل کی پٹری کو اکھاڑ دیا گیا بلکہ مندرہ سے لے کر بھون تک کی ساری پٹری کو ہی اکھاڑ کر کسی اسٹیل مل کی بھٹی میں گھلا دیا گیا۔ ملک کی اسٹیل مل تو چلتی نہیں، پتا نہیں یہ بڑے لوگوں کی ذاتی اسٹیل ملز کیسے چلتی رہتی ہیں۔ آج بھون ریلوے کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں کیوں کہ جھاڑیاں اور مٹی اس قدر بھر چکی ہے کہ پلیٹ فارم کا وجود ہی تقریباً ختم ہوچکا ہے مگر پھر بھی وہ کسی نہ کسی طرح ہمارے مشاہدے میں آ ہی گیا۔ ریلوے اسٹیشن کے شیڈ کو کسی نے گائے بھینسوں کا اڈا بنا دیا ہے۔
ریلوے کی اس ساری زمین پر کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے مقامی بندے کا قبضہ ہے۔ ریلوے کے پاس چوں کہ اراضی وسیع ہوتی ہے اس لیے ایک متروکہ ریلوے اسٹیشن بالکل اس مرے ہوئے ہاتھی کی مثل ہے جو زندہ ہو تو ایک لاکھ کا اور اگر مر جائے تو سوا لاکھ کا۔ ریلوے اسٹیشن کی مرکزی عمارت کو اندر سے دیکھنا اب تقریباً نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں سانپ سمیت حشرات الارض بہت ہیں اور پھر لمبی لمبی جھاڑیاں الگ۔ بھون ریلوے اسٹیشن سے تھوڑا ہی پہلے ہمارا استقبال بھی ایک سانپ بھائی صاحب نے باقاعدہ سڑک پر ہمارا راستہ کاٹ کر کیا تھا۔ کالی بلی راستہ کاٹتی تو ہمارا شاید واپس مڑ بھی جاتے مگر تین چار فٹ کا کالا سانپ اگر راستہ کاٹ جائے تو اس کا کیا مطلب ہوگا، اچھا ہوا ہمیں نہیں پتا تھا ورنہ خواہ مخواہ کی پریشانی ہوتی۔ چکوال ریلوے اسٹیشن آج سے تیس چالیس سال پہلے ٹرین ہی سفر کا بنیادی ذریعہ تھی۔
روڈ نیٹ ورک اتنا بہتر نہیں تھا اور نہ ہی زندگی اتنی برق رفتار تھی، جس کی وجہ سے لوگ دن میں دو تین مرتبہ چلنے والی ٹرین کا انتظار کرتے تھے اور اب ہر گاؤں دیہات میں پکی سڑکیں بن جانے کی وجہ سے ذرائع آمد و رفت بہت تیز ہوچکے ہیں۔ لوگ سو، دو سو کلومیٹر یا اس سے کم سفر کے لیے فوری طور پر موجود ذرائع آمد و رفت کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ وقت کی بچت کی جا سکے البتہ لانگ روٹ پر ابھی بھی ٹرینز کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ایسے چھوٹے اسٹیشن متروک ہوجاتے ہیں اور دوسری بات پٹڑی وغیرہ کی تو اس کے لیے ہمارا ہر علاقہ مقامی طور پر ہی چوروں سے خود کفیل ہوتا ہے۔ ایسے کاموں کے لیے مقامی ریلوے ملازمین، بااثر مقامی چور وغیرہ ہی کافی ہوتے ہیں۔
لاہور خانیوال سیکشن کے درمیان پہلے الیکٹرک ٹرین چلتی تھی اور کھمبے اور تاریں تھیں جن میں سے 25000 وولٹ کرنٹ گزرتا تھا۔ جب کچھ عرصہ الیکٹرک انجن نہ چلے تو ایک ایف آئی آر ریلوے کی طرف سے درج ہوئی جس میں سیکڑوں کلومیٹر کی بجلی لائنوں کی چوری تھی۔ ذرا اندازہ کریں کہ جس لائین سے 25000 وولٹ بجلی گزر رہی ہو وہ کوئی عام شخص چوری کرسکتا ہے اور وہ بھی سیکڑوں کلومیٹر کے علاقے سے اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی؟ وہ کھربوں روپے کی تار تھی جو ریلوے ملازمین کی ملی بھگت سے چوری کرلی گئی اور بعد میں کھمبے بھی ٹھیکے پہ چوری کرنے کے لیے دے دیے گئے۔ یہ ساری باتیں اس لیے یاد آئیں کہ نہ تو بھون ریلوے اسٹیشن پر مجھے پٹری دیکھنے کو ملی اور نہ ہی چکوال ریلوے اسٹیشن پر بلکہ مندرہ سے جوں ہی چکوال اور بھون کو جانے والا ٹریک الگ ہوتا تھا تو ظاہر سی بات ہے کہ مندرہ سے بھون تک پٹری اور ریلوے اسٹیشن تھے مگر اب اس پورے ٹریک پر پٹری کا کوئی نام و نشان نہیں۔ کہاں گئی، کون لے گیا، آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی، کوئی نہیں جانتا۔ میں اس بار چکوال میں فرحان سے بھی ملا۔ یہ فرحان ہے۔ فرحان بالکل ویسا ہی سیاح ہے جیسا میں چاہتا ہوں کہ ہر سیاح ایسا ہی ہو۔ فرحان اپنی زمین سے جڑا ہوا ہے۔ چکوال اور وادیِ سون کے چپے چپے سے آگاہ ہے اور اکثر اپنے خطے کے آف روڈ ٹریکس، جھیلیں، آب شاریں دکھا دکھا کر مجھے ساڑتا رہتا ہے۔
میں پچھلے چار سالوں سے سیاحت کے حوالے سے فرحان سے رابطے میں ہوں۔ ہر سال میں نے چکوال جانا ہو یا وادیِ سون، یہی بندہ میری آنکھیں بنتا ہے اور ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی یہ مجھے ہر اعتبار سے گائیڈ کرتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کسی پلے گروپ کے بچے کو گائیڈ کیا جاتا ہے۔ میرے پاس چند ہی گنتی کے لوگ ہیں جن سے میں نے خود ملنے کی درخواست کی ہے جن میں سے فرحان بھی ایک ہے۔ اس بار چکوال ٹور کے دوران میں نے موصوف سے خاص درخواست کی کہ ایک پیالی چائے کے لیے وقت نکالیں۔ اگر پاکستان اور خاص کر پنجاب کے ہر شہر میں فرحان جیسا ایک بھی لڑکا ہو تو وہ شہر سیاحتی اعتبار سے نکھر جائے گا۔ فرحان ایسا پیارا انسان ہے کہ اس نے مجھے اگلے سال کے لیے بھی وادیِ سون کا پلان بنا کر دے دیا ہے۔
کہتا ہے حارث بھائی اب آپ کو وادیِ سون کے آف روڈ ٹریک کرنے چاہیں۔ ویسے وادیِ سون کا ایک آف روڈ ٹریک میں نے پچھلے سال کیا تھا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قدرت نے زبردستی مجھ سے کروا دیا تھا۔ میں بس راستہ بھٹک گیا تھا۔ میرا ہمیشہ سے یہ مشاہدہ اور تجربہ رہا ہے کہ خدا ہر وقت سیاحوں کے ساتھ ہوتا ہے مگر گھر سے نکلنا ضروری ہے۔ میں آپ کو اپنے کس کس سفر کا حوالہ دوں کہ جب بھی کسی دوسرے شہر میں مشکل کا شکار ہوا تو میرے ایک فون کال پر اجنبی سے اجنبی بندہ کیسے میری مدد کو پہنچا۔ حوالے کے لیے آخر پر ایک لنک دوں گا۔ ضرور دیکھیے گا۔ اب کی بار میں جب چکوال میں تھا اور ایک آب شار پر جانا مقصود تھا۔ لطف والی بات یہ ہے کہ اس آب شار کی پن لوکیشن میرے پاس تھی۔ فرحان نے بھی خاص تائید کی تھی کہ یہ پن مجھے سیدھا آب شار پر لے جائے گی مگر نہ جانے کیوں میں بھول گیا اور یہاں وہاں بھٹکنے لگا۔ ڈیم کے پاس کھڑے ہو کر آب شار نظر تو آتی تھی مگر راستہ نہیں مل رہا تھا کہ آب شار تک کیسے پہنچا جائے۔ دو تین راہ چلتے لوگوں سے پوچھا تو سب نے ہی لاعلمی کا اظہار کیا۔ ایسے میں مجھے خیال آیا کہ قریبی ڈیم پر چلتے ہیں شاید وہاں موجود کسی شخص کو پتا ہو۔ میں ڈیم پر پہنچا تو کچھ مقالہ لڑکے منہ لٹکائے بیٹھے تھے۔
معلوم ہوا کہ قریبی علاقے سے آب شار دیکھنے آئے تھے مگر انھیں آب شار نہیں مل رہی۔ بس سڑک سے نظر آتی تھی۔ کون سی پہاڑی سے اس کا ٹریک جائے گا، کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے سب کو پکڑا اور تقریر کرڈالی کہ سب مل کر راستہ تلاش کرتے ہیں۔ خدا کی قدرت دیکھیں کہ جب میں نے ان منہ لٹکائے نوجوانوں کا ہاتھ پکڑا تو ایک دم سے ذہن میں آیا کہ اس آب شار کی لوکیشن تو میرے موبائل میں پڑی ہے۔ میں نے فوراً لوکیشن لگائی اور گوگل صاحب نے ہمیں کچھ ہی دیر بعد آب شار کے سامنے لا کھڑا کیا۔ سارے ہی بڑا خوش ہوئے۔
بتانے لگے کہ وہ لوگ دو گھنٹے سے یہاں بے یارو مددگار بیٹھے تھے اور مایوس واپس اپنے گھروں کو جانے والے تھے کہ میں وہاں پہنچ گیا اور ان سب کو لے کر آب شار پر آ گیا۔ قدرت کو شاید ان سیاحوں کو آب شار دکھانا مقصود تھا، اسی لیے مجھے بھی بھلا دیا گیا کہ میرے پاس آب شار کی پن لوکیشن ہے ورنہ میں ڈیم سائیٹ پر کیوں کر جاتا۔ میرا سفر لمبا تھا تو میں کچھ ہی دیر وہاں بیٹھ کر واپس آ گیا۔ ہم واپسی کے لیے اٹھے ہی تھے کہ وہ لڑکے میرا شکریہ ادا کرنے کے لیے آئے اور ایک تصویر کی درخواست کی۔ ایک لڑکے کے ہاتھ میں ایک پیارا سا جھنڈا تھا۔ میں نے جھنڈے کو پھیلا دیا اور بولا ’’اب بناؤ فوٹو۔۔۔۔‘‘
Chakwal Canyons
ہماری اگلی منزل اب چکوال کا منی ہنگول تھا۔ دنیا بھر عجیب و غریب نوکیلے یا پتھریلے پہاڑ موجود ہیں جو عجیب و غریب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوب صورت اور منفرد بھی نظر آتے ہیں۔Canyon ایسی وادی یا کھائی کو کہا جاتا ہے جو ہوا کی رفتا، دریا کے کٹاؤ یا پھر دریا کے راستہ بدلنے کی وجہ سے وجود بھی آئی ہو۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں Canyon موجود ہیں۔ سب سے بڑے canyon امریکا کے North Arizona کے Grand canyon پارک میں موجود ہیں جن کی عمر کا اندازہ پانچ سے چھے ملین سال لگایا گیا ہے۔ ان کی اونچائی تقریباً چھبیس سو فٹ جب کہ لمبائی تقریباً ساڑھے چار سو کلو میٹر ہے۔ چوڑائی ہر جگہ سے ایک جیسی نہیں۔ کم سے کم چوڑائی سات کلو میٹر جب کہ زیادہ سے زیادہ چوڑائی تیس کلومیٹر ہے۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ہنگول نیشنل پارک میں بھی ایسے بہت سی وادیاں یا کھائیاں موجود ہیں جو عجیب و غریب تو ہیں ہی مگر خوب صورت بھی بہت ہیں۔ ہنگول نیشنل پارک کے بارے میں تو تقریباً سب ہی جانتے ہیں جسے اگر آپ نے کھلی آنکھ سے نہ بھی دیکھا ہو تو کم از کم تصاویر کی صورت تو کہیں نہ کہیں ضرور دیکھا ہو گا۔ ہمارے پنجاب میں بھی ایک منی ہنگول چکوال شہر سے فقط چند کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے جو زیادہ نہیں تو کم از کم پچاس سے ساٹھ سو سال پرانے تو ضرور ہوں گے۔ ان canyon کو چکوال canyon کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دور سے یہ سب چٹانیں معلوم پڑتی ہیں مگر اصل میں یہ مٹی کے چھوٹے چھوٹے سلسلے ہیں جو دریا کے راستہ بدلنے کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں سے دریائے دراب گزرتا تھا جو کہ دریائے سواں کا معاون دریا ہے۔ اب دریائے دراب کے پانی اصل مقام سے بہت دور جا چکا ہے۔
اگر آپ نے دریائے دراب کا نام کبھی نہیں بھی سنا تو موٹر وے پر سفر تو ضرور کیا ہو گا۔ کلر کہار اور بلکسر کے درمیان جب اچانک سے موٹر وے نیچے کی طرف جاتی ہے تو یہ ایک چھوٹے دریا پر سے گزرتی ہے۔ یہی دریائے دراب ہے جو آگے جا کر دریائے سواں میں گرتا ہے اور دریائے سواں خطے کے ہر دریا کی طرح دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔ پنجاب کا منی ہنگول کہلانے والے چکوال canyon کے درمیان میں ایک مٹی کا آدمی بھی بیٹھا جو ہو بہ ہو شطرنج کے بادشاہ کی مانند ہے۔ یہ علاقہ کم و بیش تین مربع کلو میٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دریائے راوی بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کو چھوتا تھا مگر آج دیکھیں دریائے راوی کہاں ہے۔
اسی طرح دریائے سندھ بھی بہت پہلے بھارتی گجرات کے مقام پر بحیرہ عرب میں گرتا تھا مگر آج یہ کراچی کے سمندر میں شامل ہوتا ہے۔ دریائے دراب نے بھی جب کچھ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اپنا رخ تبدیل کیا تو یہ ساری چٹانیں بہت پیچھے رہ گئیں اور دریا کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ چکوال تو چکوال، میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر آپ پنجاب کی زمین کے واسی ہیں تو اس جگہ کا حق ہے کہ آپ اس علاقے کی طرف جائیں، اس زمین پر قدم رکھیں کہ یہ زمین کبھی کسی زمانے میں کسی دریا کی گزر گاہ رہی ہے۔